عالمگیر مہلک وبا کورونا سے چین کے بعد دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں نے جہاں اس دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ وہیں اس وبا کے علاج کیلئے ضروری حفاظتی لباس‘ ماسک‘ گلوز اور کورونا کے شکار مریضوں کے پھیپھڑوں کے شدید متاثر ہو جانے کی صورت میں مصنوعی سانس مہیا کرنے کیلئے پاکستان بھر میں وینٹی لیٹرز کی شدید کمی محسوس کی جانے لگی تو ملک دشمن عناصر سراپا احتجاج بن کر میدان میں کود پڑے‘ پھر جیسے ہی ان عناصر کے ساتھ کچھ عاقبت نا اندیش سیاست دان یک زبان ہوئے‘ تو بعض حلقوں کو جیسے سنہری موقع مل گیا‘ لہٰذا ان کے ایجنٹس نے سوشل میڈیا پر پاکستان میں وینٹی لیٹرز کی کمی کے حوالے سے تکرار کرتے ہوئے طوفان اٹھانا شروع کر دیا کہ اگر سامانِ حرب کے بجائے چند ہزار نئے وینٹی لیٹرز ہی خرید لئے جاتے تو کون سا فرق پڑ جانا تھا؟ جیسے جیسے سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی پوسٹس بڑھنے لگیں تو محبانِ وطن کا ماتھا ٹھنکا کہ اس دلیل اور موقع کی مناسبت سے عوامی ذہنوں کو فوری متاثر کرنے والی تحریروں کے پیچھے کوئی بہت ہی عیار اور مکار دماغ کام کر رہا ہے‘ اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ ہاتھ اور ذہن دشمن کی اس سوچ کو آگ دکھا رہا ہے‘ جسے پاکستان کی سالمیت سے سخت نفرت ہے اور یہ ہاتھ اس موقع پر نئی نسل کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوششوں میں ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ مذکورہ اور اسی قسم کی دوسری پوسٹوں کو آگے بڑھانے میں کچھ لبرلز اور پولیٹیکل جماعتوں کے میڈیا سیلز پیش پیش ہیں۔ وہ لبرلز جو اپنے روشن خیالی اور ترقی پسندی کے لیبل کے ساتھ ملکی اداروں کو اپنے پائوں کی نوک پر رکھنا باعثِ فخر سمجھنے لگے ہیں۔ ایسے حضرات سے اگر صرف اتنا ہی پوچھ لیا جائے کہ اگر اورنج لائن ٹرین بنانے کے بجائے یا کسی موٹر وے کا کمیشن بٹورنے‘ کسی اومنی گروپ‘ فالودے اور گول گپے والے کو ارب پتی بنانے کے بجائے آپ کی حکومتیں پچاس ہزار وینٹی لیٹرز‘ بیس ہزار ایم آر آئی مشینیں اور پانچ دس مزید جدید ہسپتال ہی بنا دیتیں تو کیا حرج تھا؟ لیکن یہ چونکہ ان جماعتوں کے ایک دوسرے سے سوال و جواب کا سلسلہ ہے‘ اس لئے اس پر مزید کچھ لکھنا منا سب نہ ہو گا۔
میرے آج کے مضمون کا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنی اس تحقیق کو سامنے لانے کی کوشش کروں کہ بھارت کی کسی بھی ممکنہ شر انگیزی‘ جارحیت یا سرجیکل سٹرائیک کی تیاریوں کے پس پردہ وہ کون لوگ ہیں‘ جنہوں نے اچانک پاکستان کے عسکری بجٹ کو اس مہلک ترین مرض کورونا کے حوالے سے نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ چانکیہ کی گھٹی لے کر پلا ہوا ہمارا مکار دشمن اور اس کے ایجنٹس اس قدر چالاک ہیں کہ جیسے ہی بھارت نے اپنا عسکری بجٹ70 ارب ڈالر تک بڑھانے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ترقی پسندی کے بھنور میں پھنسی ہوئی نئی اور پرانی نسلوں نے زہریلے ٹیکے لگانے شروع کر دیئے کہ ہم سب کی تکلیفوں‘ مصیبتوں‘ بھوک و بیماریوں‘ بے روزگاری اور مہنگائی کی اصل وجہ یہی بجٹ ہے۔ سوشل میڈیا پر رٹا لگایا جانے لگا کہ تمہیں ہوش ہی نہیں‘ تمہارے ملک کے تمام وسائل اور سارا بجٹ تو تمہاری سکیورٹی فورسز کھا جاتی ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں میں اپنا نفرت انگیز زہر ٹپکانے سے پہلے دنیا کی مستند یونیورسٹیوں اور اداروں کی شائع کی گئی رپورٹس کے ان حصوں پر اپنے ہاتھ رکھ لئے گئے‘جہاں گرافس اور چارٹس بنا کر دکھاتے ہوئے ثابت کیا گیا ہے کہ پاکستان کے بھارت جیسے ہمسائے کے 70 ارب ڈالر کے عسکری بجٹ کے مقابلے میں پاکستان کا عسکری بجٹ محض دس ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔
کیا پاکستان جیسے ملک کو‘ جس پر بھارت کئی مرتبہ جارحیت کر چکا ہے‘ اپنی سلامتی کی کوئی فکر نہیں ہونی چاہئے؟ کیا وہ اپنے دشمن کی اس خصلت اور عادت سے بے خبر رہے کہ موقع ملتے ہی وہ اسے ڈسنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے ہی وطن پاکستان کی چند نا سمجھ سیا سی جماعتوں اور ان کے لیڈران کے زیر ہدایت کام کرنے والی سوشل میڈیا ٹیموں کی پاکستانی سکیورٹی فورسز اور اس کے بجٹ کے خلاف زہر اگلتے ہوئے آنکھیں اس وقت چندھیا کیوں جاتی ہیں جب دنیا کے نقشے پر واقع فرانس کا عسکری بجٹ 63.8 ارب ڈالر جرمنی 49.5 ارب ڈالر‘ روس کا 61.4 ڈالر اور برطانیہ کا عسکری بجٹ50.00 ارب ڈالر بیان کیا جاتا ہے۔ ان کے مقابلے میں 2020-2021ء کیلئے بھارت کا عسکری بجٹ 66.9 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کے اس بدترین دشمن کے پہاڑ جیسے عسکری بجٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کا عسکری بجٹ افغانستان جیسے ملک سے بھی کم ہے ؛حالانکہ مشرقی اور مغربی سرحدوں کے چپے چپے پر وہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے‘ جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا موقع کبھی ضائع نہیں جانے دیا اور جو اپنے ملک میں بسنے والے مسلمان شہریوں کے گھر بار کو آگ میں جھونکتا اور یہ کہہ کر ان کے گلے کاٹ رہا ہے کہ تمارے نام‘ تمہارا مذہب‘ چونکہ پاکستانیوں جیسا ہے‘ اس لئے تم بھی پاکستانی ہو۔
بھارت کے نئے مالی سال میں عسکری بجٹ میں اس سال یک دم کئے جانے والے مزید اضافے پر سوشل میڈیا پر دشمن اور اس کے ایجنٹوں کے گرما گرم ٹویٹس کی بھرمار ہو چکی ہے۔ ایک سیاسی صاحب ٹویٹ کرتے ہیں کہ بھارت کے عسکری بجٹ کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ تاکہ ہمارے عسکری بجٹ میں کمی نہ ہو؟ اپنے اس ٹویٹ کے اگلے پیرے میں وہ لکھتے ہیں کہ ''بھارت کے عسکری بجٹ کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بھی تو دیکھ لیا کرو کہ بھارت اپنے جی ڈی پی کا 2.4 فیصد عسکری بجٹ پر خرچ کرتا ہے‘ جبکہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا4 فیصد خرچ کرتا ہے‘‘۔ یہ تاویل سن کر عام انسان سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ ہمارے مقابلے میں بھارت کا عسکری بجٹ تو پھر کچھ بھی نہیں؟ لیکن کاش یہ بھی کبھی بتا دیں کہ بھارت اور پاکستان کی جی ڈی پی کی اوسط کیا ہے؟ ہمارے چار صوبوں کی انڈسٹری کے مقابلے میں پچیس سے زائد صوبوں کی انڈسٹری میں کتنا فرق ہے؟ دنیا میں اس وقت اکنامک زون کے حوالے سے تیار کی جانے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بھارت دنیا کا چھٹا بڑا صنعتی ملک ہے‘ اس سے پاکستان اور بھارت کی جی ڈی پی اوسط کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو الفاظ کی ہیرا پھیری اور زہریلے اعداد و شمار کے میٹھے لیپ کا گورکھ دھندا کرنے والوں کے مقاصد جاننے میں کوئی دشواری نہیں رہتی۔
پاکستان کے عسکری بجٹ کو ہدف تنقید بنانے والوں نے کبھی یہ حساب بھی لگایا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی گزشتہ بیس سال سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ بھارت کے حال ہی میں حاصل کئے گئےS-400 ایئر ڈیفنس سسٹم اور رافیل طیاروں کے مقابلے کیلئے ہمیں پی ایٹس‘ اپاچی‘ اینٹی ٹینک ہتھیاروں‘ آب دوزوں اور دیگر ائیر ڈیفنس نظاموں کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت پوری کرنے کے بجائے تنقید کی توپوں کے دھانے کھول دیے جاتے ہیں۔ کوئی یہ بھی تو بتائے کہ بھارت کی عسکری انڈسٹری میں اس وقت چودہ لاکھ چالیس ہزار فنی ماہرین موجود ہیں اور یہ سب سے زیادہ عسکری اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے۔پاکستان کی تیاریاں تو دفاعی نوعیت کی ہیں‘ جارحانہ ہرگز نہیں ہیں۔