"MABC" (space) message & send to 7575

پاکستان کوالرٹ رہنا ہو گا

یہ اپریل 1984ء کی بات ہے‘ جب بھارت نے سیاچن گلیشیر کے قریباً دو تہائی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔واضح رہے کہ پہلی پاک بھارت جنگ کے بعد 1949ء میں بھارت اور پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کے درمیان ایک معاہدہ ٔکراچی ہوا تھا‘ کیونکہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو‘ مسئلہ کشمیر لو لے کر اقوام متحدہ گئے تھے‘ جہاں اقوام کی ضمانت پر خود انہوں نے ان قراردادوں کو منظور کیا تھا کہ کشمیر کا فیصلہ خود کشمیریوں کی مرضی سے استصواب ِرائے کی بنیاد پر ہو گا اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے جو علاقے پاکستان کے کنٹرول میں تھے اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے کے درمیان سیز فائر لائن طے پاگئی تھی‘پھر 1965ء کی جنگ کے بعد سابق سوویت یونین اور امریکہ نے بھارت کی جان خلاصی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہو ئے جیتی ہوئی جنگ کے باوجود تاشقند کا معاہدہ کر وایا‘ جس میں بھی تمام علاقے جو1947-48ء کی جنگ میں پاکستان کے قبضے میں آئے تھے‘ وہ اس وقت معاہدہ ٔکراچی کی پوزیشن پر فوجوں کی واپسی کی بنیاد پر طے ہوئے تھے اور پھر جب 1971ء کی جنگ کے بعد 1972ء میں شملہ معاہد طے پایا تو اگر چہ اس وقت بھارت کی وزیر اعظم نے معاہدہ تاشقند کے اصول کو نہیں تسلیم کیا تھا اور سیزفائر لائن کی جگہ (لائن آف کنٹرول )قرار پائی تھی‘ وہ 1971ء کی جنگ ‘جن کے مقامات پر بند ہوئی تھی ‘انہی خطوط پر طے ہوئی تھی‘ مگر اس میں بھی سیاچن گلیشیر کا علاقہ پاکستان کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا‘اسی طرح 1962 ء سے پہلے جب چین ‘جس کو امریکہ نے ویسے ہی تسلیم نہیں کیا تھا؛ اس چین کے تعلقات سوویت یونین سے خراب ہو ئے‘ تو بھارت نے دونوں بڑی قوتوں ‘یعنی سوویت یونین اور امریکہ سے اپنے بہتر مفادات کے لیے چین جیسے اچھے اور بہتر ہمسایہ سے تعلقات بگاڑ لیے تھے۔
مقبوضہ کشمیر پر ظالمانہ بھارتی قبضہ‘ 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی سازش اور پھر سیا چن گلیشیر پر ناجائز قبضہ ‘یہ سب گواہی دیتا ہے کہ بھارت کا جنگی جنون اور علاقے کے امن کو تباہ و برباد کرنے کی حماقت واضح ہے۔ بد قسمتی دیکھئے کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی جارحیت کے خلاف قرارداد 23 ملکوں کے ووٹوں کے مقابلے میں 116 ووٹوں سے منظور ہوئی اور امریکہ اور مغربی دنیا سمیت اکثر ملکوں نے سوویت یونین کیخلاف افغان مجاہدین کی مزاحمت کو ضروری سمجھا اور پاکستان کی جانب سے ان مجاہدین کے اہل ِخانہ کو پاکستان میں 35 لاکھ کی تعداد میں پناہ دینے پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ملکوں نے اسے انسانی حقوق اور انسانیت کی بنیاد قرار دیکر پاکستان کی تعریف کی‘عین اسی وقت 1982ء میں بھارت پاکستان کے سب سے بڑے گلیشیر پر قبضہ کرنے کا پورا منصوبہ تیار کر چکا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ جنگ دنیا کے بلند ترین محاذ پر سطح سمندر سے 21000 فٹ کی بلندی پر لڑی جانے والی تھی۔ ان دنوں آزادیٔ مقبوضہ کشمیر اور خالصتان کی جدوجہد زوروں پر تھی اور بھارت اس کا مقابلہ یوں کر رہا تھا کہ وہ پاکستان میں تخریبی کارروائیاں شروع کروا چکا تھا۔ دوسری بڑی قوت سوویت یونین کا سامنا تھا ‘جو بہرحال بھارت سے اس لیے بھی تعاون کر رہا تھا کہ اس طرح وہ پاکستان پر متواتر دباؤ ڈال کر اسے مجاہدین کی بھرپور حمایت اور مدد سے باز رکھ سکے۔سوچئے کہ ایک طرف ایسا ملک تھا ‘جو اس وقت امریکہ اور مغرب کی صدیوں کی خواہشات کی تکمیل کیلئے روس جیسی سپر پاور کو کمزور کرنے کیلئے اس سے ٹکرا رہا تھا‘ تو دوسری طرف وہ ملک ‘جو امریکیوں سمیت مغرب کے گلے کی ہڈی بنے کمیونسٹ ملک روس کی کھل کر پشت پناہی کررہا تھا۔ 
