چند روز قبل عید الفطر کے موقع پراپنے آبائی دیہی علا قوں میں جانا ہوا‘ تو وہاں کورونا وائرس کے حوالے سے ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر کی دھجیاں بکھرتے دیکھ کر یہ اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہو رہی تھی کہ شایدہمارے پاس پچھتانے کا وقت ہی نہ رہے اور پھر '' چڑیاں چگ گئی کھیت‘‘ کے مصداق‘ ہمارے پاس پچھتاونے اور اپنے حالات پر رونا ہی رہ جائے گا۔ مجھے جن چار پانچ دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا‘ وہاں کے صرف چند ایک گھرانوں کے سوا باقی سب لوگ کہیں پیپل‘ تو کہیں برگد کے پرانے اور بڑے بڑے درختوں کے نیچے بیٹھے‘ ایک ہی بڑے سے حقے کے باری باری کش لگاتے ہوئے ‘یہی کہتے سنے گئے کہ قوم کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے‘ کورونا وبا کے نام پر حکومت باہر کے ملکوں سے پیسہ اکٹھا کر کے کھا رہی ہے اور یہ کہانی صرف دیہات کے لوگوں تک نہیں‘ بلکہ شہروں کے کئی پڑھے لکھے افرادکی زبانی بھی سننے میں آرہی ہے۔
گائوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے چمٹ کر بیٹھے دیکھا تو دماغ سن ہو گیا‘ انہیں سمجھانا چاہا تو الٹا میرے ہاتھوں پر پہنے دستانوں اور ماسک کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیاکہ ہم توقریبی شہروں کے بازاروں میں آتے جاتے ہیں اوراپنے رشتہ داروں‘ ہمسایوں سے پہلے کی طرح ہی ملتے ہیں‘ دکانوں سے سودا سلف لیتے ہیں‘ ادھر تو کورونا وائرس نام کی کوئی شے نہیں‘ ہمیں تو لگتا ہے کہ حکومت نے شہر والوں کو بیوقوف بنا کر گھروں میں قید کیا ہوا ہے۔ ایک اچھا بھلا شخص پوچھنے لگا :سنا ہے کہ کورونا ورونا کچھ نہیں‘ بلکہ یہ امریکہ اور اسرائیل کی کوئی چال ہے؟ یہ وہی الفاظ ہیں‘ جو گزشتہ دس بیس برس سے پولیو کے قطرے پلانے کے بارے میں ہمارے عوام کہتے آ رہے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ پولیو ویکسین سے مسلمانوں کی افزائش ِنسل روکنا مقصودہے اور چونکہ امریکہ‘ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان ہے‘ اس لئے وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں کم بچے ہوں۔ افزائش ِنسل کو روکنے کا اس قدر پروپیگنڈاکیا گیا کہ خواتین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی رضا کار تنظیموں سے ہاتھ پائی اور گریز کرتی دیکھی جا چکی ہیں۔ پولیو ورکرز پر جگہ جگہ حملوں کی وجہ سے اب تک پچیس سے زائد پولیو ورکر ہماری عوام کی جاہلیت کا شکار ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں‘ جس بنا پردنیا بھرمیں پاکستان کی بد نامی الگ سے ہو چکی ۔یہ سب دشمن کا پراپیگنڈا ہے‘ جس کیلئے اس نے پاکستان میں لاکھوں ڈالروں کی بارش کی‘ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بہکاوے میں آ کر جب پاکستان میں والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کریں گے‘ تو ترقی یافتہ ممالک اس ملک سے الگ تھلگ ہو جائیں گے اور پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہو جائے گا اور یہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کی ایک سازش ہے‘ کیونکہ پولیو پر کنٹرول نہ ہونے کی صورت میں پاکستان میں نہ تو بہت سے ملکوں کی پروازیں اتر سکیں گی اور نہ ہی پاکستان کے شہری دوسرے ممالک میں جا سکیں گی۔ یوں پاکستان معاشی طو رپر کمزور ہو جائے گا اور اس کی سیاحت و معیشت تباہ ہو کررہ جائے گی۔
