"MABC" (space) message & send to 7575

آیئے بجٹ دیکھیں !

ہمارا ازلی اورروایتی دشمن اپنی سکیورٹی فورسز کو کیل کانٹوں سے لیس کر کے وطن عزیز کی سرحدوں کے ارد گرد تیار کھڑا ہے۔ ایسے میںاگر ملک کے دفاعی بجٹ کو گزشتہ برس کی طرح پھر منجمد کر دیا جاتا ‘تو اسے خود کشی کے مترادف ہی قرار دیاجا سکتا تھا۔ایسے وقت میں جب دشمن کی طرف سے لائن آف کنٹرول (ایل اوسی)پر جگہ جگہ راکٹس‘ میزائلز اور155mm توپوں کی گولہ باری معمول بنا چکا ہو‘ تو دشمن کی گردن دبوچنے کیلئے اور اس کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے سے زیا دہ تیاری کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ ایران کا دفاعی بجٹ14 ارب ڈالر‘ ترکی کا20 ارب ڈالر‘اسرائیل کا21 ارب ڈالراور بھارت کا دفاعی بجٹ71 ارب ڈالر ہے‘ جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف8 ارب ڈالر ہے اور پاکستان کے اس دفاعی بجٹ میں اگر اس کے ریٹائرڈ افسران اور جوانوں کی پنشن شامل کر لی جائے تو پھر یہ دفاعی بجٹ10 ارب ڈالر ہو جاتا ہے؛لہٰذااب خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ جوبھارت نوا ز کہتے ہیں کہ انڈیا کے71 ارب ڈالرز کے مقابلے میں ہمارا10 ارب کا دفاعی بجٹ بہت ہی زیا دہ ہے‘ وہ کتنی انصاف کی بات کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال برائے-21 2020ء کیلئے 72کھرب 95ارب روپے کے حجم کا بجٹ پیش کیا ہے‘جس میں 3437 ارب روپے خسارہ ہے ‘جو کہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کا 7فیصد بنتا ہے‘ جبکہ عوام کو ریلیف پہنچانے کیلئے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ۔ شپنگ‘ سیمنٹ‘کنسٹرکشن اور اس سے متعلق42 صنعتوں کو جو ریلیف دیا گیا ہے‘ اب تک کسی نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔بینکنگ سیکٹر ‘ سٹیل اور ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے یہ بجٹ ایک نعمت سے کم نہیں اور یہ لفاظی نہیں‘ بلکہ جو چاہے اس پر مجھ سے تفصیل سے بحث کر سکتا ہے۔ 
چینی‘ آٹا اور سبزیوں و دالوں سمیت خوردنی گھی کی قیمتوں میں تاجروں اور صنعتکاروں کا من مانا اضافہ اور روٹی نان کی قیمتوں میں بلا خوف ردو بدل کے سائے میں تنخواہوں اور پنشن کا نہ بڑھنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ میرے اپنے خاندان کے پانچ سرکاری ملازمین اس کی زد میں آ گئے ہیں ؛ لہٰذا اس حوالے سے بہتر ہوتا کہ انکم ٹیکس کی شرح میں کمی اور بجلی کے بلوں‘ ود ہولڈنگ اور سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کر دی جاتی ‘ کیونکہ تین ماہ سے فیکٹریوں اور کارخانوں کی جو صورت ِحال ہے‘ اس کے تناظر میںکوئی بھی صنعت کار اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں ہمیشہ کی طرح دس فیصد اضافے کاسوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ ایسے حالات میں جب دنیا بھر کی معیشت بستر مرگ پر ہو ‘ کوئی بھی وزیر خزانہ ایک سال کا تخمینہ لگا کر اسے اس یقین کے ساتھ پیش کر دے کہ یہ درست ہو گا‘ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
جتنا چاہے غصہ کریں ‘لیکن کورونا وائرس اور خطے میں فوجی پیش رفت کے پیش نظر بجٹ کی مجبوریاں بھی سمجھئے ‘ ملک کی65 فیصد صنعتیں بند پڑی ہیں‘ٹیکس‘ انکم ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس نام کی سرکاری وصولیوں میں کمی واقع ہو چکی۔ ہماری تمام بر آمدات جن سے ہمیں زر مبادلہ ملتا ہے‘ وہ اب نہ ہونے کے برا بر ہیں۔ خلیجی اور عرب ممالک میں گئے ہوئے لوگوں کی نوکریاں کہیں ختم ہو چکی ہیں تو کہیں ان کو نصف تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔ اس طرح اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے بھیجا جانے والا زرمبادلہ کم ہو تا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن نے تو بجٹ پر کیچڑ اچھالنا ہی تھا ‘لیکن افسوس پی ٹی آئی کے میڈیا سیل اور ان کی وزارت ِاطلاعات پر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ملک بھر میں بجلی استعمال کرنیوالے تمام صارفین کو ہزاروں روپے کی سبسڈی دے رہی ہے‘ لیکن اس کی جیسی تشہیر ہونی چاہیے‘ نہیں کی جا رہی ہے۔
