فرض کیجئے کہ ایک صاحب پانچ مئی تک حکومت پاکستان کے ایک اہم ادارے میں اعلیٰ عہدے پر اپنی مدت ملازمت کے ساٹھ برس مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں ‘لیکن ان کا دل اس محکمے اور اس پوسٹ پر اس بری طرح مچل جاتا ہے کہ وہ وہاں سے جانا تو دور کی بات ایک دن کیلئے بھی ا سے چھوڑنے کا سوچتے ہی دل پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ صاحب ادھر ادھر بات کرنے کے بعد ایک دن خود ہی ایک سمری تیار کرتے ہیں جس میں وہ اپنی بے پناہ خوبیاں گنوانے کے بعد حکومت پاکستان کو تجویز دیتے ہیں کہ یہ نایاب ہیرا اگر آپ کے ہاتھ سے نکل گیا تو سمجھ لو کہ تمہارے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے اور پھر اسے جاتا ہوا دیکھ کر اس سے پیشتر کہ آپ سب کے ہوش اڑ جائیں اور یہ سمجھ میں ہی نہ آئے کہ اب کیا کریں تو یہ نوبت آنے سے پہلے اس ہیرے کو اسی محکمے میں'' ٹیکنیکل ایڈوائزر‘‘ کے عہدے پر بعد از ریٹائرمنٹ تعینات کر دیا جائے اور اس کیلئے یہ ملک کی معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے زیا دہ نہیں‘ صرف15 لاکھ ماہانہ مشاہرہ وصول کرے گا۔ رہ گئی سرکاری رہائش گاہ ‘ دو گھریلو ملازم اور گاڑی‘ پٹرول اور ڈرائیور تو میں اسی سٹاف کو اپنے ساتھ رکھوں گا جو پہلے سے میرے گھر میں کام کر تا چلا آ رہا ہے۔
اس ملک کی بیورو کریسی کے ارکان کو نہ جانے کیوں ہم جیسے سادہ لوگ بڑا سرمایہ دار‘ بے انتہا دولت کا حامل اور فیملی سمیت بیرون ملک بھاری بینک اکائونٹس کا مالک سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔آپ کو اگر میں یہ بتاؤںکہ اس ملک کی بیوروکریسی کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ دفتری اوقات کے بعد چھوٹے موٹے کام کرکے اپنے گھروں کے کچن اور بچوں کی فیسیں ادا کرتے ہیں تو اس پر آپ کا ہنسنا یا میرا تمسخر اڑانا بنتا ہے ‘لیکن آپ اگر میری اس بات کا یقین نہیں کریں گے تو پھر مجبوراًمجھے اس سمری کو آپ کے سامنے لانا پڑ ے گا‘ تاکہ سب کو یقین دلا سکوں کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا بلکہ ایک ایک لفظ سچ کہہ رہا ہوں ۔ اب جب میری اس بات کا ثبوت آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو یقینا میری طرح آپ کے بھی آنسو ٹپک پڑیں گے کہ ہمارے ملک کے گریڈ انیس اور بیس کے افسران اپنے بچوں کی تعلیم اور روزی روٹی کیلئے پارٹ ٹائم ملازمتیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سات مئی کوایوانِ صدر کے AS Accounts کی جانب سے ایک سمری تیار ہوئی جس میں صدر ِمملکت سے یہ کہتے ہوئے گزارش کی جاتی ہے کہ مہنگائی اور ضررویاتِ زندگی‘ جس میں بچوں کی سکول فیس بھی شامل ہے‘کو پورا کرنے کیلئے ایوان صدر کے سٹاف کو کسی دکان‘ سٹور اور دفتر میں جز وقتی طور پر کام کرنا پڑتا ہے تاکہ اپنے گھریلو اخراجات کو آسانی سے پورا کر سکیں‘ لیکن جناب والا جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کے حوالے سے حکومت پاکستان کی ہدایات پر ایوان صدر کے ملازمین کو بھی سختی سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں اور باہر مت نکلیں۔ ان احکام کی تکمیل کرتے ہوئے ایوان صدر کا تمام سٹاف جس میں مالی اور کلرک سے لے کر گریڈ انیس اور بیس کے افسران بھی شامل ہیں‘ایوان صدر کی رہائشی کالونی سے باہر جا ہی نہیں سکے اور وہ سٹاف جو ایوان صدر سے باہر مختلف جگہوں میں رہ رہا ہے وہ بھی حکومت کے سخت اقدامات کی وجہ سے اپنے گھروں تک محدود رہا ہے کیونکہ حکومت پاکستان نے کورونا وائرس کی عالمی وباکے خلاف حفاظتی تدابیر کے تحت سخت لاک ڈائون کیا ہواہے۔
میں نے جب یہ سمری اپنے استادِ محترم گوگا دانشور کے سامنے رکھی تو انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنا بھاری سر ہلاتے ہوئے کہا: دیکھوسورج کے مغرب سے نکلنے کی کوئی بات کرے تو ایک لمحہ سوچنے کے بعد اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دوں گا‘ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان میں گریڈ18‘19‘20 میں نوکری کرنے والے اعلیٰ حکومتی افسران دفتری اوقات کے بعد مختلف دکانوں‘ دفتروں ‘سڑکوں‘ چوکوںاور گلیوں بازاروں میں ٹھیلے لگا کر گزر بسر کرتے ہیں تو اسے فوری سچ سمجھ لیا کریں کیونکہ ابھی چند ماہ بھی نہیں ہوئے جب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے آٹھ لاکھ سے زائد ایسے '' غریب اور مستحق‘‘ لوگوں کی فہرست سامنے آئی تھی جس میں گریڈ بیس اور اکیس کے افسران اور ان کی بیگمات گزشتہ دس برس سے استفادہ کر تی چلی آ رہی تھیں۔
جنابِ صدر کی خدمت میں پیش کی جانے والی سمری میں ان سے اپنے زیر سایہ کام کرنے والے ملازمین کی زبوں حالی کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھا گیا '' حضور لاک ڈائون اور ایوان صدر کی رہائشی کالونی سے کسی بھی صورت میں باہر جانے کی اجا زت نہ ملنے کی وجہ سے ان بے چارے افسران کی جزوقتی ملازمت کی آمدنیاں منقطع ہو چکی ہیں‘ جس سے ان کی مالی حالت ابتر ہو چکی ہے اس لئے آپ سے درد مندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ ایوان صدر کے گریڈ ایک سے گریڈ بیس تک کے تمام سٹاف اور افسران کو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ بطورآنریریم ادا کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں‘ تاکہ ان ملازمین کا گھریلو بجٹ جو لاک ڈائون کی وجہ سے بری طرح اپ سیٹ ہو چکا ہے اس کو بہتر کرتے ہوئے پریشانیوں سے نکل سکیں۔ سمری میں تجویز کرتے ہوئے جناب صدر سے استدعا کی گئی کہ گریڈ ایک سے بیس تک کے تمام ملازمین کو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ ادا کرنے کیلئے ہمیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دینے کیلئے درکار کل رقم ایک کروڑ اڑتیس لاکھ روپے درکار ہو گی جبکہ ہمارے پاس پہلے سے ہی اس مد میں تین کروڑ انیس لاکھ چالیس ہزار دو صد چالیس روپے کی اضافی رقم موجود ہے۔
یہ سمری تیار کرنے کے بعد ایم ایس برائے صدر کے پاس پہنچائی جاتی ہے جو صدرِ پاکستان سے سفارش کرتے ہیں کہ ان کے ذاتی سٹاف کے گریڈ ایک سے بیس تک کے ملازمین کو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ بطور اعزازیہ ادا کرنے کی منظوری دے دی جائے۔ ان ریمارکس کے ساتھ سمری صدر عارف علوی صاحب کے پاس لائی جاتی ہے جو از راہ کرم اس کی منظوری عطا کر دیتے ہیں۔گریڈ ایک سے سولہ تک کی بات تو سمجھ میں آتی ہے‘ جن میں مالی چوکیدار نائب قاصد اور کلرک سے سپرنٹنڈنٹ عہدے کے لوگ دفتری اوقات کے بعد کوئی نہ کوئی کام لازمی کرتے ہوں گے‘ کیونکہ یہ سچ ہے کہ وہ ملازمین جنہیں کرپشن کا موقع نہیں ملتا ان کا اپنی تنخواہوں میں گزر بسر بہت مشکل چلا آرہا ہے‘ لیکن گریڈ اٹھارہ انیس اور بیس کے ایوان صدر جیسے اعلیٰ مقام پر کام کرنے والے افسران بھی مختلف پرائیویٹ دفتروں دکانوں پر جز وقتی کام کرتے ہوں گے‘ کچھ عجیب سا لگتا ہے؟