"MABC" (space) message & send to 7575

لندن سے حملے

قصہ پارینہ بن چکے الطاف حسین نے مبینہ طور پر امریکی کانگریس کے نام خط میں اپیل کی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ بہت زیادتیاں کی جا رہی ہیں‘ ان کو حاصل انسانی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں اور دونوں صوبوں کے90 فیصد عوام اس صورتحال سے آزادی چاہتے ہیں‘ جس کیلئے امریکی کانگریس سے درخواست ہے کہ آئندہ اجلاس میں ان صوبوں کے لیے آزادی کا بل منظور کیا جائے۔ اس خط کی عبارت دیکھ کر بھارتی میڈیا اس طرح ڈھول پیٹنے میں مصروف ہے جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہو ۔ جب دشمن وار کرتا ہے تو اسے مدد پہنچانے کے لیے کئی طریقے اختیار کرتا ہے۔ اس لئے جیسے ہی مذکورہ خط امریکی کانگریس کو بھیجنے کا شوشا سامنے آیا تو ایک جانب بھارتی میڈیا پراس خط کی گونج سنائی دینے لگی تو ساتھ ہی سندھ میں بعض افراد ‘ جو الطاف حسین ہی کی طرح قصۂ پارینہ بن جانے والے سندھو دیش نظریے کے ساتھ ابھی تک چمٹے ہوئے ہیں‘ کی جانب سے مطا لبہ کیا گیا کہ سندھ میں کسی بھی قسم کا کاروبار کرنے والے غیر سندھیوں پر سندھ ٹیکس لاگو کیا جائے۔یہ کوئی معمولی مطالبہ نہیں بلکہ دشمن نے انتہائی مہلک وار کیا ہے۔مذکورہ خط کے اس شوشے پر بھارتی میڈیاابھی تک ڈھول بجا ہی رہا تھا کہ لداخ میں چینی کی سرحدی فورس نے ہاکیوں ‘ ڈنڈوں اور مکوں سے بھارت کی ریگولر فوج کا بینڈ بجا دیا۔ چین نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ پیپلز لبریشن آرمی نے دوسرے دن بھارت کے زیر قبضہ اس متنازعہ علاقے‘ جس پر چین کی ملکیت کا دعویٰ ہے‘ چھ کلو میٹر اند ر تک گھس کر ا پنی بیرکس اور پختہ مورچے تعمیرکر لئے اور پھر گزشتہ سوموار کو بھارت کی مانی ہوئی بہار جمنٹ کے بیس سے زائد جوانوں کو اس کے کرنل سمیت ہلاک کرنے کے بعد اس کے دو میجر ز سمیت دس جوانوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا‘ جنہیں گزشتہ روز چین نے خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رہا کیا ہے۔ اس طرح بھارت کی فوج کا وہ بت ریت کی دیوار کی طرح بکھر کر رہ گیا ہے‘ جس کی بھارتی میڈیا نے دھوم مچا رکھی تھی اورخلیجی عرب ممالک ‘ جہاں ڈیڑھ کروڑ سے زائد بھارتی کام کرتے ہیں ‘ میں اب اس کی فوجی قوت کا بنایا ہوا بت شرم سے منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ 
امریکی کانگریس کو لکھے گئے خط پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایت اس ملک سے کی جا رہی ہے جس کے اپنے کروڑوں عوام پچھلے پندرہ دنوں سے اس کی ہر ریا ست کی سڑکوں اور بازاروں میں نسل پرستی کے خلاف پر تشدد مظاہرے کر رہے ہیں۔ جس پر امریکی صدر کو پولیس کی مدد کے لیے فوج کو بلانا پڑ ا‘ جبکہ جس شہر سے مذکورہ خط لکھا گیا ‘ وہاں وکی لیکس کے محرک جولین اسانج کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟لندن میں ایکوا ڈرو کے سفارت خانے سے ‘جہاں اسانج کو سیا سی پناہ ملی ہوئی تھی ‘ لندن پولیس نے کس طرح اسانج کو گھسیٹتے اور دھکے دیتے ہوئے نکالا اور اسے امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ کیا اس وقت کسی نے کوئی آواز بلند کی ؟جن کی آنکھوں پر پاکستان دشمنی کی پٹی باندھ دی گئی ہے امریکہ میں گزشتہ پندرہ دنوں سے انسانی حقوق کی ہونے والی مسلسل خلاف ورزیوں کی بد ترین صورتحال ہی دیکھ لیتے تو کہیں سے آنے والے خط پر دستخط کرنے سے پہلے وہ جان جاتے کہ جن سے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کر رہے ہیں وہاں کالے اور گورے میں کس قدر فرق پایا جاتا ہے اوروہاں مذہبی بنیادوں پر دوسری قوموں سے کس قدر کا گھٹیا سلوک کیا جاتا ہے ۔