پاکستان دنیا کے اس بلند ترین محاذ سیاچن گلیشیر پر گزشتہ 36 برسوں سے بھارت کی فوجوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ سیاچن جو دنیا کا سب سے بلند اور سرد ترین محاذ جنگ ہے۔ انسانی تاریخ میںآج تک اتنی بلندی اور شدید سرد مقام پر کبھی جنگ نہیں ہوئی۔ سیا چن اور اس کے قریب واقع تمام بڑے گلیشیر پاکستان کے ہیں اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ہی سے دنیا کے کوہ پیما بلند چوٹیوں کو سر کرنے سیا چن گلیشیر کو سرکرنے دیکھنے کے لیے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک تعلق یہاں کسی فوجی چوکی وغیرہ کا ہے تو یہ غالباً کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس جگہ جہاں زندگی ممکن نہیں‘ دو ملکوں کی فوجوں کے درمیان لڑائی ہو گی۔بھارت نے یہاں قبضے کا منصوبہ کافی پہلے سے بنا رکھا تھا‘ اس بلند اور سرد ترین مقام پر قیام کرنے کیلئے خاص قسم کا لباس‘جوتوں ‘ ٹوپیوں اوردیگر فوجی سامان کی ضرورت ہوتی ہے‘ یوں بھارت نے اس کا پہلے سے انتظام کر لیا تھا۔ 1982 ء میں جب پاکستان کو اس کی اطلاعات ملیں تو پاکستان کی فوج نے فوری طور پر سیا چن گلیشیر پر اپنے فوجی دستے تعینات کرنے کا پروگرام بنایا اور اس کے لیے 1983ء میں لندن کی ایک فرم کو جو ایسے سرد ترین مقامات پر جانے والے مہم جو افراد کیلئے خصوصی لباس تیار کر تی ہے‘اسے سیا چن گلیشیر پراپنی فوج کیلئے خصوصی یونیفارم وغیرہ کے آرڈردئیے۔ بد قسمتی سے بھارت نے بھی اسی فرم سے اپنے فوجیوں کیلئے یونیفارم بنوا ئے تھے‘ یوں بھارت کو یہ خبر مل گئی اور اس نے بھی اپنی تیار ی تیز تر کر دی۔ واضح رہے کہ سیا چن تک جانے لیے زیادہ تر زمینی راستے پاکستانی علاقے سے جاتے ہیں ‘کیو نکہ یہاں ڈھلوان سے اوپر بلندی تک راستہ کم خطرناک ہے اور پاکستانی علاقے میں یہاں1984ء میں لڑائی سے چند ماہ قبل جاپانی کوہ پیما ''رینو ‘‘چوٹی کو سر کرنے گیا تھا۔ سیاچن پر بھارتی قبضے کو 36 برس گزر چکے اور ستم ظریفی دیکھیے کہ مقبوضہ کشمیر کی طرح سیا چن کا ایجنڈا بھی آج تک بھارت کے ان ہمدردوں اور رازداروں نے اپنی اپنی مصلحتوں اور جغرافیائی مفادات کے نیچے دبارکھا ہے ۔ 
اس وقت پورے بھارت سمیت دنیا کے ہر کونے میں بیٹھاہواانتہا پسند ہندو پاکستان کی نفرت میں آگ کا گولہ بنا بیٹھا ہے اور بھارت میں راشٹریہ اور جن سنگھ سمیت وشوا کے کارکن جگہ جگہ کرش پاکستان کے نعرے لگائے رہے ہیں اور بھارت میں مقیم بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کے خون سے ہولی اس لئے نہیں کھیلی جا رہی کہ وہ بھارتی مسلمان ہیں‘ بلکہ نریندر مودی کی آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد نے نفرت کو اس حد تک نقش کر دیا ہے کہ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کو پاکستان کا دوسرا نام دے رکھا ہے۔ کسی بھی مسلم خاتون سے زیا دتی یا مردوں کا قتل کرتے ہوئے وہ یہی کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو سبق سکھا رہے ہیں۔ ابھی شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے بعد دلی بھر میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گھر بار سمیت دوسری املاک کو نذرِ آتش کرتے ہوئے کرش پاکستان کے ہی نعرے لگائے گئے۔ میرا شک سمجھ لیں یا چھٹی حس کہ کورونا وائرس کے نام پر بھارت بھر میں لگایا جانے والا سخت لاک ڈائون اور کچھ عرصے کے کرفیو کے دوران ممکن ہے کہ اس نے اپنی افواج اور اس کے حساس فوجی ہتھیاروں کی موومنٹ کر رہا ہو؟ گزشتہ دو ہفتوں سے مقبوضہ کشمیر میں تعینات انڈین آرمی کی 15 ویں کور کے کمانڈر کے خصوصی انٹر ویو کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے کہے گئے الفاظ کے ساتھ اس کے اندازِ بیان‘ جسے ہم باڈی لینگوئج کا نام دیتے ہیں‘ پرانتہائی غور کرنا ہو گا‘ جس میں وہ الزام لگا رہا ہے کہ لائن آف کنٹرول سے پاکستان ‘ کشمیر میں مجاہدین کو داخل کررہا ہے۔ ممکن ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تک کچھ ایسی اطلاعات پہنچ چکی ہوں ‘جس پر انہوں نے خبردار کیا ہے کہ بھارت نے اگر کرونا وائرس کی آڑ میں لائن آف کنٹرول پر کسی بھی قسم کی کارروائی کی تواس کا سخت ترین جواب دیا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں