نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی( NDMA ) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ کورونا وبا کیخلاف قومی جنگ میں برسر پیکار طبی عملے اور ہسپتالوں کیلئے حفاظتی لباس(PPE's )سمیت تمام ضروری آلات چین اور دوسرے ممالک سے خریدنے کیلئے فنڈز کسی صوبائی حکومت نے نہیں ‘بلکہ مرکزی حکومت نے مہیا کئے ہیں۔ کورونا سے متعلقہ تمام حفاظتی سامان کی سرعت سے دستیابی کیلئے NCC اورNDMA کی کوششوں کو نہ سراہا جا نا زیادتی ہو گی۔واضح رہے کہ کورونا کے خلاف ہراول دستہ ڈاکٹرز‘ نرسز‘ پیرامیڈکس‘ طبی عملہ کی حفاظت کیلئے اہم قدم‘موذوں وقت اور صورت ِ حال میں درست حفاظتی لباس کے استعمال کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے معالجین‘ طبی عملے کیلئے ہدایت نامہ بھی تیار کیا ہے اور یہ ہدایت نامہ ملک بھر کے تمام ہسپتالوں کی آئسولیشن‘ کورونا وارڈز‘ آئی سی یوز‘ لیبارٹریز میں آویزاں کر دیا گیا ہے‘ جس میں ڈاکٹرز‘ نرسز‘ پیرامیڈکس کیلئے حفاظتی لباس کی مکمل معلومات فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ‘لیبارٹری ٹیکنیشنز‘ طبی عملے کیلئے بھی ہدایات باہم موجود ہیں‘ جبکہ ایمبولینس ڈرائیورز‘ مریضوں کیلئے بھی مخصوص لباس کی ہدایات دی گئی ہیں‘ نیز NDMA کی طرف سے کوئٹہ اور گلگت سمیت بہت سے دشوار گزار علا قوں میں ہیلی کاپٹروں اور ایئر فورس کےC130 طیاروں کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کیلئے درکار یہ سامان ملک بھر میں بر وقت سپلائی کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان خود NDMA کی کاروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں‘ تاکہ کسی بھی صوبے کوطبی لباس اور آلات کی فراہمی میں دیر نہ ہو‘ ہاں یہ ضرور ہوا کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متعلق ضروریات کی فراہمی میں کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑا اور اس صورتِ حال کاپوری دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
دوسری طرف سننے میں آ رہا ہے کہ ایک صوبائی حکومت ڈرافٹ تیار کر چکی ہے‘ جسے وہ جلدآرڈیننس کی صورت میں نافذ کرنے جا رہی ہے ‘ تاہم یہ آرڈیننس اپنے اندر بہت سے سوالات لئے ہوا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پی پی پی نے جان بوجھ کر اس مجوزہ آرڈیننس کو لیک کیا ہے‘ تاکہ سندھ بھر کے برسر اقتدار پارٹی کے سربراہ کے اس انقلابی اعلان پر خوشی سے جھومنا شروع کر دیں۔ اطلاعات ونشریات کے اس تیز رفتار دور میں جیسے ہی اس آرڈیننس کی تفصیلات کچھ مخصوص میڈیا ہاؤسزکو ریلیز کی گئیں‘ تو ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہر شخص مسرت اور خوشی سے اسے دیکھنا اور سننا شروع ہو گیا اور پھر سیٹیلائٹ نے اس خبر کو ہر گھر تک پہنچا دیا‘ جہاں جہاں موبائل کی رسائی ہو سکتی تھی‘ تاہم جیسے ہی اس آرڈیننس کی بابت خبر آن ایئر ہوئی‘ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان حیران رہ گئے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت کس قانون اور آئین کی رو سے اس طرح کا آرڈیننس جاری کر سکتی ہے ؟ آج اگر پاکستان کی اکائیوں میں سے کوئی ایک اعلان کر دے کہ یہاں سے کوئی بھی اب ٹیکس ادا نہیں کرے گا یا وہ خود سے ایف بی آر کو کہہ دے کہ دو ماہ کیلئے اس کے صوبے کے لوگ انکم اور سیلز ٹیکس ادا نہیں کریں گے یا وہ اپنے عوام کو خوش کرنے کیلئے یا اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے یہ کہہ دے کہ تین ماہ کیلئے بجلی کے بل سب کو معاف کر دیئے جائیں گے اور ان کے اس اعلان پر اس اکائی کے لاکھوں بجلی صارفین خوشیاں منا نا شروع کر دیں اور ساتھ ہی پہلے سے کئی گناہ زیادہ بجلی کا استعمال بڑھا دیں ‘تو کیا اقدام آئین شکنی کی ذیل میں آئے گا؟
سوال یہ ہے کہ کیا صوبائی تعصب کا بیج بونے کیلئے ایسا کیا جا رہا ہے؟ گزشتہ ایک برس سے کہا جا رہا ہے کہ وفاق‘ سندھ کے اصلی فنڈز اس کے حوالے نہیں کر رہا‘ جبکہ وفاقی حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ اس نے صوبے کیلئے مقرر کی گئی گرانٹ سے زیا دہ فنڈز ریلیز کر دیئے۔ اگر یہ سامنے لایا گیا‘ تویہ کوئی معمولی آرڈیننس نہیں ہو گا ‘جس میں درج ہے کہ لاک ڈائون اور کورونا وائرس کی وجہ سے پانی بجلی اور گیس کے بلوں میں صوبے کے صارفین کو پچاس فیصد تک معافی دی جائے گی‘جبکہ دوسری طرف صورت ِ حال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان دنیا بھر کے امیر ممالک اور مالیاتی اداروں سے مدد کی اپیل کرنے کے ساتھ پہلے سے لئے گئے قرضوں کے ری شیڈول کی درخواستیں کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ بجلی کی پیداوار اور اس کی تقسیم آئین پاکستان کی رو سے مرکزی حکومت کی ذمہ داری میں آتی ہے۔ اب‘ کوئی اکائی اپنی جانب سے اعلان کر دے کہ میرے صوبے کے لوگ مارچ‘ اپریل اور مئی تین ماہ کے بجلی گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگیاں نہیں کریں گے‘تو پھر پاکستان کے سب سے غریب صوبے بلوچستان ‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا کیا قصور ہے؟جب ان تمام صوبوں کے بجلی کے بل تین ماہ کیلئے معاف کر دیئے جائیں گے تو پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا کیسے پیچھے رہ سکیں گے ۔ پی پی پی کی قیا دت نے ایسے وقت میں جب پوری قوم لاک ڈائون اور کورونا وائرس کے خوف اور احتیاطی تدابیر کی وجہ سے ایک بحران کا شکار چلی آ رہی ہے اور اس کی وجہ سے ملکی معیشت کا پہیہ جام ہونے کی صورت میں کاروبار حیات ٹھپ ہو چکا ہے‘ تو بتایئے ایسے میں دنیا کی وہ کون سے مضبوط سے مضبوط معیشت والی حکومت ہے‘ جو اپنے چار کروڑ سے زائد بجلی صارفین کے تین ماہ کیلئے بل معاف کر دے؟اور کون سا مالیاتی ادارہ آپ کو رعایت دینے کی سوچے گا؟ایک ادارہ جو مرکزی حکومت کے تحت کام کرتا ہے‘ اس کے اختیارات کوئی صوبہ کیسے استعمال کر سکتا ہے ؟بلاول بھٹو زرداری اپنی تقریروں میں بار بار اعلان کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کو اگر چھیڑا گیا تو ہم اس کی سخت مزاحمت کریں گے۔ اب‘ اگر وفاق اسی اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دیئے گئے وفاقی حکومت کے اختیارات کو خود استعمال کرے‘ تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔اب ‘جب وفاقی حکومت کے بجلی پیدا کرنے والے حیسکو‘ سیسکو یا کے الیکٹرک اپنے صارفین کو بجلی کے بل بھجوائیں گے اور ان کی ادائیگیوں کی معافی کے شوشے کی وجہ سے اس لئے روک دی جائیں گی کہ صارفین سے وعدہ کر لیا گیا ہے کہ تین ماہ کیلئے سب کے بجلی بل معاف تو اندازہ کیجئے کہ صوبے کے دیہی عوام کا رد عمل کیا ہو گا؟ اور یہ رد عمل کس کے خلاف ہو گا؟ جبکہ صورت ِ حال یہ ہے کہ معافی کا سن کر ابھی سے جب سندھ میں گرمیاں شروع ہو چکی ہیں‘ بجلی کا استعمال کئی گنا بڑھتا جا رہا ہے ۔
میرے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ‘جبکہ باقی دنیا کی طرح ہمارا ملک بھی کورونا وائرس کی وبا کے باعث شدید بحران کا شکار ہے اور کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ مستقبل قریب یا بعید میں کیا ہونے والا ہے‘ نا صرف صوبائی ہم آہنگی کو فروغ دیا جانا چاہیے‘ بلکہ صوبوں اور وفاق کے مابین بھی رابطوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہیے کہ اس موذی بلا‘ یعنی کورونا وبا کا ملکر اور متحد ہو کر مقابلہ کیا جا سکے۔ جہاں تک یوٹیلیٹی بلوں کے حوالے سے صارفین کو ریلیف دینے کا تعلق ہے‘ تو ایسے اقدامات‘ صوبوں اور وفاق کی باہمی مشاورت سے کیے جا سکتے ہیں۔