کاش الطاف حسین اور پاکستان دشمنی میں اندھے ہو جانے والے دیگر عناصر جان لیں کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اورسوائے چند مخصوص گروپوں اور سوشل میڈیا پر بٹھائے گئے پالتو ایجنٹوں کے سوا تمام پاکستانی‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو‘ مضبوط اور محفوظ پاکستان کے حامی ہیں۔
امریکہ میں جارج فلا ئیڈ نامی ایک سیاہ فام شخص کو صرف اس شک پر کہ اس کے پاس بیس ڈالر کا جعلی نوٹ ہو سکتا ہے( جو بعد میں اصلی نکلا)‘ تین سو پونڈ وزنی امریکی پولیس افسر نے مسلسل سات منٹ تک گردن پر اپناگھٹنا دبا کر ہلاک کر دیا‘ ا س کے بر عکس بلوچستان میں دہشت گرد عناصر نے پاک فوج ‘پولیس‘ سکیورٹی فورسز ‘ سرکاری اہلکاروں اور شہریوں کو بم دھماکوں‘ خود کش حملوں اور فائرنگ سے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں شہید کیا ہے اوردنیا کا کون سا قانون ہے جو ایسے دہشت گردوں کے لیے سوائے بجلی کے جھٹکوں اور تختہ دار کے کوئی اور سزا تجویز کر تا ہو؟ جو عقل کے اندھے امریکیوں سے پاکستان کے خلاف اپیلیں کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسی امریکہ نے رمزی احمد یوسف اورایمل کانسی کو پاکستان سے اٹھایا اور امریکہ میں اپنی عدالتوں سے سزا دلوانے کے بعد ان دونوں میں سے ایک کو زہر کا ٹیکہ اور دوسرے کو بجلی کی کرسی پر بٹھا کر موت کے حوالے کر دیا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے امریکہ میں سی آئی اے کے دفتر کے باہر اس کے اہلکاروں اور بم دھماکے میں چند شہریوں کا قتل کیا ہے۔اگر پاکستان میں جگہ جگہ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کو پکڑا جائے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہاں سے ہو گئی؟پاکستان کی سکیورٹی انسٹالیشنز پر حملے اور آرمی پبلک سکول میں136 بچوں کا قتل عام کیا جائے تو کیا ایسے لوگوں کو دنیا کا کوئی ملک سزا دینے کی حمایت نہیں کرے گا؟ 
مقبوضہ کشمیر‘ لائن آف کنٹرول اورلداخ سمیت نیپال کی سرحدوں کے اندر کی جانے والی در اندازیوں اور توسیع پسندی کے جنون کے علا وہ پورے بھارت میں عیسائیوں‘ دلتوں اور مسلمانوں کے قتلِ عام اور دہلی میں ڈھائے گئے پولیس اور راشٹریہ سیوک کے غنڈوں کے مظالم دیکھنے کے بعد دنیا بھر کا میڈیا راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کی فسطائی ذہنیت اورسوچ کے خلاف ایک آواز ہو کر بھارت کے خلاف کھڑا ہو چکا ہے ‘جس سے بھارت کے اوسان خطا ہو رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے دنیا کے مختلف ممالک میں بٹھائے گئے ایجنٹوں سے لایعنی قسم کی حرکات کرائی جا رہی ہیں۔وہ لوگ جن کی گزشتہ ماہ انڈین آرمی چیف سے ملاقات کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں‘ وہی کچھ کہیں گے جو اِن کے ماسٹر انہیں سکھاتے اور پڑھاتے ہیں۔ کاش ہمارا میڈیاانڈین آرمی چیف سے ان ملاقاتوں کی تصاویر عوام کو دکھاتے ہوئے ان پر کوئی پروگرام ہی کردے ۔ پی پی پی سے میڈیا کیوں نہیں پوچھتا اس ننگ وطن اور کے یہ کرتوت سامنے آنے کے با وجود پارٹی کے سینئر لوگ امریکہ جا کر اس دشمنِ وطن سے طویل ملاقاتیں کس لئے کرتے ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں