"MABC" (space) message & send to 7575

سنتھیا رچی اور اسامہ آپریشن

یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ 2011ء میں جب پولیو سے متعلق محکمہ صحت کے افسران اورفیلڈ ورکروں کی جعلی ٹیم کے ذریعے اسامہ بن لادن کا ڈی این اے ٹیسٹ حاصل کیا گیا تو اس وقت کی عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی پی کی خیبر پختونخوا میں مشترکہ حکومت تھی اور امریکہ سے آئی ہوئی سنتھیا رچی کے پی کے محکمہ صحت کیلئے کام کر رہی تھی‘ جس نے اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد سے سیمپل لئے تھے‘ اگر الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ دیکھیں تو اس کے مطا بق‘ سنتھیا رچی نے بتایا تھا کہ اسامہ بن لادن کے مطلوبہ ٹیسٹ لینے سے دو برس پہلے وہ پاکستان پہنچی تھیں اور یہ سب کچھ ایک Coincidence ہے۔ 
سنتھیا رچی کے پاکستان کی کچھ سیا سی شخصیات پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات اپنی جگہ‘ لیکن اس سے یہ تو پوچھا جائے کہ اسے کون پاکستان لے کر آیا اور کن مقاصد کیلئے لے کر آیا؟یہ بھی پوچھا جائے کہ اس وقت تحریک طالبان پاکستان سمیت ایک درجن سے زائد دہشت گرد تنظیموں کی مو جودگی میں اسے کون وزیرستان سمیت قبائلی علا قوں کے ان انتہائی خطرناک علاقے میں لے کر جاتے رہے‘ جہاں دنیا کے چوٹی کے میڈیا کے لوگوں کو بھی جانے کی اجا زت نہیں تھی۔ امریکہ کی لوزیانہ یونیورسٹی کی گریجو ایٹ سنتھیا رچی ‘ جس کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں‘ لیکن اس وقت جب مرکز میں پی پی اور نون لیگ کی حکومت اور کے پی کے میں ان کے اتحادی کی حکومت تھی‘ کس نے 2009ء میں محکمہ صحت کے ساتھ سرکاری طو رپر پولیو مہم چلانے والے ادارے کے ساتھ منسلک کیا ؟ حکومت ِپاکستان نے ا چھا کیا کہ سنتھیا رچی کے پاکستان سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کے لگائے گئے الزامات پر بھی اگر پارلیمانی کمیشن بنا دیا جائے تو بہتر ہو گا ‘کیونکہ جن پر اس نے الزامات لگائے ہیں ‘ان کا تعلق بھی مشترکہ ایوان سے ہے‘لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ سنتھیا رچی اس وقت انتہائی خطرے میں ہے‘ کیونکہ جو کچھ اس نے کہا ہے اس کا رد عمل بھی ظاہر ہو سکتا ہے ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پارلیمنٹ کے فلور پر کی جانے والی تقریر میں دبنگ آواز میں عائشہ گلا لئی کے مبینہ موبائل پیغامات کے حوالے سے الزامات پر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پورے ہائوس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مطا لبہ کیا تھا کہ عائشہ گلالئی کے الزامات کو سرسری طور پر نہ لیا جائے ‘بلکہ آپ ایک پارلیمانی کمیشن تشکیل دیں اور یہ پارلیمانی کمیشن فیصلہ کرے کہ عائشہ گلالئی کے الزامات میں کتنی حقیقت ہے؟ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خور شید شاہ کے اس مطالبے پر نواز لیگ پی پی پی اور فضل الرحمان سمیت اچکزئی اور چند دوسری چھوٹی جماعتوں نے زور زور سے ڈیسک بجاتے ہوئے ان کو داد دیتے ہوئے پارلیمانی کمیشن بنانے کی حمایت کی تھی۔ یہ تقریر اور ساری کارروائی آج بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ سمیت ہر چھوٹے بڑے میڈیا ہائوس میں موجود ہے۔ جب عائشہ گلالئی کے حوالے سے رچایا ہو ڈراما کچھ پرانا ہو گیا تو پھر ریحام خان کو آگے لایا گیا اور اس کے نام سے کتاب شائع کرائی گئی‘ جس میں ایسی غیر مہذب زبان اور الزامات کی بھر ما رکی گئی کہ کتاب میں استعمال ہونے والے اوراق اور سیاہی بھی کانوں کو ہاتھ لگانے لگے ۔ یہ کھیل کھیلنے والوں کیلئے دوسروں کی بہو بیٹیوں کی پگڑیاں اچھالنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے حوالے سے کیا کچھ کہا گیا‘ سب کو یاد ہو گا۔ ریحام خان کی اس کتاب میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں پر انتہائی گھٹیا الزامات لگائے گئے‘ جسے شریف برادران کی حکومت نے کچھ میڈیا ہائوسز اور اینکرز کے ذریعے دن رات پروپیگنڈا کا ذریعہ بنائے رکھا۔
چار اپریل کو پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر پی پی کی خاتون رہنما مسز شہلا رضا نے بھٹو صاحب کا وزیر اعظم عمران خان کے والد اکرام اﷲ نیازی سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو کا باپ اور بلاول کا نانا بھٹو توجنت میں ہیں اور کسی کا کرپٹ انجینئر باپ جسے بد عنوانی پر ملازمت سے نکالا گیا تھا ‘اس وقت دوزخ میں جل رہا ہو گا‘ جس پر وزیر اعظم عمران خان کے زبردست مخالف حفیظ نیازی نے ٹی وی پر آ کہا تھا کہ ان کے چچا اکرام اللہ خان نیازی ایک ایماندار اور انتہائی ذہین انجینئر تھے ۔انہوں نے گورنر پنجاب کالا باغ سے سیا سی مخالفت کی وجہ سے خود ملازمت سے استعفیٰ دیا تھا۔
شہلا رضا صاحبہ‘ وزیر اعظم عمران خان کے دھرنے اور بعد کی سیا سی ہلچل میں اپنی میڈیا ٹاکس میں یہی کہتی رہیں کہ ہم پی پی پی کے لوگ اس قدر سدھرے ہوئے ہیں کہ ہم سب سیا سی لیڈران کی گھریلو خواتین کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں‘ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سیا ست میں شرافت برد باری کا جو راج تھا‘ اسے خود ان جماعتوں نے ختم کیا۔ ایک دوسرے کی بہو بیٹیوں اور مائوں بہنوں پر گھٹیا الزامات لگائے گئے۔نون لیگی 1988ء اور پھر1990ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کی مبینہ جعلی تصاویر کو اخبارات اور رسائل میں بار بار شائع کراتے رہے۔ امریکی صدر جیرالڈ فورڈ کے ساتھ ان کی تصاویر چھوٹے طیاروں کے ذریعے پنجاب کی ہر تحصیل ہر گائوں میں گرائی گئیں‘ غرض وہ کون سا گھٹیا پن تھا‘ جس کا انہوں نے مظاہرہ نہیں کیا ۔ برسوں سے میڈیا پریہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈران کا انداز گفتگو مہذب نہیں ‘یہ اپنی مخالف سیا سی جماعتوں کے لیڈران کو غلط ناموں سے پکارنے کے علا وہ انہیں برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ ان سے پہلے سیا سی میدان میں اس قسم کی گفتگو کا تصور ہی نہیں تھا ۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے جلسوں اور ریلیوں میں میاں نواز شریف اور آصف زرداری سمیت دوسری جماعتوں کے مرکزی لیڈران کو ''اوئے‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں‘پھر کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمان کا پی ٹی آئی کے ہر جلسے میں مذاق اڑایا جاتارہا‘ جبکہ سچ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے نام سے وابستہ کیا گیا مبینہ نام پی ٹی آئی نے نہیں‘ بلکہ نون لیگ کے مرکزی لیڈر خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر لیاتھا۔ خواجہ آصف کی یہ تقریر اس وقت بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ کے علا وہ تمام میڈیا ہائوسز سمیت سوشل میڈیا پر موجود ہے‘ اگر کوئی چاہے تو سوشل میڈیا پر خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی اس تقریر کا مکمل ریکارڈ دیکھ سکتا ہے۔
میرا خیال ہے سنتھیا رچی اس وقت سخت خطرے میں ہو سکتی ہے۔ اس لئے ملک کے تمام سکیورٹی اداروں کو چاہیے کہ سنتھیا رچی کی2009 ء میں پاکستان آمد‘کے پی کے حکومت میں محکمہ صحت کے ساتھ منسلک کیا جانا‘ پولیو ٹیم کا حصہ بن کر اسامہ بن لادن کا ڈی این اے سیمپل لینا اور اس وقت کی مرکزی حکومت کے ذریعے قبائلی علا قوں میں بلا روک ٹوک آمدو رفت سمیت ملک کی اہم ترین سیا سی شخصیات کے خلاف الزامات سب کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں