نیپالی پارلیمنٹ اپنے آئین میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس میں نیپال کے ملکیتی حصے جن پر بھارت اپنی ملکیت جمائے بیٹھا ہے انہیں اب با ضابطہ طو ر پرنقشوں کی مدد سے نیپال کا حصہ ڈکلیئر کیا جائے گا۔ یہ وہ سرحدی علاقہ ہے جہاں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے8 مئی کو اترا کھنڈ سے نیپالی علا قے لیپو لیکھ سے گزرنے والی بائیس کلو میٹر طویل پختہ سڑک کا افتتاح کیا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں چین‘ بھارت ا ور نیپال کی آپس میں سرحدیں ملتی ہیں۔ یہ اترا کھنڈ کے مشرق میں مہا کالی ندی کے کنارے نیپال کا دھار چولہ نام کا علاقہ ہے اور مہا کالی ندی انڈیا اور نیپال کی سرحد کا کام دیتی ہے۔ دھار چولہ سے لپو لیکھ کو ملانے والی سڑک کیلاش مانسرور کے نام سے مشہور ہے اور جب2019ء میں بھارت نے لپو لیکھ کو بھارت کا حصہ قرار دیا تو نیپال نے اس وقت بھی اس پر سخت احتجاج کیا تھا اور2015 ء میں جب بھارت اور چین کے مابین اسی راستے کے ذریعے تجارت کے فروغ کا معاہدہ ہوا تو بھی نیپال نے دونوں ملکوں کوبا قاعدہ احتجاج ریکارڈ کروایا تھا کہ یہ نیپال کا حصہ ہے اور کسی کو ہماری اجا زت کے بغیر اس کا کوئی معاہدہ کرنے کی اجا زت نہیں دی جا سکتی۔
راج ناتھ سنگھ نے جب اس سڑک کا افتتاح کیا تو نیپال کے احتجاج کا جواب دینے کیلئے بجائے کسی سیا سی شخصیت کے انڈیا کے آرمی چیف کا بیان آگیا کہ ہماری بلی ہمیں کو میائوں‘ نیپالیوں کواتنی جرأت کب سے ہو گئی‘ ان کو اچانک اپنی سرحدیں یک دم اتنی عزیز کیسے ہو گئیں‘ گورکھے یہ واویلا صرف چین کے اکسانے پر کر رہے ہیں ۔ انڈین آرمی چیف جنرل منوج‘ جس کا دماغ بارہ لاکھ فوج اور ہر قسم کے جدید اسلحے کی بھر مار کے غرور سے پاگل ہو چکا ہے ‘اس کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ہزاروں نیپالی عوام جن میں نوجو انوں کی اکثریت تھی بھارت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ نیپالی عوام کی یہ انگڑائی اور احتجاج میں لگائے جانے والے نعرے اور بینرز بھارت کیلئے ایک جھٹکے سے کم نہیں تھے۔ انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی نیپالی ہیں جو اِن کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے ۔ 1995-98ء کے عرصے میں نیپال کی نو جوان نسل بھارتی تسلط اور ہمہ وقت ان کی ڈکٹیشن کے خلاف آواز اٹھانا شروع ہو گئی تھی اور مزدوروں‘ طلبا اور دفاعی فورسز میں گورکھا خون آہستہ آہستہ جوش مارنے لگا تھا‘ جس کی بھارت کو متواتر خبریں مل رہی تھی ۔ بھارت کئی دہائیوں سے نیپالیوں کی تضحیک کرتا چلا آ رہا تھا ان کی خود مختاری کو اپنے خواہشوں تلے روند نا معمول بنا لیا تھا۔ جس سے نیپال کی نئی نسل اند ر ہی اندر سلگ رہی تھی اور جب نیپال میں کمیونسٹ پارٹی نے راج سنبھالا تو اس نے آہستہ آہستہ نیپالیوں کو ان کی پہچان اور سرحدوں کی تعظیم کا شعور دینا شروع کیا ان کے دلوں میں اپنے ملک کی علاقائی سرحدوں کے احترام کو بحال کرنا شروع کیا ان کے اند رگریٹ اور خود مختارنیپال کا تصور اجا گر کیا۔
1998ء میں بھی بھارت کی آمرانہ سوچ اور توسیع پسندی کے خلاف جب نیپال میں احتجاج شروع ہوا تو نیپالی عوام نے بھارت کے دفاتر اور کمپنیوں کو نشانہ بنا نا شروع کر دیا کچھ عرصہ بعد حالات تو معمول پر آگئے‘ لیکن نیپالی عوام کی سوچ بھارت کے خلاف دن بدن بڑھنا شروع ہو گئی۔ جس پر ممبئی سے شائع ہونے والے مراٹھی اخبار ''سکال‘‘ کی دو خاتون جرنلسٹس کو خصوصی مشن سونپتے ہوئے نیپال بھیجا گیا تاکہ وہ تحقیق کریں کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن سے نیپالی عوام بھارت سے بد ظن ہونا شروع ہو گئے ہیں؟ کہیں یہ چند ایک سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے ہو رہاہے یا اس میں چین اور پاکستان سمیت دوسری بھارت مخالف قوتوں کا ہاتھ ہے؟ کیا نیپال کا میڈیا یا کچھ یونیورسٹیاں نیپالیوں میں بھارت مخالف جذبات ابھارنے کا سبب بن رہے ہیں؟اپنے اس تحقیقی دورے میں یہ دونوں خاتون صحافی کھٹمنڈو اور نیپال کے اندرونی اور سرحدی علاقوں سمیت تعلیمی اداروں میں جاتی رہیں‘ نیپال میں موجود مقامی اور غیر ملکی میڈیا سے تعلق رکھنے والوں سے طویل بحث کی ۔ کھٹمنڈو یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر نے یہ بتا کر ان کو چونکا دیا کہ آپ تو ہمیں کشمیر‘ جونا گڑھ اور حیدر آباد کی طرح اپنے اندر ایک ریاست کے طو رپر ضم کرنے والے تھے‘ لیکن یہ تو ہماری انقلابی جدو جہد تھی جس نے تم لوگوں کے قدم وہیں روک دیئے۔ ان خاتون صحافیوں نے جب اس کی تصدیق چاہی تو اس پروفیسر نے بھارت کے مشہور لیڈر ولبھ بھائی پٹیل کے7 نومبر1950ء کو پنڈت نہرو کو لکھے گئے خط کی کاپی سامنے رکھ دی جس میں نہرو کو مخاطب کرتے ہوئے صاف لکھا ہوا تھا کہ ہمیں فوری طور پر نیپال پر فوج کشی کرتے ہوئے وہاں مکمل کنٹرول کرتے ہوئے اسے بھارت کی فیڈریشن کا درجہ دے دینا چاہیے۔ یونیورسٹیوں کے پرفیسرز اور طلبا نے بتایا کہ بھارت نیپال کو ایک آزاد اور خود مختار ملک سمجھ ہی نہیں رہا سوائے اقوام متحدہ یا سارک میں اپنے حق میں ہاتھ کھڑا کروانے کے۔ نیپالی قوم کے ساتھ اگر بھارت کی زیا دتیوں اور امتیازی سلوک کا ریکارڈ دیکھیں تو گذشتہ کئی دہائیوں سے13 جولائی1950ء کو نیپال کی نئی نویلی ریاست کیس ساتھ اپنی طاقت کے زور پر کئے گئے معاہدے کی شق سات کے تحت بھارت کو حق دیا گیا کہ اس کے ہاں سے فلاں فلاں قبیلے اور قوم کے خاندان نیپال میں آباد ہو سکیں گے جبکہ دوسری جانب اسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھوٹان‘ سکم‘ ناگا لینڈ‘ آسام اور میگھالیہ میں نیپالیوں سے کسی دشمن ملک کے شہریوں جیسا برتائو کیا جاتا رہا۔ 1990ء میں جب بھوٹان حکومت نے اپنے ہاں جان بوجھ کر نسلی امتیاز کے نام پر ہنگامے کروائے تو انڈیا نے انہیں روکنے کی بجائے خاموشی اختیار کئے رکھی اور جب بھوٹان کے لاکھوں نیپالیوں کو نکال باہر کیا گیا تو بھارت نے انہیں اپنے ہاں پناہ دینے کی بجائے کمزور معیشت والے چھوٹے سے ملک نیپال کو مجبو رکیا وہ انہیں اپنے ہاں رکھے اس طرح بیس برس تک اپنے گھروں سے زبردستی نکالے گئے بھوٹان کے یہ نیپالی ان پر بوجھ بنے رہے۔ جب بھی نیپال بھارت سے دونوں ملکوں کی سرحدوں کے با قاعدہ تعین کی بات کرنے کی کوشش کرتا تو بھارتی سنی ان سنی کر دیتے بلکہ سرحدوں کے تعین کے طو رپر نصب کئے گئے ستون تک انڈین آرمی نے اکھاڑ کر غائب کر دیئے ۔
نیپال سے مزدوری اور چھوٹے موٹے کاموں کیلئے بھارت جانے والے ہزاروں نوجوان سیزن ختم ہونے پر جب نیپال لوٹتے ہیں توسرحدی علاقوں میں تعینات انڈین پولیس اور ان کے راشٹریہ سیوک سنگھ کے اوباش ساتھی ان بے چارے غریب مزدوروں کی چھ ماہ کی کمائی کو مار پیٹ کرتے ہوئے لوٹ لیتے ہیں نیپال نے بار بار بھارت سے اس کی شکایا ت کیں انہیں مکمل ثبوت دیئے لیکن کبھی بھی کوئی کاروائی نہیں کی اور یہ نوجوان جب لٹے پٹے خالی ہاتھ زخمی حالت میں اپنے گھر وں میں پہنچتے تو ان کے خاندان اور دوست ان کی حالت دیکھ کر بھارتیوں کے ان مظالم کے خلاف اندر ہی اندر پھٹنے لگتے۔نیپالی عوام کی ایک غالب اکثریت کو یقین ہو چکا ہے کہ بھارت نیپال کے پانیوں سمیت اس کے تمام قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کا آغاز اس نے نیپال سے'' کوشی اور گنڈک معاہدہ کرنے کے بعد‘‘ نیپال کے پانیوں کو روک کر کیا ہوا ہے ۔