صدر ٹرمپ کے مقابلے میں امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل ہونے والے ڈیمو کریٹ امیدوار اور سابق نائب امریکی صدر جو بائیڈن سے امریکہ میں مقیم مختلف علا قوں اور فورمز سے تعلق رکھنے والے با اثر ہندوئوں کا ایک وفد جن میں آئی ٹی ماہرین‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ سکالرز اور کاروباری طبقوں سے تعلق رکھنے والے افرادشامل تھے‘ خصوصی ملاقات کیلئے ان کے دفتر پہنچا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد امریکی شہریت کے حامل ان ہندوئوں کے وفد نے جو بائیڈن سے ان کے بھارت کے متعلق جاری بیان ‘جس میں انہوں نے بھارت کی موجودہ مذہبی اور انسانی حقوق سے متعلق پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا‘ پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ '' ہم ہمیشہ سے آپ کے سپورٹرز چلے آ رہے ہیں‘ کیونکہ بھارت کے متعلق روا رکھے جانے والے ماضی کے رویئے اور تاریخ کو دیکھیں تو ہمیشہ سے آپ بھارت کے انتہائی ہمدر د اور دوست رہے ہیں‘ بلکہ ہم امریکہ میں آپ کو انڈیا کا سفیر کہہ کر پکارتے ہیں‘ تاہم آپ نے دو روز ہوئے ایک ٹی وی انٹرویو میں کشمیریوں کے حق میں جو بیان جاری کیا ‘ اس سے بھارت کی عالمی پوزیشن کو سخت دھچکا پہنچا ہے ‘اس لیے براہِ کرم اپنے اس بیان کو واپس لے لیجئے‘ کیونکہ آپ نے اس انٹرویو میں بھارت کے بارے میں جو الفاظ استعمال کئے ہیں ‘اس سے تمام ہندو کمیونٹی جو آپ کی الیکشن کمپین کا ہراول دستہ رہی ہے‘ کو بہت دکھ پہنچا ہے ۔آپ سے درخواست ہے کہ اپنی الیکشن مہم میں بھارت کے لیے پہلے جیسا ہی رویہ رکھیں۔ کشمیر میں بھارت یہ سب کچھ خوشی سے نہیں کر رہا‘ آپ جانتے ہی ہیں کہ کس طرح پاکستان وہاں مداخلت اور دہشت گردی کرواتاہے اورہماری سکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہتے ہیں ۔آپ کے اس بیان سے آپ کے تمام ہمدرد ہندو ووٹرز اور سپورٹرز ناراض ہو گئے ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو امریکہ میں لاکھوں کی صورت میں ہندوئوں کی تعداد آپ کے لیے کام کرنے سے ہاتھ کھینچ لے گی‘‘۔
سابق نائب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکہ میں مقیم ہندوئوں کے اس وفد کی باتیں نہایت تحمل سے سنیں اور سننے کے بعد انتہائی نرم‘ لیکن مستحکم لہجے میں ان سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے کہ وہ جانتے ہیں ‘ امریکہ میں آپ کی آواز انتہائی موثرہے ۔امریکہ میں آپ ایک آزاد شہری کی حیثیت سے کئی برسوں سے مقیم ہیں‘ اس لئے اس معاشرے میں رہتے ہوئے آپ کو بھارت کی قیا دت اور سیا سی جماعتوں سمیت وہاں کی سول سوسائٹی سے اپیل کرنی چاہیے کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کیا جائے۔ امریکی شہریت کے حامل ہندوئوں کے اس وفد میں شامل خواتین ڈاکٹرز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا '' کیا آپ یہ پسند کریں گی کہ سکو لوں اور کالجوں میں پڑھنے والے آپ کے بچوں کو احتجاج کرنے یاکوئی ریلی نکالنے کی سزا اس طرح دی جائے کہ پیلٹ گنوں سے ان بچوں کی آنکھوں کا سیدھا نشانہ لیتے ہوئے انہیں زندگی بھر کیلئے اندھا کر دیا جائے؟ اور یہ کوئی غلطی سے نہ ‘ہو بلکہ پیلٹ گنوں سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے چہروں کا نشانہ لیتے ہوئے ان پر فائرنگ کو اپنا معمول بنا لیا جائے‘‘۔ جوبائیڈن نے صدارتی الیکشن کیلئے اپنی انتخابی مہم کی مدد کیلئے آئے امریکن ہندوئوں سے کہا کہ ''مجھے آسام میںNRC سمیت بھارت کے دوسرے حصوں میںCAA کے جبری نفاذ نے بہت مایوس کیا ہے۔کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہ دونوں ایکٹ بھارت کے مدتوں سے چلے آرہے جمہوری اور سیکولرازم نظریات سے متصادم ہیں؟کیا آپ اس حق میں ہیں کہ کشمیری مسلمان ہو ںیا آپ‘ سب کو زبردستی سات آٹھ ماہ تک اپنے گھروں میں فوج کے سخت پہرے میں کرفیو لگا کر قید رکھا جائے؟کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کے گلوبل رابطوں کو بند کرتے ہوئے سیٹیلائٹ کی میسر سہولتیں چھین لی جائیں؟کیا آپ پسند کریں گے کہ آ پ کے دفاتر‘ دکان اور کاروباری مراکز کو غیر محدود مدت تک زبردستی بندکرا دیا جائے؟عالمگیرموذی وبا کووِڈ19کے عروج کے دوران جب دنیا بھر میں ایک ماہ تک لاک ڈائون کیا گیا تو امریکہ سمیت بھارت میں لوگوں کی کیا حالت ہوئی؟ اس سے بھی ابھی تک بھارتیوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوا کہ ان کشمیریوں پر گزشتہ سات آٹھ ما ہ سے کیا بیت رہی ہو گی؟اس کے مقابلے میں کشمیر میں انڈیا نے فوج اور دوسری سکیورٹی فورسز کی طاقت کے ذریعے اس قسم کا لاک ڈائون رکھا کہ کسی کو باہر جھانکنے کی بھی اجا زت نہیں تھی؟شہری آزادیوں سمیت آزادی ٔا ظہار کا جو لطف آپ امریکہ میں اٹھا رہے ہیں‘ اس کاچوتھائی بھی بھارت کو کشمیری مسلمانوں کو دینے میں کیا حرج ہے ؟‘‘۔
امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل جو بائیڈن کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں ‘تو وہ ایک بہت بڑے بھارت نواز امریکی سیا ستدان کے طو رپر چلا آ رہا ہے۔ بارک اوبامہ کی انتظامیہ میں8 برس تک نائب صدر اور منتخب سینیٹر کی حیثیت سے امریکہ اور بھارت سمیت دنیا بھر کے ہندوئوں میں وہ بہترین اور ہمدرد دوست کی حیثیت سے انتہائی عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی انتخابی مہم میں امریکہ کی باا ثر ہندو کمیونٹی کروڑوں ڈالر زکی شکل میں ان کی بھر پور سپورٹ کے علا وہ جی بھر کر انہیں چندہ بھی دیتی رہی۔ امریکہ اور بھارت سول نیوکلیئر ڈیل میں جو بائیڈن کا کردار سب سے اہم تو رہا ہی تھا‘ ساتھ ہی بھارت سے سالانہ امریکی تجارت کو500 بلین ڈالر تک لے جانا ‘ان کی دن رات کوششوں کا حصہ گردانا جاتا ہے ‘ پھر سب سے بڑی وجہ امریکی شہریت کے حامل ہندوئوں کا ان کی جانب توجہ اور ہمدردی کا والہانہ سبب یہ بھی ہے کہ ہر سال اپنی صدارتی رہائش گاہ پر بڑی دھوم دھام سے دیوالی منانے میں وہ شہرت رکھتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی امریکن نژاد ہندوئوں کے کانوں میں جو بائیڈن کی آواز میں کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے لیے ہمدر دی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر سخت تنقید سننے میں آنے لگی اورپھر چند دنوں بعد آسام سمیت پورے بھارت میں جنتا پارٹی کے نافذ کردہCAA/CRC کے خلاف ان کے ریمارکس سامنے آئے تو ان سب کو زبردست دھچکا لگا‘ کیونکہ سابق نائب امریکی صدر جو بائیڈن کے الفاظ امریکہ اور دنیا بھر کی سیاسی قیادتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں انتہائی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔
دو ہفتے قبل 10 جون کو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی پر مبنی2019 ء کی عالمی مذاہب کی آزادی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ‘ اس رپورٹ کے صفحہ27 پر بھارت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے ‘جنوبی ایشیاء کے اس خطے میں مذہبی رواداری کا گراف اس تیزی سے نیچے کی طرف گیا ہے کہ لگتا ہے کہ وہاں کسی دوسرے مذہب کو پنپتا دیکھنا ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ اس رپورٹ میں پانچ اگست2019 ء کو مقبوضہ کشمیرکی خود مختاری کے قانون کی منسوخی‘ اور پھر دسمبر میں CAA ,ِِAnti Beef Laws ‘ گائے کو ہاتھ لگانے والے مسلم اور کسی غیر ہندو کو زندہ جلانا‘ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے گھروں‘ دکانوں ‘ کاروبار ‘گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو جان بوجھ کر پولیس کی سر پرستی میں نذرِ آتش کرنا‘ سرکاری اور حکمران جماعت کے لوگوں کی سر پرستی میں دِلت ‘ مسلمانوں اور عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنانا بھارت کا چلن بن چکا ہے ‘جو انسانی بنیادی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں کے ضمن میں آتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقوام عالم اس پر سخت غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس نا انصافی کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کر ے۔
دریں اثناء 24 جون کو ''الجزیرہ‘‘ ٹی وی چینل نے بھارت میں مذہبی آزادیوں پر مبنی اپنی رپورٹ میں مائیک پومپیو کی مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے بتا یا ہے کہ اس رپورٹ میں وائٹ ہائوس نے سرکاری طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اس کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اسے'' مذہبی آزادی کا سب سے بڑا مجرم‘‘ ٹھہرایا ہے‘ لہٰذا ہمسایہ ممالک پر تنقید کرنے کی بجائے مودی سرکار کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