"MABC" (space) message & send to 7575

’’تھری ایڈیٹ‘‘ کی آخری شوٹنگ

نئی دہلی ابھی گلوان ویلی میں چینی افواج کی پیش قدمی کے ہاتھوں ہونے والی سبکی پر آنسو بہا رہا تھا کہ24 جون کی رات اسے یہ جان کر ایک اور دھچکا لگا کہ جھیل Pangong Tso کے بعد چین Depsang Plainsمیں نیا فرنٹ کھولنے جا رہا ہے۔Pangong Tso تبتی زبان کا لفظ ہے‘ انگریزی میں جس کا مطلب High Grassland lake ہے۔ یہاں ڈیپلائے کی گئی چین کی پیپلز لبریشن آرمی یہاں سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر دولت بیگ روڈ اور شمال میں انتہائی حساس قراقرم پاس بھارت کے ہاتھ سے نکل جائیں گے‘ جس کے بعد اسے لیہہ اور سیاچن سے بھی ہاتھ دھونا پڑ یں گے۔
نئی دہلی کی پریشانی اس وقت اور بڑھ گئی جب اسے معلوم ہواکہ چین کی چوتھی متحرک انفنٹری ڈویژن اورچھٹی میکنائزڈ انفنٹری ڈویژن کی دس ہزار سے زائد فوج ٹینکوں‘ توپوں سمیت اس کےBottle Neckایریا میں اپنے کیمپ کر رہی ہے۔یہ خبر اس لئے بھی اہم ہے کہ اس طرح چین اس فرنٹ پر بھارتی فوج کی پٹرولنگ میں رکاوٹ بن جائے گا۔
سطح سمندر سے14270 فٹ کی بلندی پر واقع پنگانگ سو جھیل دن کے مختلف اوقات میں سرخ‘ نیلی اور سبز رنگت اختیار کر لیتی ہے اور یہی وہ منظر ہوتا ہے جسے دیکھنے والے مسحور ہو جاتے ہیں۔اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس جانب سے اس کا پانی میٹھا اور دوسری جانب کھاری ہے ۔ یہ جھیل بہت سے پرندوں خاص طور پر مہاجر پرندوں کے لیے بھی اہم پناہ گاہ ہے۔ لداخ سے تبت تک پھیلی ہوئی یہ جھیل‘ جس کے نیلے پانیوں پر سورج کی چمکتی ہوئی روشنیوں میں عامر خان کی بلاک بسٹر فلمThree idiotsکے فلمائے گئے اختتامی منا ظر نے دیکھنے والوں کو اس زور سے اپنی جانب کھینچا تھا کہ بالی وڈ کا ہر تیسرا فلم ساز اپنے سٹارز سمیت شوٹنگ کیلئے وہاں پہنچنا شروع ہو گیا۔ایک جانب یہ جھیل اگر ٹورسٹس کیلئے سیر و سیاحت اور فلمی دنیا کو اپنی جانب کھینچنے کی وجہ سے پر کشش بنتی جا رہی تھی تو دوسری جانب فوجی لحاظ سے بھارت اور چین کی اس میں دلچسپی بھی بڑھنا شروع ہو گئی اور یہی وہ مقام ہے جسے دونوں ممالک کے سرحدی نقشوں اور فوجی اصطلاح میں'' فنگر4‘‘ کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے ۔تاہم چینی افواج کے اس جھیل سے صرف چند کلومیٹرکے فاصلے پر بیٹھ جانے سے بھارتی فوج اور نئی دہلی کے ساتھ ساتھ بالی وڈ کی دنیا میں سراسیمگی پھیل چکی ہے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری کا کروڑوں نہیں اربوں روپیہ اب گھومتا ہوا دکھائی دے رہا ہے تو ساتھ ہی بھارت کی چودہویں کور میں خوف و ہراس اور پریشانی بڑھتی جا رہی ہے کہ چین ہر روز اپنا قدم پیچھے کی بجائے آگے بڑھاتا جا رہا ہے۔اگرچہ بھارت کے فوجی اور سفارتی ذرائع کے حوالے سے میڈیا بتارہا ہے کہ چین اپنی فوجیں گلوان سے واپس لے جارہا ہے‘ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ گلوان وادی کے اوپر اور پنگانگ سوجھیل سے چند کلو میٹر کا یہی وہ حصہ ہے جسے چینی افواج اپریل میں ہی اپنے قبضے میں لے چکی تھیں اور بھارت بڑی خاموش سفارت کاری سے چین پر دبائو ڈلواتا رہا کہ وہ کم ازکم آٹھ کلو میٹر اس علا قے سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لے۔ اس سلسلے میں برطانیہ ‘ جرمنی اور فرانسیسی حکومتوں کی جانب سے بھی کوششیں کی گئیں۔
نئی دہلی سے انڈین افواج کو ہدایات دی گئی ہیں کہ چینی افواج وادی گلوان ‘پنگانگ سو اور فوجی حد بندی کے ہاٹ سپرنگ ایریاز جنہیں فنگر 1‘2‘3‘ 4کے ناموں سے پکارا جاتا ہے‘ کے بعد شمال مشرقی لداخ کیلئے خطرہ بن چکی ہیں‘ جس کے بعد انڈین آرمی چیف جنرل منوج اب تک اپنے فوجی کمانڈرز سے تین مرتبہ لداخ کے مشرقی حصوں پر بریفنگ لینے کے بعد حکم دے چکے ہیں کہ LAC(لائن آف ایکچوئل کنٹرول) کے 65 مقامات پر پٹرولنگ کو سخت کر دیا جائے۔ ان کے الفاظ تھے: Plug all gaps۔
