ایوان ِصدر میں 20 اپریل کو وزیر اعظم عمران خان اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کی صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے غیر متوقع ملاقات اور پھر 23 اپریل کو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے چند سینئر ترین وزراء کی اہم قومی ادارے کے ہیڈ کوارٹر میں اچانک اور بہت ہی سیکرٹ بریفنگ پر ملک بھر کا میڈیا اور دفاعی ماہرین مختلف زاویوں سے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ کوئی اسے ملک کے سیا سی نظام میں کوئی بہت بڑی تبدیلی تو کوئی کورونا وائرس کے حوالے سے کی جانے والی احتیاطی تدابیر اور لاک ڈائون کے نتیجے میں ملکی معیشت پر پڑنے والے انتہائی خطرناک اثرات کا حوالہ دے رہا ہے‘ لیکن اگر یہ پتا چل جائے کہ20 اپریل کو ہندوستان کی ایک بڑی فوجی چھائونی بنگلور سے فوج کے مختلف شعبوں سے تربیت کیلئے بھیجے گئے ایسے تمام فوجی افسران کو مقبوضہ جمو ں و کشمیر پہنچایا جا رہا ہے توسوال پیدا ہو تا ہے کہ وہاں پہلے سے سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور ڈیڑھ لاکھ بارڈر سکیورٹی فورسز اور پولیس کی مو جودگی کے با وجود راشٹریہ سیوک سنگھ کے پردھان منتری کو آخر کیا ضرورت پڑ گئی کہ20 اپریل کو بنگلورچھائونی سے ایک سپیشل ٹرین700 فوجی افسران کو لے کر مقبوضہ جموں و کشمیر پہنچائی گئی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
جیسا کہ چند روزقبل اپنے ایک مضمون میں خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لکھ چکا ہوں کہ ایسے وقت میں جب بھارت بھر میں سخت لاک ڈائون جیسا کرفیو جاری ہے ‘میری چھٹی حس نہ جانے کیوں خبردار کر رہی ہے کہ بھارت اس دوران کچھ فوجی موومنٹ کر رہا ہو گا‘ جس میں اس کے نیو کلیئر اثاثے بھی شامل ہو سکتے ہیں اور میرے یہ خدشات ایک دن بعد ہی درست ثابت ہو نے لگے ‘ جب فوجی ٹرینوں کے ذریعے بھارتی ٹروپس کورونا وائرس کے بد ترین پھیلائو کے با وجود جموں ریلوے اسٹیشن پر اتررہے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ ایسے تمام فوجیوں کو کہیں ریزرو میں نہیں‘ بلکہ آپریشنل علاقوں میں بھیجا رہا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیاکہ یہ وہ فوجی افسران ہیں‘ جنہیں فوجی تربیتی اداروں میں اپنے پیشہ وارانہ کورسز مکمل کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ایک لمحے کیلئے اگریہ فرض کر لیا جائے کہ دنیا بھر میں کورونا کی مہلک وبا اپنے پنجے گاڑ رہی ہے اور ایسے میں بھارت اپنے خمیر میں گندھی بد معاشی کو کبھی بھی دنیا کے سامنے ننگا نہیں کرے گا تو ایسی سوچ رکھنے والے شاید بھول جاتے ہیں کہ آج کی حکمران جماعت انتہا پسند بی جے پی اگر مسلمان دشمن راشٹریہ سیوک سنگھ کا حصہ ہے تو اس سے پہلے اندرا گاندھی کی کانگریس بھی جن سنگھ اور بال ٹھاکرے کی ماتا کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور آج کی بھارتی بی جے پی سرکار در اصل ایسے ہی انتہا پسندوں پر مشتمل کانگریس سے نکلنے والے انتہا پسند ہندوئوں اور ان کی اولادوں کے ہجوم پر مشتمل ہے۔
پاکستان کے اداروں کے پاس تو بھارتی فوج کی مختلف چھائونیوں سے اس کے فوجی یونٹوں کی بھاری اسلحہ سمیت دھڑا دھڑ مقبوضہ جموں و کشمیر روانگی کی زیا دہ خفیہ معلومات ہو سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہے توبجائے اس کے کہ بعد میں جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنا پڑے ابھی سے سوچ بچار کر لیں‘ تو مناسب ہو گا۔ اس پر ملک کے تمام مقتدر حلقوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے فیصلہ کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہ لیا جائے‘ کیونکہ شمالی وزیرستان اور لائن آف کنٹرول کے ارد گرد مشکوک موومنٹ خطرے سے خالی نہیں‘ کیونکہ جب مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی پندرہویں کور کے کمانڈر برطانوی نشریاتی ادارے کو اپنے ایک مبینہ انٹرویو میں الزامات لگا تے ہوئے کہہ چکے کہ پاکستان سے دہشت گردوں کو کشمیر میں بھیجا جا رہا ہے اور بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پاکستان کو اس کا سبق سکھایا جائے۔ مت بھولئے کہ ابھی نندن اور27 فروری کو پاکستانی ایئر فورس کی مہارت سے آر ایس ایس کے منہ پر لگائے گئے طمانچوں کا درد بھارت کواس لئے بھی ہضم نہیں ہو رہا کہ اس ضرب نے اس کی تمام خلیجی اور عرب ممالک سمیت دنیا میں بٹھائی ہوئی دھاک اور عزت کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ‘ نیز عرب ممالک ایک مرتبہ پھر یہ سوچنے پر مجبور ہو چکے کہ برصغیر میں پاکستان بھی ایک بہت بڑی فوجی طاقت ہے‘۔ عربوں کا جس طرح تمسخر اڑانے کا سلسلہ کروڑوں انتہا پسند ہندوئوں نے دنیا بھر میں شروع کر رکھا ہے‘ اس سے سے تمام عرب ممالک میں اس وقت سوشل میڈیا پر بھارت کیخلاف ایک مہم جاری ہے ۔ خلیج بھر میں سخت لاک ڈائون کی وجہ سے ٹویٹر‘ واٹس ایپ اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا کے تمام جدید ذرائع کا غلبہ ہونے کے سبب عرب ممالک کی نئی اور ان سے پہلے کی نسل کی طرف سے راشٹریہ سیوک سنگھ کی‘ مسلمانوں کیخلاف اقدامات کی مذمت کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے وہ اس طرف زیا دہ دھیان نہیں دیتے تھے ‘لیکن جب سے ہندوؤں نے عرب معاشرے میں ایک دوسرے سے معانقہ کرتے ہوئے چہرے پر بوسہ دینے کے مزاحیہ کارٹون بناتے ہوئے ان کا تمسخر اڑایا تو پھر ان کے ضبط کے تمام بند ٹوٹ گئے‘تاہم اس بھول میں کبھی بھی نہیں رہنا چاہیے کہ بھارت کورونا کی وجہ سے اپنی حدود میں رہے گا‘ جب سیا چن پر اس نے اچانک قبضہ کیا تھا تو افغان جہاد میں یہ کیسے ممکن تھا کہ بھارت کی فوجیں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اپنے کمانڈو دستے سیاچن کی بلند ترین چوٹیوں پر اتارنے کیلئے فوجی تیاریاں کر رہی ہوں اور امریکہ برطانیہ کو اس کی کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی ہو؟ اس میں کوئی شک ہی نہیں رہتا کہ سیاچن پر قبضہ امریکہ اور مغرب کی رضامندی سے ہی کیا گیا تھا ‘کیونکہ اس وقت پاکستان‘ افغانستان میں روس کی کمیونسٹ فوج کے خلاف نبرد آزما تو تھا ہی‘ لیکن اپنے ایٹمی پروگرام میں بھی کامیابی سے آگے کی جانب بڑھ چکا تھا ۔ اس لئے جیسے ہی پاکستان نے یہ منزل عبور کی‘ امریکی سی آئی اے اور وائٹ ہائوس نے بھارت کو سیا چن عبور کرنے کا حکم دے دیا۔اس وقت انڈین آرمی تو آزا دکشمیر کی جانب بڑھنا چاہتی تھی‘لیکن امریکی آڑے آ گئے کہ اس طرح روس کیخلاف ان کی تمام پلاننگ مکمل طورپر خراب ہو جائے گی ۔واضح رہے کہ اس وقت پورے بھارت سمیت دنیا کے ہر کونے میں بیٹھاہواانتہا پسند ہندو ‘پاکستان کی نفرت میں آگ بگولاہوا بیٹھا ہے‘ بلکہ نریندر مودی کی آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد نے مسلمانوں سے نفرت کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ بھارت میں کسی بھی مسلم خاتون سے جبری زیا دتی یا مردوں کا قتل کرتے ہوئے وہ یہی کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو سبق سکھا رہے ہیں ۔
انڈین آرمی کی پندرویں کور کے کمانڈر کے مبینہ انٹر ویو میں اس کی باڈی کاانتہائی غور سے مشاہدہ کرنا ہو گا۔ ممکن ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تک کچھ ایسی اطلاعات پہنچی ہوں ‘جس پر انہوں نے خبردار کیا ہے کہ بھارت نے اگر کورونا وائرس کی آڑ میں ایل او سی پر کسی بھی قسم کی کارروائی کی تواس کا سخت ترین جواب دیا جا ئے گا‘ نیز سی پیک ‘ امریکہ ‘بھارت اور مغرب کو کسی طو ر پر ہضم نہیں ہو رہا‘ جس کا ستون پاکستان ہے اور اس ستون کو گرانے کیلئے امریکہ اور بھارت ہر وہ کوشش کریں گے‘ جو ان کے بس میں ہو گی ‘ لہٰذا اس تناظر میں فوجی چھائونی بنگلور سے مقبوضہ کشمیر میں کمک کو ذہن نشین رکھنا ہو گا۔