راجستھان کے شہر بھرت پور میں ایک حاملہ خاتون پروین کو بچے کی پیدائش کیلئے ہسپتال لایا گیا تو کہا گیا آپ خاتون کو چیلا ہسپتال لے جائیں‘ وہاں سے چیلاہسپتال لے کر پہنچے تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر ونید کمار نے اس عورت کے خاوند سے اس کا نام پوچھا ‘جب اس نے اپنا نام عرفان خان بتایا تو یہ سنتے ہی کہ خاتون اور اس کا خاوند مسلمان ہیں ڈیوٹی ڈاکٹر نے سٹاف سے کہا کہ اس کا ریفر کارڈ بنا کر کسی د وسرے ہسپتال بھجوا دو یہاں انہیں داخل نہیں کرسکتے‘ ہزار منتیں کرنے کے با وجود ڈاکٹر ونید کمار نے خاتون کو داخل کرنے سے انکار کر دیا‘ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ حاملہ خاتون درد سے بری طرح کراہ رہی ہے۔ یہاں سے عرفان اپنی بیوی کو رکشہ میں لے کر جا رہا تھا کہ راستے میں ہی بچے کی پیدائش ہو گئی‘ لیکن بچہ پیدا ہوتے ہی مر چکا تھا۔ اس بچے کی ماں کو بھرت پور اور چیلا کے ہسپتالوں سمیت تمام جگہوں سے دھتکار دیا گیا کیونکہ وہ نریندر مودی کے انتہا پسند معاشرے میں ایک مسلمان کے گھر پیدا ہونے جا رہا تھا۔دوسرا واقعہ بھارت کی ریاست کرناٹک کا ہے ‘ جہاں دریائے کرشنا کے کنارے تین مسلمان نوجوان مچھلیاں پکڑنے کیلئے کنڈے لگائے بیٹھے تھے کہ ساتھ کے گائوں سے دس بارہ ہندو انتہا پسندوں پر مشتمل ایک جتھا وہاں آن پہنچا اور مسلمان لڑکوں کو پہلے تو غلیظ گالیاں دیں پھر ان تینوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کی وجہ سے بھارت میں کورونا وائرس پھیل رہا ہے۔ ان تینوں مسلم نوجوانوں پر انتہا پسند ہندوئوں کے جتھے کے تشدد کی وائرل ہونے والی ویڈیو کوئی نارمل آدمی دیکھ نہیں سکتا۔
آج بھارت کے طول و عرض میں بسنے والا ہر مسلمان شدید خوف و ہراس کی فضا میں زندگی بسر کر رہا ہے۔متنازعہ سٹیزن ایکٹ کے مسئلے سے ابھی نکلنے نہ پائے تھے کہ کورونا وائرس کا پھندا مسلمانوں کے گلے میں ڈال دیا گیا‘مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ'مودی کی لوک سبھا میں کی جانے والی مختصر تقریر کے مطا بق‘ یا تو مسلمان بھارت سے نکل جائیں یا '' پرکھوں کی واپسی‘‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیں ۔ بھارت کی سرکاری مشینری میں اعلیٰ اور درمیانے عہدوں پر چھائی ہوئی دہشت گردی کی وارداتوں کی سرخیل وشوا ہندو پریشد نے بھارت بھر میں تبلیغی جماعت اور اس کے دہلی مرکز کو مکمل طو رپر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت بھر میں اپیل کر دی ہے کہ جہاں بھی انہیں دیکھیں ان کو سبق سکھا دیں۔ وہ یہ لغو الزام لگاتے ہیں کہ بھارت میں کورونا وائرس ان کی وجہ سے پھیلا ہے۔ تبلیغی جماعت کے تمام بینک اکائونٹس‘ دفاتر اور ہوسٹل سیل کرنے کے علاوہ تمام بینکوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے اکائونٹس آپریٹ کرنے والے بینکوں کا عام بائیکاٹ کرا دیا جائے گا‘جبکہ دو روز پہلے کی خبر ہے کہ تبلیغی جماعت کے رہنما محمد سعد کاندھلوی کے خلاف دہلی پولیس نے کورونا وائرس پھیلانے کے من گھڑت الزامات پر اقدامِ قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کردیا ہے۔
کورونا کسی خاص مذہب ‘گروہ یا فرقے کی وجہ سے نہیں پھیلتا ورنہ دنیا کے190 سے زائد ایسے ممالک بھی اس کا شکار نہ ہوتے جہاں تبلیغی جماعت کا گزر بھی نہیں ہوا۔ نریندر مودی اور اس کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے وزیروں اور لیڈروں نے بھارت بھر میں یہ اعلانات شروع کرا رکھے ہیں کہ'' بھارت میں کورونا وائرس مسلمانوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے‘‘ میڈیا اور کٹر ہندو اخبارات اور اینکرز نے آر ایس ایس کے لیڈروں کے بیانات کو نمک مرچ لگا کر شہ سرخیوں اور بریکنگ نیوز کی شکل میں اچھالنا شروع کر رکھا ہے کہ مدرسے‘ مسجدیں اور اجتماعات کورونا وائرس کو بھارت میں لے کر آئے ہیں۔دہلی کے مسلمان ابھی اپنے قتل کئے گئے چالیس سے زیا دہ پیاروں کے غم میں نڈھال تھے‘ ابھی اپنے جلے ہوئے گھروں اور دکانوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آنسو بہا رہے تھے‘ ایک وقت کی روٹی کیلئے پیٹ پر پتھر باندھ کر کمانے کے چکر میں نکلنا شروع ہو رہے تھے کہ ان پر ایک اور افتاد یہ کہتے ہوئے ڈال دی گئی کہ بھارت میں کورونا وائرس کی وجہ مسلمان ہیں۔کل تک بھارت کی فلمی صنعت ‘ کلچراور ادب سے وابستہ مسلمانوں کو ہندوئوں کی پوش آبادیوں میں اس لیے گھر خریدنے یا کرایہ پر لینے کی اجا زت نہیں دی جا رہی تھی کہ ان کے گھروں سے گوشت کی بو آتی ہے۔ اگر کسی ہندو نے اپناگھر یا فلیٹ کرایہ پر دینا ہو تو رئیل اسٹیٹ والوں کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی مسلمان کو یہ گھر نہیں دینا اس سلسلے میں شبانہ اعظمی اور اور ان کے شوہر معروف شاعر جاوید اختر کی وہ مشہور زمانہ پریس کانفرنس سب کو یاد ہے جس میں انہوں نے روتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تو صرف نام کے مسلمان تھے‘ یہی کچھ عمران ہاشمی اور بھارت کی مشہور کپور پنڈت فیملی کی بیٹی کرینہ کپور سے شادی کرنے والے سیف علی خان کے ساتھ کیا گیا۔ اس سے بھارت کے سیکولر ازم کا بہترین اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پوش آبادیاں جہاں بسنے والے ہندو انتہائی تعلیم یافتہ ‘ سیکولر اور لبرل خیالات کے حامل ہونے کے دعویدار ہیں‘وہ بھی مسلمانوں سے اپنا فطری کینہ چھپا نہیں پاتے۔انہیں اتنا بھی گوارہ نہیں کہ ان کی سوسائٹی میں ان کے دائیں بائیں یا ان کے سامنے کسی مسلمان کا گھر یا دفتر ہو۔
مسلمانوں کو دنیا بھر میں بد نام کرنے اور اپنے اقدامات کو جائز ثابت کرانے کیلئے بالی وڈ کے ماہرین نے فوٹو شاپ کی ہوئی تصاویر اور خود ساختہ ویڈیوزاخبارات ‘ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلاناشروع کر دی ہیں۔ ان میں سے ایک ویڈیو میں ایک شخص کو مسلمانوں کے لباس اور ظاہری صورت میں دہلی کے ایک پولیس کانسٹیبل پر تھوکتے ہوئے دکھایا گیا‘ مقصد یہ تھا کہ افواہ پھیلائی جا سکے کہ پولیس کے لوگ ان مسلمانوں کے تھوکنے سے کورونا کا شکار ہوئے ہیں۔ چلیں ایک لمحے کیلئے مان لیتے ہیں کہ ان مسلمانوں کے تھوکنے سے پولیس کے جوان کورونا وائرس کا شکار ہوئے‘ تو پھر ان مسلمانوں کو جب گرفتار کیا گیا تو انہیں بجائے قرنطینہ میں رکھنے کے جیل میں کیوں ڈالا گیا؟ اگر وہ مسلمان کورونا کا شکار تھے‘ اگر ان کے رزلٹ پازیٹو تھے تو ان کو ہسپتالوں میں کیوں داخل نہیں کیا گیا؟ کسی معالج یا ہسپتال سے علاج کرائے بغیر یہ مسلمان اب تک زندہ و سلامت کیسے ہیں؟ اور میرا سب سے بڑا سوال بھارتیوں سے یہ ہے کہ اس'' مسلمان‘‘ کا کوئی گھر بار بھی ہو گا‘ اس کے والدین اور دوست ساتھی بھی ہوں گے‘ کیایہ سب لوگ جو اس کے ساتھ رہ رہے تھے‘ وہ سب یا ان میں سے کوئی ایک بھی کورونا وائرس کا شکار ہوا ؟ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عامر علی سے جب میڈیا کے کچھ لوگوں نے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ اسلام فوبیا بھارت میں کورونا وائرس سے بھی زیا دہ خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کے حامل ہندوستان میں بیس کروڑ کے قریب مسلمان ہمہ وقت خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں‘ انہیں ہر دم ایک ہی خدشہ لگا رہتا ہے کہ آر ایس ایس کے جنونی ان کی دکانیں اور گھر بار نذر آتش کرنے کیلئے نہ نکل پڑیں۔
بھارت میں کورونا کی وجہ مسلمان ہیں تو نیو یارک کے مین ہیٹن اور جیکسن ہائٹس جیسے علاقے جہاں انڈینز کی اکثریت رہائش پذیر ہے ‘وہاں کورونا وائرس کی وبا کون پھیلا رہا ہے؟ نیو یارک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطا بق کورونا سے ہلاک ہونے والوں میں سے34 فیصد کا تعلق نیپال اور بھارت کی ہندو کمیونٹی سے ہے۔