مشرقی لداخ میں اس وقت دونوں ممالک کی جانب سے سرحدی صورت حال اور اپنی فوجیں مارچ2020 ء کی پوزیشن پر واپس لانے کیلئے کئی کئی گھنٹے مذاکرات کرنے والے چینی فوج کے کمانڈر لین لیو جب بیس برس کے تھے تو روزانہ 20 کلو میٹر تک کی دوڑ لگایا کرتے‘ جس کا سلسلہ ابھی بھی اسی طرح جاری ہے اور دوسری جانب بھارتی فوج کی چودہویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہریندر سنگھ یہاں پوسٹ ہونے سے پہلے جی ایچ کیو میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس جیسے اہم ترین اور حساس منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ اگر مودی اور بھارتی سرکار کے وزیروں اور فوجی جرنیلوں کی یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ چین نے لداخ میں ان کی دھرتی کے کسی ایک حصے پر بھی قبضہ نہیں کیا تو پھر ان کے لیفٹیننٹ جنرل کے چین کے میجرجنرل سے مسلسل گیارہ گھنٹوں تک مذاکرات کس بات پر جاری رہے؟
گوکہ اس وقت لیہہ سمیت لداخ کے تمام حصوں میں انڈین فوج نے سیٹلائٹ سروسز کو کنٹرول کیا ہوا ہے‘ لیکن سچ اس طرح چھپا نہیں رہ سکتا ۔ نیلنگ کی مقامی دیہی کونسلر‘ جس کا تعلق بھارت کی جنتا پارٹی سے ہے ‘نے ٹیلی گراف لندن کو بتایا ہے کہ ایک صبح ان کے والد حسبِ معمول اپنے مویشیوں کو لئے نیلنگ کی وسیع و عریض وادی میں پہنچے تو یہ دیکھ کر انہیں جھٹکا سا لگا کہ پوری وادی میں چینی فوج تھی اور جگہ جگہ ان کے کیمپ نصب تھے۔ انہیں دور سے آتا دیکھ کر چینی فوجیوں نے اپنے مویشیوں سمیت فوری واپس جانے کوکہا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم مقامی میڈیا سے تو بات نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے سمیت ان پر بہت سی پابندیاں ہیں لیکن دنیا کا میڈیا جو یہاں پہنچ رہا ہے ان سے اس صورت حال کو کیسے چھپایا جا سکے گا؟بھارت کے ایک سینئر دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے بھی اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ گلوان ویلی میں ایک بہت بڑا چینی فوجی کیمپ نظر آ رہا ہے جو لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر انڈیا کی طرف ایک عشاریہ پانچ کلومیٹر اندر قائم کیا گیا ہے
بے شک بھارتی میڈیا واویلا کئے جا رہا ہے کہ بھارت کی ایک انچ زمین بھی چین کے قبضے میں نہیں‘ لیکن ا س پریقین کون کر رہا ہے؟لداخ اور لیہہ سمیت بھارتی اپوزیشن اور دوسرے حلقوں میں بھارتی میڈیا کی اس تکرار کو اس پیرائے میں لیا جا رہا ہے کہ''بھارت سچ کہتا ہے کہ چین نے بھارت کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا کیونکہ چین نے مئی سے جتنی بھی پیش قدمی کی ہے وہ اپنے ہی ان علا قوں میں کی ہے جس پر ستر برسوں سے زبردستی بھارت قبضہ جمائے بیٹھا تھا‘‘۔دوسری جانب لداخ کے علاقے نیلنگ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی کونسلر مسز رجین شودن نے لندن کے مشہور اخبار ٹیلی گراف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''صرف لداخ ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے وسیع علاقے پر بھی چین نے قبضہ کر لیا ہے‘ لیکن بھارتی حکومت اور فوج اپنے عوام اور دنیا سے اس سچائی کو چھپانا چاہتی ہے۔ 
نئی دہلی یا بھارت کے کسی دوسرے حصے میں بیٹھے ہوئے فوجی افسروں اور سیا ستدانوں سمیت سرکاری افسران کو تو چین کے اس قبضے سے کوئی فرق نہیں پڑ تا‘ وہ جو چاہیں کہے جائیں‘ لیکن ہم لوگ جو یہاں کے رہائشی ہیں‘ ہمیں چینی فوج کی یہاں موجود گی سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کل کو ہم نے چین کے ساتھ رہنا ہے یا بھارت کے ساتھ‘‘ ۔ 
ٹیلی گراف لندن لکھتا ہے کہ سچ چھپانا اورجھوٹی خبریں دینا جنگوں کا سب سے اہم ہتھیار ہوتا ہے‘ مقامی لوگوں کے حلق سے نکلنے والی آواز کو‘‘ اینٹی نیشنلسٹ‘‘ کے خوف سے دبا دیا جاتا ہے‘ لیکن آج کے دور میں بین الاقوامی میڈیا کو کس طرح سنسر کا شکارکیا جا سکتا ہے؟جس سے بھی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اب بھارت سے زیا دہ چین سے خوف کھانا شروع ہو گیا ہے‘ کیونکہ اس حصے میں جس طرح چین آگے بڑھ رہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ پورالداخ اور سکم اس کے قبضے میں آ جائے گا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں