"MABC" (space) message & send to 7575

ہمہ وقت تیار رہیں!

گو کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف فضائی کارروائیوں کی دھمکیاں‘ در اصل اپنی عوام کی توجہ لداخ میں دریائے گلوان پر چین کے قبضے سے ہٹانے کیلئے ہیں‘ تاہم بھارت کی جانب سے کسی بھی جنونیت کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے‘ کیونکہ بر سر اقتدار انتہا پسند ہندو مودی سرکار اس وقت اپنے ہی زخموں سے تڑپ رہی ہے۔ امریکہ‘ اسرائیل اور اب چین کے خلاف ان کے اتحادی ملک کی شہہ پر تمام ہمسایہ ممالک سے پنگے لینے کے شوق میں بھارت اپنے ہمسایہ ممالک نیپال‘ چین اور پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کی وجہ سے سرحدی تنائو اور چپقلشوں میں گھر اہوا ہے۔ بھارتی عوام‘ جسے نریندرمودی کی تقریروں اور امیت شاہ جیسے انتہا پسندوں نے بانس پر چڑھا رکھا تھا اب‘ لداخ میں چینیوں کی جانب سے سروں پر پڑنے والے جوتوں سے چکرائے بیٹھے ہیں اور غریب مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو جگہ جگہ اپنی ظالم پولیس کی مدد سے بے خوف ہو کر چھروں اور تلواروں سے زخمی کیا جا رہا ہے۔
بھارت کی انتہا پسند ہندو سرکار‘ چین کے ہاتھوں اپنی سینا کی ٹھکائی دیکھ کرخفت کا شکارہے اور راشٹریہ کے لیڈران اپنی جگہ حواس باختہ ہو رہے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ جبکہ بھارت کی اپوزیشن جماعتیں نیچے کھڑی مودی سرکارکو بانس پر ہچکولے کھاتے دیکھ کر قہقہے لگا رہی ہیں۔ میرے اس مضمون کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین نے لداخ میں ایک نہیں ‘بلکہ کئی ہزار کلو میٹراندر قدم بڑھاتے ہوئے بھارت کے کچھ اہم ترین مقامات پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی شہہ رگ پر اپنے پائوں کا دبائو بڑھا دیاہے‘ جس سے مودی سرکار کی دبی دبی چیخیں نکلنا شروع ہو گئی ہیں اور چین کی یہ آہنی ضرب اس قدر بھاری ہے کہ یہ بڑی خبر ہونے کے با وجود بھارتی میڈیا پہلے کی طرح چیخنے چلانے کی بجائے اپنے میں گھنگھنیاں ڈالے ہوا ہے۔ 
کیونکہ وہ نریندر مودی‘ جس نے بھارتی پنجاب کے انتخابات میں پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کا ایک ایک قطرہ چھین لے گا‘ آج اسی عمل سے خودگزر رہا ہے‘ جس کی اس نے پاکستان کو دھمکی دی تھی۔چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بہت بڑا قدم اٹھاتے ہوئے دریائے گلوان کے بھارت کی طرف بہنے والے پانی کا بہائو روک دیا ہے اور بھارتی فوج کچھ کرنے کی بجائے خجالت بھری چپ لئے بے بسی سے دیکھ رہی ہے۔ نئی دلی نے پہلے فیصلہ کیا کہ اس خبر کی تصدیق کرنے کی بجائے اس کی تردید کردی جائے‘ لیکن سیٹیلائٹ سے لئے گئے منا ظر‘ چونکہ ہر باخبر ادارے کے مشاہدے میں آچکے تھے اور انڈین فوج کے آپریشن روم میں بھی چین کے اس کارنامے کو بار بار دیکھا جا چکا تھا‘ اس لئے خاموش رہنے پر اکتفا کیا گیا ‘لیکن چین کی اس پیش قدمی کی کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ کچھ حلقے بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس کی جانب انگلیاں اٹھا رہے ہیں تو کوئی 14th کور کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے‘ جبکہ نئی دہلی میں پردھان منتری مودی ‘ اجیت ڈوول اور راج ناتھ سنگھ اب کیا کریں؟کی گردان کرتے ہوئے ادھر ادھر دیواروں کو گھورتے ہوئے بھارتی خفیہ ایجنسی راء سے رپورٹس مانگ رہے ہیں۔ بھارت کادفتر خارجہ انہیں وسیع پیمانے پر عالمی حمایت ملنے کی یقین دہانی کرانے سے گریزاں ہے‘ لہٰذا لے دے کر انتہا پسندمودی سرکار کے پاس سب سے سافٹ ٹارگٹ پاکستان ہی رہ جاتا ہے‘ کیونکہ جس قدر اس نے بھارتی عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بھر رکھی ہے‘ چین کے خلاف نہیں‘ ا س لیے وہ اپنی ساکھ کی بحالی اور عوام میں اپنے ووٹ مضبوط کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف فضائوں یا سمندر میں کوئی کاروائی کر نے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت کا نشانہ گوادر بھی بن سکتا ہے اور گلگت بلتستان کا کوئی اہم پراجیکٹ بھی‘ لہٰذا پاکستان کو ہمہ وقت تیار رہنا ہو گا۔
دریائے گلوا ن پر چینی قبضے اور اس کے دریائوں کے بہائو کا رخ موڑدینے کی خبریں ملتے ہی بھا رتی خفیہ ایجنسی راء نے انسٹیٹیوٹ برائے امن اور لڑائی پر تحقیق کرنے والے ادارے کے اہم ترین رکن ابھیجیت آئر مترا سے چین کے اس نا قابلِ یقین اقدام پر رائے طلب کی تو اس کی جانب سے دی جانے والی رپورٹ ان الفاظ کے ساتھ شروع ہو تی ہے '' دریائے گلوان کے پانی کے بہائو کو کاٹنا کوئی معمولی یا وقتی قدم نہ سمجھا جائے‘ چین نے یہ سب مکمل تیاری کے ساتھ اور اس کے نتیجے میں بھارت کے کسی بھی قسم کے رد عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اتنا بڑا قدم اٹھایا ہو گا ۔چینی قیا دت کوئی جذباتی فیصلہ کرنے کی بجائے ہمیشہ سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتی ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ دریائے گلوان کے پانی کا بھارت کی جانب بہائو رکتے ہی ان کے ہاں واویلا مچ جائے گا اور اپوزیشن جماعتیں اس ایشو کومودی سرکار کے خلاف بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی‘‘۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ '' چین نے اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے تیاریاں یقینا مکمل کر لی ہوں گی کہ بھارت کے کسی بھی قسم کے رد عمل سے کس طرح نمٹنا ہے ؟‘‘۔اس رپورٹ میں بھارتی سرکار کوکہا گیا ہے '' اگر ہم نے دیر کر دی اور اسی طرح ہاتھ باندھے چپ بیٹھے رہے تو ہمارے ادارے کی تفصیلی ریسرچ اور مطالعے کے بعد یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ پھر بھارت میں ایک طرف پینے کے پانی کیلئے لوگ ترسیں گے تو دوسری جانب ہماری زراعت کو زبردست دھچکا لے گا‘ کیونکہ اگر چین کو یہاں سے پیچھے نہ دھکیلا گیا تو وہ ہماری جانب بہنے والے دوسرے دریائوں کے بہائو اور پانی کے تمام ذرائع کے رخ بدل دے گا‘‘ ۔چین کا دریائے گلوان کے پانی کا رخ بدلنے کی خبر پر جب بھارت کی وزارتِ خارجہ کے افسران سے رابطہ کیا گیا تو ان کا مختصر سا جواب یہ تھا '' ابھی پوزیشن کلیئر نہیں ہوئی ‘ہم تمام صورت ِحال کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘لیکن بھارت کی وزارتِ خارجہ میں اس خبر نے سکتہ سا طاری کر دیاہے ‘اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ کس طرح میڈیا پر لایا جائے؟ کیونکہ جب چین نے لداخ میں بھارت کے زیر قبضہ اپنے علاقے کی جانب پیش قدمی کی تھی تو شروع میں بھارتی میڈیا اور سرکار اسے تسلیم ہی نہیں کر رہے تھے‘ لیکن پھر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو پوپلے منہ کے ساتھ تسلیم کرنا پڑا کہ چین گزشتہ ہفتے لداخ کے اندر ہماری حدود میں گھس کر چھ کلو میٹر تک پیش قدمی کر چکا۔کوئی دس دن ہوئے '' ہمالیہ سے بلند دوستی‘‘ کے عنوان سے میرے لکھے گئے آرٹیکل پر بھارتیوں اور ان کے یہاں پر موجوددوستوں نے طعنہ دیا کہ چین جو کچھ کر رہا ہے‘ صرف اپنے سی پیک کیلئے کر رہا ہے ‘نہ کہ پاکستان کیلئے۔ 
ریکارڈ درست کرنے اور بھارت نوازوں کو بتانے کیلئے انہیں اکتوبر2016ء میں لئے چلتے ہیں کہ جب پاکستان میں مودی کے دوستوں کی حکومت تھی اور بھارت ایک ایک قطرہ کر کے پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کو جگہ جگہ روکنے کے بعد اس قدر بے خوف ہو چکا تھا کہ اس نے اعلان کر دیا کہ بھارت دریائے سندھ کے پانی کو بھی روکے گا اور سندھ طاس معاہدہ کو بھی قبول نہیں کرے گا‘ جس پر '' ہمالیہ سے بلند دوستی‘‘ نے بھارت کا بازو مروڑتے ہوئے تبت سے اس کے دریائے برہم پترا کا پانی روک کرایسا جھٹکا دیا کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں