نتھیا گلی کیوں گئے ؟ وزیر اعظم کو ڈھونڈ کر لائو‘ نہ جانے کہاں چلے گئے؟ عید کی چھٹیاں گزارنی تھیں تو لاہور جاتے ‘ نتھیا گلی جانے کی کیا ضرورت تھی؟ وغیرہ وغیرہ۔ مضحکہ خیزی دیکھئے کہ ایسی در فنطنیاں ان کی طرف سے آ رہی تھیں‘ جو ہر ہفتے اسلام آباد سے جاتی عمرہ ‘ لاہورتک کا سفر بھی خصوصی طیارے میں کرتے تھے۔ اب‘ اگر ایک ماہ کے اوسطاً چار ہفتے شمار کر لئے جائیں تو سال میں48 مرتبہ میاں نواز شریف اپنے دورِ اقتدار میں جاتی عمرہ آیا کرتے تھے اور ایک ماہ میں کم از کم تین مرتبہ ان کا دورہ مری بھی لازمی ہوا کرتا تھا۔ اس طرح ایک سال میں ان کا کم ازکم36 مرتبہ مری اور نتھیا گلی قیام لازمی ہوتا تھا۔اب‘ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے مری‘ لاہور اور نتھیا گلی کے گھروں میں کتنی دفعہ گئے ہوں گے؟ یہ تو صرف نوا ز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب ہی بتا سکتی ہیں۔ صدر یا وزیر اعظم سال میں تین چار مرتبہ چند دنوں کی چھٹیاں گزارنے کیلئے کسی بھی پر سکون مقام پر جایا کرتے ہیں یا جب کبھی ان کے معالجین کہتے ہیں کہ وہ چند دن کسی پرُ سکون جگہ پر اپنے اعصاب کو آرام دینے کیلئے چلے جائیں‘ تو انہیں جانا پڑتا ہے۔ابھی کل کی بات ہے کہ سابق وزیر اعظم ہر ہفتے مری‘ کشمیر پوائنٹ یا نتھیا گلی اپنی قیام گاہ پر جایا کرتے تھے ‘جہاں ان کا من پسند کھانا فراہم کرنے کیلئے اسلام آباد سے مری تک سرکاری ہیلی کاپٹر کی شٹل سروس چلا کرتی تھی ۔اب‘ اس سے زیا دہ اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کھانے کی ترسیل کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
چینی سکینڈل کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی رپورٹ آنے سے پہلے اور بعد میں تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کی شخصیت کو اپوزیشن نے ہر پلیٹ فارم پر ہدف ِ تنقید بنا رکھا ہے اور وہ بات‘ جس کا پورے فسانے میں ذکر تک نہیں‘ جس کا راگ الاپا جا رہا ہے‘ بلکہ ڈھول پیٹا جا رہا ہے اوراپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھا یا ہوا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی اور وہ جنہوں نے اس ملک میں جگہ جگہ ببول اور زقوم کے درختوں کی آبیاری کی ‘ان کا نام لیتے ڈر رہے ہیں۔ یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی اور اس سے پہلے شوگر سکینڈل کی اس رپورٹ کو کیوں مخفی رکھا گیا؟کیا وزیر اعظم عمران خان کا یہی قصور ہے کہ انہوں نے اپنوں سمیت دوسروں کے چہروں سے نقاب اتارنے کی جسارت کی ہے۔واجد ضیا کی سربراہی میں شوگر سکینڈل کا کھوج لگانے کیلئے قائم جے آئی ٹی رپورٹ پیش ہوئے دو ہفتے گزر چکے ‘ لیکن سابق حکومتوں کے ''مہربان‘‘ باقی تو سب کچھ بول رہے ہیں‘ سوائے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی اور اپنے محبوب قائدین کی بات نہیں کر رہے‘ جنہوں نے اومنی گروپ اور اپنے گھروں کو شوگر سبسڈی سے نوازا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میڈیا غیر جانبدار رہتے ہوئے ایسے چہروں کو بے نقاب کرتا‘ لیکن شاید کسی جانب سے ''مہربانیاں‘‘ ہی اتنی زیادہ ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے سوا کوئی نام زبان پر ہی نہیں آ رہا؟ جس کا دامن صاف ہو ‘وہ کوئی بھی رپورٹ یا انکوائری کمیشن وغیرہ کوچھپایا نہیں کرتا اور یہی کچھ وزیر اعظم عمران خان نے کر دکھایا ہے۔ جب واجد ضیا کی سربراہی میں شوگر سکینڈل کا کچا چٹھا سامنے لانے کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ یہ وہی واجد ضیا ہیں‘ جنہوں نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو پانامہ سکینڈل میں قصور وار ٹھہرا یا تھا‘ اس لئے ہم واجد ضیا کی سربراہی میں کسی جے آئی ٹی کو تسلیم نہیں کرتے‘لیکن سب نے دیکھا کہ اس جے آئی ٹی کی رپورٹ نے کسی کا لحاظ رکھے بغیر ہر اس طاقت ور کا نام قوم و ملک کے سامنے رکھ دیا‘ جن میں کچھ ایسے حضرات بھی شامل ہیں ‘جن کے بھاری بھر کم وجود بطور ِستون حکومت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں‘ ورنہ تو اس ملک میں کبھی کسی کمیٹی یا کمیشن کی رپورٹ ہی سامنے نہیں آئی اور اگر کوئی آئی بھی تو وہ رپورٹ ان سے تیار کروائی جاتی ‘ جو ان کے ذاتی ملازمین ہوتے تھے۔
اسی طرح کے ایک کمیشن اور'' کواپریٹو بینکوں‘‘ کے سیلاب کی یاد کرا دیں‘ جب پاکستان کی ہر گلی ہر بازار میں ہزاروں کی تعداد میں دیکھتے ہی دیکھتے مختلف ناموں سے کواپریٹو بینک قائم ہو نا شروع ہو گئے‘ ان کے پس پردہ بیٹھے طاقتور مالکان کی جانب سے منیجرز‘اسسٹنٹ منیجرز اور نہ جانے کتنے خوش کن ناموں سے پرُ کشش مشاہروں پر مقامی لوگوں کو نوکریاں مہیا کرتے ہوئے انہیں بہترین فرنیچر اور چمکتے دمکتے شیشوں کے پیچھے یہ کہتے ہوئے بٹھا دیا گیا کہ آپ ان بینکوں کیلئے بھاری'' بزنس‘‘ لے کر آئیں ۔ آج جن کی عمریں تیس برس کے قریب ہیں انہیں تو کچھ بھی یاد نہیں ہو گا‘ سوائے ان کے جن کے خاندانوں نے یہ زخم کھائے ہیں کہ ان کوا پریٹو بینکوں میں پرُ کشش مشاہروں پر ملازمت پانے والوں نے اپنے ہر دوست عزیز اور رشتہ دار کو منافع اور اپنی بینک نوکری کے واسطے دیتے ہوئے ان کی عمر بھر کی جمع پونجیاں ‘جن میں مائوں ‘ بہنوں اور بیگمات کے مدتوں سے سنبھال کر رکھے ہوئے زیورات بھی شامل تھے بیچ کر بینک کے بزنس کو چار چاند لگانا شروع کر دیئے۔ ان میں ریٹائر ہونے والے وہ سرکاری ملازمین بھی شامل تھے ‘جنہوں نے ریٹائر منٹ سے حاصل شدہ اپنی تمام رقوم ان کواپریٹو بینکوں میں جمع کرا دی تھی‘ جہاں سے انہیں ہر ماہ بہترین منا فع ملنا شروع ہو گیا‘ جس کودیکھتے ہوئے شہر قصبے اور گائوں کے دوسرے لوگوں نے بھی لالچ میں آ کراپنے گھر بار اور زمینیں فروخت کر کے اپنے بچوں کو ان بینکوں میں نوکریاں دلواتے ہوئے رقوم جمع کروانا شروع کر دیں۔
پھر یوں ہوا کہ اس حکمران جماعت ‘جسے مسلم لیگ نواز کے نامی گرامی مرکزی لیڈران نے ان کواپریٹو بینکوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اپنی صنعتوں کے نام پر کروڑوں روپے کے قرضے لے لئے‘ آج سے تیس برس قبل کیلئے گئے چالیس چالیس کروڑ روپے ان فیکٹریوں اور کارخانوں کے اکائونٹس میں غرق ہونا شروع ہو ئے تو چند ماہ بعد ہزاروں کی تعداد میں سٹاف کی تنخواہیں بجلی کے بل اور اپنی رقوم انویسٹ کرنے والوں کو منافع ملنا بند ہو گیا‘ جس سے ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ لوگوں نے اپنے قصبے اور تحصیل کے کواپریٹو بینکوں کا گھیرائو اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ لوگوں نے بینکوں کے دفتروں کا فرنیچر اور سامان لوٹ لیا‘ ہر جانب ہاہا کار مچ گئی‘ شہرشہر مظاہرے شروع ہو ئے۔ اخبارات میں ان لوگوں کے نام آنا شروع ہو گئے‘ جن کی اس وقت سب سے بڑی متحارب محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پی پی پی نے میڈیاکوان کیلئے گئے قرضوں کی تفصیلات بتانا شروع کر دیں‘ جس پرنواز لیگ کی حکومت نے اس وقت کے جج افضل لون ‘جنہوں نے1993 ء میں نواز حکومت کو بحال کیا اور جو بعد میں اتفاق فاونڈری کے قانونی مشیر رہے‘ ان کی سربراہی میں '' لون کمیشن‘‘ تشکیل دیا ‘تاکہ پتا چل سکے کہ یہ کواپریٹو بینک کیسے تباہ ہوئے؟ اور پھر انہوں نے اپنی رپورٹ میں دود ھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتے ہوئے عوام کا اربوں روپیہ پانی میں بہا دیا‘ لہٰذا ایسے کمیشن سے تو حالیہ کمیشن کی چینی سکینڈل کے حوالے سے رپورٹ قابل ِ ستائش ہے۔