اب یہی کچھ کورونا وائرس کے سلسلے میں کیا جا رہا ہے؛ سوشل میڈیا پر امریکی‘ برطانوی اور اٹلی کے ڈاکٹروں اور نرسوں کے نام سے جعلی ویڈیو ز وائرل کی جا رہی ہیں کہ کورونا نام کی تو کوئی بیماری ہے ہی نہیں‘ یہ تو سب ٹرمپ کی بیوی اور بل گیٹس کی تیار کردہ سازش ہے‘ تاکہ وہ اپنی تیار کردہ دوائیاں بھاری قیمت پر دنیا بھر میں بیچ سکیں۔امریکہ کا کوئی ایک شہری دنیا کے کسی بھی ملک میں اگر کسی بھی طریقے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو وہاں ایک کہرام مچ جاتا ہے‘ امریکی سینیٹ اور کانگریس میں اس کی موت کی وجہ بتانی پڑتی ہے۔ اس ملک سے جہاں ان کا شہری مارا جاتا ہے‘ وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں اور یہاں کس طرح ممکن ہے کہ اس کے ہزاروں شہری ہلاک ہو جائیں؟دشمن کی یہی چال ہے کہ اپنے اس جھوٹ کو اس قدر پھیلا دیا جائے‘ تاکہ سب جھوٹ کو ہی سچ سمجھنا شروع ہو جائیں اور یہ کہتے رہیں کہ کوروناوائرس صرف ایک ڈراما ہے اورکسی بھی بیماری سے مرنے والے کو کورونا کا مریض کہہ کر اس کی لاش ضبط کر لی جاتی ہے۔ ا س کے لوحقین کو اس کا چہرہ بھی نہیں دکھایا جاتا اور کسی کا ٹیسٹ رزلٹ ‘اگر منفی بھی ہو تو اسے مثبت ثابت کر کے کورونا کا مریض بنا کر زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور پھر اس کا پتا اس وقت چلتا ہے‘ جب انہیں یہ کہتے ہوئے اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا مریض فوت ہو چکا ہے اور ہم اب اسے دفن کرنے کیلئے لے جا رہے ہیں ۔
قبل اس کے کہ حالات قابو سے باہر ہو کر ہم سب کو نگل لیں‘مرکزی حکومت سمیت تمام صوبائی حکومتوں کوCovid-19 کو پہلے سے بھی زیا دہ سنجیدہ لینا ہو گا‘ کیونکہ چھوٹی تحصیلوں‘ قصبوں اور دیہات کے اندر گھوم پھر کر گزشتہ ہفتے میں نے جو مناظر دیکھے ہیں‘ ان سے آنے والے خطرے کو دیکھتے ہوئے ابھی سے مجھے خوف آنے لگاہے کہ کل کو نہ جانے کیا ہو جائے؟ سندھ حکومت نے28 مئی کو ہتھیار پھینکتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ ان کے کسی بھی ہسپتال میں اب ایک بھی بیڈ خالی نہیں۔ خد اکرے کہ میرے یہ تمام خدشات بے بنیاد رہیں اور کورونا وائرس دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں سمیت شہروں میں ختم ہو جائے‘ لیکن اگر اس موذی وائرس نے بازاروں‘ گلیوں‘ محلوں اورملک بھر کے دیہات قصبوں کا رخ کر لیا تو پھر جومناظر دیکھنے اور سننے کو ملیں گے‘ ان کا سوچ کر ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔ ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں کہ جب ڈینگی نے سر اٹھایا تو پنجاب کے ہسپتالوں کی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس ڈینگی مریضوں کیلئے بیڈ ہی نہیں تھے ‘کیونکہ ڈینگی مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے انہیں ہسپتالوں کے وارڈز میں جگہ نہ ہونے پر برآمدوں کے فرش پر لٹایا جا رہا تھا۔
الغرض وفاقی حکومت سمیت تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر‘ اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیلداروں کو سختی سے حکم دیں کہ وہ اپنی حدود میں واقع تمام نمبر داروں ‘ سماجی ورکروں کا فوری اجلاس طلب کریں اور انہیں تحصیل ہسپتالوں کے ڈاکٹر صاحبان کی وساطت سے احتیاطی تدابیر پر مشتمل ہدایات بتائیں اور ان کے ذہنوں سے یہ جھوٹ اور پراپیگنڈا نکال باہرکریں کہ کورونا وائرس امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی یا بل گیٹس جیسے کسی شخص کی سازش ہے۔ ان تمام حضرات کو بتایا جائے کہ کورونا وائرس کے شکار مریضوں کی وینٹی لیٹرز پر لیٹتے ہوئے کیا حالت ہو تی ہے اور یہ وائرس کس طرح پھیلتا ہے ؟ نیز دیہات کے لوگوں میں عالمگیرکورونا وبا کے بارے میں شعور اور آ گہی پیدا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں‘ کیونکہ اگر دیہاتی لوگ اسی طرح جھوٹے پروپیگنڈے اور اپنی سادہ لوحی کا شکار رہے‘ تو اس وبا کا شکار ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا چٹریوں کے کھیت چگنے سے پہلے ان لوگوں کو بچانا وفاقی و صوبائی حکومتوں کا فرض ہے۔
دیہات کے لوگوں میں کور ونا وبا کے بارے میں شعور اور آ گہی پیدا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں‘ کیونکہ اگر دیہاتی لوگ اسی طرح جھوٹے پروپیگنڈے اور اپنی سادہ لوحی کا شکار رہے‘ تو اس وبا کا شکار ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا چٹریوں کے کھیت چگنے سے پہلے ان لوگوں کو بچانا وفاقی و صوبائی حکومتوں کا فرض ہے۔