کیا یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ وہ عرب ممالک ‘جو بھارتی نریندر مودی کو بہت اہمیت دیتے رہے ہیں‘ آج اس کے مسلم کش اقدامات کی مذمت کر رہے ہیں۔اس کو ستم ظریفی کہا جائے یا کچھ اور کہ یہ سب جانتے ہوئے بھی کہ نریندرمودی کے ہاتھ بھارتی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘ پھر بھی ان کو عرب ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نواز گیا۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں بسنے والے مسلمان انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں شہید ہوتے رہے‘ لیکن کسی عرب ملک نے مذمت نہ کی‘ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور آج ان عرب ریا ستوں میں بسنے والے مقبوضہ کشمیر اور بھارت بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ روا ظلم و بربریت کو دیکھ کر بول اٹھے ہیں اورانہوں نے مودی سرکار‘راشٹریہ سیوک سنگھ کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا شروع کر دیا ہے ۔
گزشتہ پانچ دہائیوں سے بھارت نے بالی وڈ کی فلموں کے ذریعے عرب ممالک کی نئی نسلوں کے ذہنوں کو عیش و عشرت کے منا ظر دکھا کر اپنا گرویدہ بنا ئے رکھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ80 کی دہائی میں عرب امارات سمیت کچھ دوسری یاستوں کے نوجوان لڑکوں سے جب بھی ملاقات ہوتی تو بھارت کی فلم انڈسٹری کی گلو کارائیں اور معروف اداکار ان کے ہیرو اور آئیڈیل ہوتے تھے ۔ ذرا سوچئے کہ اس نسل کی نظروں میں کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کی کیا اہمیت ہو سکتی تھی؟ انڈین ہیروئنوں کی تصویریں جب ان کے گھروں میں سجی ہوں گی ‘تو انہیں کیا معلوم کہ کوئی مقبوضہ کشمیر بھی ہے ‘جس پر بھارتی فوج نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں بسنے والے مسلمانوں پر اس کی سات لاکھ سے زائد قابض فوج اور پولیس کس قدر ظلم و ستم ڈھا رہی ہے؟ انڈین سکیورٹی فورسز ان کشمیری مسلمانوں کی مائوں ‘بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں؟ نہ جانے کیا ہو اکہ ایک ایک کر کے آج دنیائے عرب اپنے وجود میں کہیں دور چھپے ہوئے اسلاف کے قدموں کی چاپ سنتے ہوئے ہلکی سی ہی سہی انگڑائی لیتا دکھائی دے رہا ہے ۔میں تو اسے نئی عرب سپرنگ ہی کہوں گا!
دنیائے عرب کے دانشوروں کا ایک بہت بڑا گروہ بھارت کے اسلامو فوبیا کی سوشل میڈیا پر کھلم کھلا مذمت کر نے لگا ہے۔ جی سی سی ممالک کے مذہبی سکالر اور دانشور انٹرنیشنل کمیونٹی کو کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں انسانی حقوق کی اس تذلیل کو روکا جائے۔ ان دانشوروں نے عرب حکمرانوں کو توجہ دلاتے ہوئے بہت سے ثبوت ان کے سامنے رکھ دیے ہیں‘ جس میں گلف اور جی سی سی میں مقیم ہندو ‘ مسلمانوں اوراسلام کیخلاف ہرزہ سرائی کر تے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان دانشوروں نے خبردار کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ سعودی عرب‘ کویت‘ عرب امارات‘ مسقط میں بیٹھ کر انتہا پسند ہندو ‘اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس قسم کی مکروہ گندگی بلا خوف اچھال رہے ہیں ‘تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اپنے دیس بھارت میں یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کیخلاف کیا کچھ نہیں کہتے اور کرتے ہوں گے؟ تضحیک کی حد اس سے زیا دہ اورکیا ہو گی کہ سوشل میڈیا پر انتہا پسند ہندو پراپیگنڈے کا سیلاب برپا کئے '' کورونا جہاد‘‘ کی پوسٹ لگا تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس مسلمانوں کی ایجاد ہے ‘ نیز کورونا وائرس‘ وہ جہاد کے نام سے دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے گنیز بک آف ریکارڈ ہولڈر سہیل زرونی جو دنیا کی مختلف شخصیات اور تمام مذہبی حلقوں سے بہترین تعلقات رکھتے ہیں‘ ان جیسا ایک لبرل عرب بھی آخر کار نریندر مودی کی فاشسٹ راشٹریہ سیوک سنگھ‘ وشوا ہندو پریشد اور جن سنگھ کی اسلام دشمنی کے بارے میں بار بار کی جانے والی خرافات کیخلاف بولنے پر مجبور ہو گیا ہے‘ ان کی 17 اپریل کو کی جانے والی ٹویٹ اہمیت کی حامل ہے‘ جس میں انہوں نے کہا ہے '' ہم نے گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو کھلے دل سے متحدہ عرب امارات میں خوش آمدید کہا ہے اور ہم نے کبھی بھی کسی ایسے شخص یا گروہ کو سپورٹ نہیں کیا‘ جو کسی دوسرے مذہب کے متعلق بد زبانی کرے‘‘۔ کوئی سات برس ہوئے دبئی میں راقم کوسہیل زرونی سے ملاقات کا موقع ملا‘ جب انہوں نے ہمیں اپنے گھر ایک شاندار عشائیے پر مدعو کیاور پھر جب وہ سردیوں میں پاکستان آئے تو وقت کی کمی کی وجہ سے لاہور تو نہ آ سکے ‘لیکن ان کی فرمائش پر گوجرانوالہ میں کھائے جانے والے پرندوں کی اس موسم کے چند مشہور کھانے‘ ان کی کراچی والی رہائش گاہ پر بھیجے‘ جسے انہوں نے بہت پسند کیا تھا۔کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان سے بہت پیار و محبت کرتے ہیں۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں جبرو قہر کر سائے میں 70 برسوں سے لاک ڈائون کے شکار مسلمانوں کیلئے اپنا ہمدردی پرکا پیغام بھی بھیجا ہے۔سلطنت ِعمان کی شہزادی ہند ا قسیمی نے پندرہ اپریل کو ٹویٹ کیا ہے '' بے شک ہماری شاہی فیملی کے انڈیا سے بہترین اور گہرے تعلقات ہیں‘ لیکن شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کے با وجود مجھے انڈیا کی اسلام سے نفرت گوارا نہیں‘ ہماری ریاست میں ہر کام کرنے والے کو اجرت دی جاتی ہے ‘کسی کو مفت میں کچھ نہیں ملتا ‘جس زمین اور جس مسلمان ملک میں رہتے ہوئے ‘تم کما اور کھا رہے ہوں‘ انہی کے دین کے متعلق تمہاری حقارت کسی طور بھی قابل قبول نہیں ‘تمہاری اسلام کی تضحیک کرنے کی جسارت نظر انداز نہیں کی جائیں گی ۔ بھارت میں کوئی مسلمان گائے کے قریب کھڑا ہو جائے ‘بچھڑا لے کر گزررہا ہو تو تم اس کی تکا بوٹی کر دیتے ہو تو پھر جو تم کر رہے ہو‘ ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟( کھلے لفظوں میں شہزادی ہند ا قسیمی نے ہندوئوں کو خبردار کردیا ہے کہ جب تم بھارت یا کسی دوسری جگہ بیٹھ کر مسلمانوں اور ان کے مذہب کے بارے میں ہرزہ سرائی کرو گے‘ تو تمہاری اس گستاخی کا ہم سخت نوٹس لیں گے)۔
سعودی عرب کے مشہور سکالر عابدی ظہرانی نے تجویز دی ہے کہ ایسے تمام Militant Hindus کی فہرست مرتب کی جانی چاہیے‘ جو گلف اور جی سی سی ریاستوں میں ملازمتیں اور کاروبار کرتے ہوئے ہمارے دین اور شعارِ دین کی تضحیک کر رہے ہیں ۔ان کی اس ٹویٹ پر زور دار بحث کی گئی‘ جس پر عابدی صاحب نے مزید کہا '' ہمیں بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی اور طاقت سے خوف زدہ نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کی بڑی مارکیٹ سے ‘ہم مسلمانوں کا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے ‘جو انصاف اورصاف گوئی پر یقین رکھتی ہیں۔ کویت کے عبد الرحمان ناصر نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو بد ترین سلوک ہو رہا ہے اورکس قدر شرم کا مقام ہے کہ دنیا کی53 مسلم ریا ستوں سے تجارت اور نوکریاں لیتے ہوئے 120 ارب ڈالر کا زر مبادلہ حاصل کرنے کے با وجود بھارت مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا نفرت کاا ظہار کرنے کے ساتھ انہیں بہیمانہ طریقوں سے قتل بھی کرتا ہے۔ ان تمام مسلم ریا ستوں میں کام کرنے والے ہندوئوں سے ہم بہترین سلوک کرتے ہیں اور بدلے میں وہ مسلمانوں کو چھریوں اور خنجروں سے قتل کر رہے ہیں۔ یہ دُہرا معیار اب ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گا۔
کاش !بھارت میں اربوں ڈالرز کی صورت میں انویسٹ کئے گئے اپنے آدھے سرمایہ کو ہی واپس لے آئیں تو بھارت کی موذی مودی سرکار کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔خیر‘ یہ جو نئی عرب سپرنگ کا آغاز ہوا ہے‘ یہ اس وبا کے موسم میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