ا مسال پیش کئے گئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس لگانے سے گریز اور پرچون پر ٹیکس کی حد میں کمی‘ ہوٹل انڈسٹری کو رعایت‘ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کیلئے فکس ٹیکس کی سہولت‘ ایکسپورٹ کے کاروبار سے متعلق شخص کیلئے ایکسپورٹ ریبیٹ براہِ راست ا س کے بینک اکائونٹ میں جمع کرا نا احسن قدم ہے۔ خام مال کو کسی بھی قسم کے کسٹم ٹیکس سے استثنیٰ اور ساتھ ہی200 آئٹمز پر کسٹم ڈیوٹی کے ٹیرف میں کمی کر دی گئی ہے۔ PRDمیں کمی اور کورونا سے متعلق کسی بھی قسم کی ادویات یا سہولیات سے متعلق سامان در آمد کرنے پر کسی بھی قسم کی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔ یہ اعلان تو کر دیا گیا ہے کہ کسٹم اور ایف بی آر والوں کے اختیارات کم کئے جا ئیں گے‘ لیکن یہ یاد رہے گا کہ سیا ستدانوں کے بعد اس ملک کو انہی اداروں نے نقصان پہنچایا ہے۔
تاجروں اور بڑی مارکیٹوں کے تھوک کا کاروبار کرنے والے دکانداروں کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے شناختی کارڈ پر خریداری کی حد پچاس ہزار سے ایک لاکھ کر دی گئی ہے‘ گو کہ یہ مطالبہ تاجر برادری گزشتہ دو بر سوں سے متواتر کر رہی تھی‘ لیکن اب‘ شہباز شریف کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے ڈر رہے ہیں ؛حالانکہ ان کی گزشتہ دو سال سے کی جانے والی تمام پریس کانفرنسیں گواہی دیں گی کہ ان کا تو مطالبہ ہی یہی تھا۔صنعت کاروں اور تاجروں کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے 237 قسم کے مختلف جو SROs حکومت نے جاری کئے تھے ‘ان کی مدت تین ماہ مزید بڑھا دی گئی ہے ۔ سگریٹ جیسی مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا سو فیصد کیا جانا ایک نہایت ہی احسن قدم ہے۔ میری اس بات پر کچھ لوگوں کو غصہ تو آئے گا‘ لیکن ان کا یہ غصہ ان کی صحت کیلئے ہی نقصان دہ ہے ۔ ڈبل کیبن لگژری گاڑیاں‘ جو آج کل ہر طرف دندناتی نظر آ رہی ہیں‘ ان پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اب ‘اسی طرح لاگو ہو گی‘ جس طرح بڑی بڑی لینڈ کروزر‘ پراڈو جیسی گاڑیوں پر عائد تھی۔
پرچون کی طرح تھوک کا کاروبار کرنے والوں پر عائد ٹیکس کی شرح چودہ فیصد سے کم کر کے بارہ فیصد کرنا ایک نہایت ہی اچھا قدم ہے اور اگر اسے مزید کم کر دیا جائے تو اس سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آ جائے گی( جس کی امید اس کاروباری معاشرے سے کم ہی ہے) پاکستان میںموبائل فون تیار کرنے والی کمپنیوں کو سیلز ٹیکس ایکٹ9 شیڈول میں کمی ایک اچھا قدم ہے۔
علاوہ ازیں بجٹ میں اپنی ٹیکس ریٹرن یا ٹیکس کی ا دائیگی کے سلسلے میں ملنے والے کسی بھی نوٹس کا جواب دینے یا اس کی تصحیح اور وضاحت کیلئے اپنا کاروباری یا ٹیکس آڈٹ کرانے کیلئے ''ای آڈٹ اورویڈیو لنک کی سہولت فراہم کرنا بھی احسن قدم ہے۔تعمیراتی شعبے کیلئے جس قدر شاندار پیکیج دیا گیا ہے‘ اس سے مستقبل قریب میں بیروزگاری میں کم ازکم پچیس فیصد کمی کا امکان ہے اور اس سے کم از کم بیالیس قومی صنعتیں تیز رفتاری سے ترقی کر سکیں گی!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں