"MABC" (space) message & send to 7575

اب تو پہچان لیجئے!

کل تک جو یہ راگ الاپتے تھکتے نہیں تھے کہ موسیقی اور فن سمیت فن کار کیلئے کوئی سرحد نہیں ہوتی ‘ لیکن آج ان سب لبرلز اور ترقی پسندوں کی زبانیں ترک ڈراما سیریل'' ارطغرل‘‘ جو اِن دنوں پاکستان ٹیلی وژن سے اُردو زبان میں ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے‘ کیخلاف باہر آنے کو ہیں۔
ہمسایہ ملک بھارت سمیت مقبوضہ کشمیر میں ترک ڈراما سیریل ''ارطغرل‘‘پر پابندی کے باوجودکشمیری خاندان اس ڈرامے کو دیکھنے کیلئے مقامی آبادیوں میں اکٹھے ہو جا تے ہیں اور اس کیلئے پہلے سے اہتمام کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ وادی سمیت بھارت بھر میں آباد مسلمانوں میں ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘نے آزادی کی لہر کو مزید ابھار دیا ہے‘ جس سے بھارتی سرکار پہلے سے بھی زیا دہ خوف زدہ ہو گئی ہے اور اس نے سوشل میڈیا پر اپنے مہروں کوترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ اس وقت بھارت سمیت دنیا کی تین مسلم ممالک اس ترک ڈرامے کو اپنے اپنے ملک میں ممنوع قرار دے چکی ہیں‘ لیکن دیکھا جائے تو ان سب کا خوف مشترکہ ہے‘ کیونکہ یہ تینوں ممالک ‘ بھارت کو شایدبہت ہی عزیز رکھتے ہیں۔
علاوہ ازیں ترک صدر طیب اردوان مئی2017 ء میں جب امریکی دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے تو ان سے پہلے ترکی کا مذکورہ مشہور ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ اپنی مقبولیت کی دھوم مچا کر پیغام دے چکا تھا کہ ترک عوام اپنے صدر اردوان اور اس کے ایجنڈے کے ساتھ کھڑے ہیں ‘ جس پر امریکی اخبار ''نیو یارک ٹائمز‘‘ نے یہ سرخی لگائی تھی:
What a TV Series Tells Us About Erdogan's Turkey? 
ان دنوں ہر ہفتے ترکی سمیت دنیا بھر میں ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ اپنی مقبولیت کے ریکارڈ توڑتا جا رہا تھا۔ ترکی کے اپنے ارد گرد کے حالات کے تناظر میں امریکی میڈیا اسے Awakening of a Nation کا نام دیتے ہوئے کہنے لگا تھاکہ ترک اپنے قومی مزاج کو بیدار کرنے کیلئے ہمیشہ اس قسم کی ٹیلی فلمز سامنے لے آتے ہیں ‘کچھ برس قبل بھی اپناقومی اعتماد بحال کرنے کیلئے Blockbuster ڈراما Magnificent Centuryآن ایئر کیا گیا تھا۔ ترکی کی ان دونوں ٹیلی فلمز میں ترک سلطنت کے اندرونی غداروں کی جس طرح نشاندہی کی گئی ہے‘ وہ انتہائی توجہ طلب اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ترکی نے2016 ء میں اپنی مختلف قسم کی150 ٹیلی فلم سیریز مشرقی یورپ‘ جنوبی امریکہ‘ مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے ایک سو سے زائد ممالک کو300 ملین ڈالر میں فروخت کی تھیں۔
دیکھا جائے توترک ڈراما '' ارطغرل‘‘ کسی ایک قوم کے خلاف جدو جہد پر مبنی ڈراما سیریل نہیں‘ بلکہ اس کا پہلا حصہ صلیبیوں دوسرا منگولوں اور تیسرا بازنطینی عیسائیوں کے خلاف مسلح جدو جہد پر پھیلا ہوا ہے ‘لیکن بنیادی طور پر یہ مسلم قومیت کو ابھارتا ہے‘ جس سے اس کے دشمن خائف رہتے ہیں کہ کہیں ان میں پھر سے وہ جذبہ پیدا نہ ہو جائے ‘جس نے 800 برس تک'' سلطنت ِ عثمانیہ‘‘ جیسی ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ کااصلTheme ‘جس نے بہت سی قوتوں اور سلطنتوں کے ماتھوں کی سلوٹیں گہری کر دی ہیں‘ وہ مسلم ایمان اور جہاد کو پھر سے اصلی شکل میں زندہ کرنے کا درس ہے ۔ مدتوں سے ہم سب سینما سے ٹی وی کی سکرین اور تھیٹروں میں دنیا بھر کی فلمیں اور ڈرامے دیکھتے چلے آ رہے ہیں ۔اس پر کبھی اس قسم کا منظم اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر احتجاج نہیں دیکھا ۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیا دت‘ پاکستان کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے دیسی لبرلز کا ترک ڈراما سیریل ''ارطغرل‘‘ کے خلاف واویلا دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے ان کی کسی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا گیا ہے‘ جس پر وہ تلملائے پھر رہے ہیں‘ اگر کسی مذہبی تنظیم یا شخصیت نے اپنے طور پاکستان میں کسی فلم یا ڈرامے پر احتجاج کیا بھی تو وہ ان کی ذاتی رائے تک ہی محدود رہااور کسی نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی‘ لیکن جب سے اسلامی برادر ملک ترکی کا ڈراما سیریل ''ارطغرل ‘‘پاکستان ٹیلی ویژن پر مرحلہ وار دکھایا جانے لگا ہے‘ تو سوشل میڈیا پر اس کے خلاف یک دم باقاعدہ ایک مہم شروع کر ادی گئی ہے۔ اس ترک ڈراما سیریل پر ہمارے کچھ لبرلز دانشوروں کے اعتراضات اور رونا دھونا دیکھ کر تو لگتا ہے کہ شاید انہیں کچھ ایسا خوف کھائے جا رہا ہے کہ ابھی ڈراما ختم بھی نہیں ہو گا کہ اسلام آباد اور لاہور کی سڑکوں پر پاکستانی نوجوان ''ارطغرل‘‘ کے گھوڑوں پر سوار اس سے منسلک ایک خاص دھن پر ہاتھوں میں تلواریں لہراتے ہوئے باہر نکل آئیں گے۔
ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے‘ کیا وہ تاریخ کا حصہ نہیں؟ اگر یہ تاریخ کا حصہ ہے تو ہماری اسلامی نشاۃ ثانیہ کا حوالہ کسی بھی طریقے سے دیا جانا تکلیف دہ کیوں ہو رہا ہے؟ امریکہ اور مغرب کی اپنے عقائد اور مفادات پر مبنی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں پر اب تک نہ جانے کتنی فلمیں‘ ناول اور تھیٹر ہم دیکھ اور پڑھ چکے ہیں۔ کیا ہمارے ملک کے ترقی پسند وں میں سے کسی ایک نے بھی ان پر کوئی انگلی اٹھائی ؟ان فلموں میں بولے گئے کسی بھی ڈائیلاگ یا کسی منظر پر اعتراض کیا؟ مسلم معاشرے یا اس کی کردار کشی کے حوالے سے اس کی منظر کشی کے کسی بھی پہلو پر بیان بازی کی؟سوال یہ ہے کہ ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ سے کچھ سیاسی حلقے اور اس کے من پسند ترقی پسند کیوں سیخ پا ہو رہے ہیں؟
اگر سچ تک آسانی سے پہنچنے کی کوشش کریں تو کون نہیں جانتا کہ محمد بن قاسم کی بجائے راجہ داہر کن کا ہیرو چلا آ رہا ہے؟ سندھ میں ایک سیاسی جماعت گزشتہ بارہ برسوں سے حکمران چلی آ رہی ہے‘ جس میں پانچ سال مرکز اور صوبے کی مکمل طاقت اور باقی کے پانچ برسوں میں مرکز کے آدھے سے کچھ کم اختیارات اور رسوخ تو مکمل اختیار ات کے ساتھ ان کی سندھ حکومت چلی آ رہی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس دوران صوبائیت کو ہوا دینے کے علا وہ کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ستم ظریفی د یکھئے کہ سندھ کی جس آبادی کے نام پر تعصب پھیلایا جاتا ہے‘ اس کے کروڑوں غریبوں اور ناداروں کی دیکھ بھال کا کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں گیا۔ایسے ہی حلقوں کو ''ارطغرل‘‘ ڈرامے کے نشر ہونے پر سب سے زیادہ اعتراضات ہو رہے ہیں اور سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ صوبے کے مقامی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے احکامات کیے جا رہے ہیں۔
نریندر مودی‘ راشٹریہ سیوک سنگھ‘ جن سنگھ اور وشوا ہندو پریشد جیسے اسلام دشمن قوتوں کی تو سمجھ آتی ہے کہ وہ پاکستان میں ترک ڈراما سیریل '' ارطغرل‘‘کی دن بدن بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ ہو رہے ہیں۔ ان کا دکھ '' ارطغرل‘‘ کے نام سے نہیں‘ بلکہ اس کے اندر ابھرے گئے اس جذبے اور سوچ کے بیدار ہونے کی ہے‘ جسے اس نے ہر ممکن سلانے کی کوشش کر رکھی تھی۔ اس ڈرامے میں واضح دشمن کے علا وہ کسی بھی بھیس میں چھپ اپنے ارد گرد گھومنے پھرنے والے ان ایجنٹوں کی نشاندہی کابھی خوف ہے۔ ترقی پسندوں اور بھارت کے سوشل میڈیا ڈائریکٹرز کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ترکوں کا ہمارے کلچر سے کیا تعلق تو حضور‘ آپ ہی بتایئے کہ آج تک امریکی مغربی ممالک اور بھارت کی فلموں‘ کتابوں اور ڈراموں کے ذریعے ہم پر جو کلچر ٹھونسا جاتا رہا ‘ان کا ہماری میراث سے کچھ تعلق تھا؟
میڈیا کا وہ محدود‘ لیکن طاقتور حصہ جس کے مقبوضہ کشمیر کے متعلق خیالات سے ایک زمانہ واقف ہے‘ اس وقت خم ٹھونک کر ترکی کے اس ڈرامے کا خلاف میدان میں اتر چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی تحریریں اور کارٹون دیکھنے کے بعد رتی بھر بھی شک نہیں رہ جاتا کہ یہ کن کی زبان بول رہے ہیں ؟ان لوگوں کی اصلیت کو اب توپہچان لیجئے ‘جوکالا باغ سے اٹھارہویں ترمیم اور '' ارطغرل‘‘ جیسے ڈرامے کی جی کھول کر مخالفت کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں