ایسوسی ایٹڈ پریس کی چودہ مارچ 2011ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت کی شہری ہوا بازی کے چار پائلٹس کے فلائنگ لائسنس جعلی ثابت ہونے کی بنا ء پران میں سے دو پائلٹس کو گرفتار کر لیا گیا‘ جس میں ایک پائلٹ کا تعلق ایئر انڈیا سے تھا‘جس پر ڈایئریکٹر جنرل سول ایوی ایشن بھارت بھوشن کے حکم پر بھارتی ایئر لائنز کے4000 پائلٹس کی اسناد اور ٹیکنیکل دستاویزات کی جانچ پڑتال کے لیے سات رکنی کمیٹی بنا دی گئی‘ لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آ سکی ‘کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ630 سے زائد پائلٹس کی اسناد اور لائسنس ہوا بازی کے مقررہ معیار کے مطا بق نہیں ۔
ذہن نشین رہے کہ ائیر انڈیا کے ان پائلٹس میں سے کچھ کے لائسنس کمرشل بھی تھے۔ یہ سکینڈل اس وقت سامنے آیا ‘جب ایک بھارتی پائلٹ نے لینڈنگ کے وقت جہاز کو ایک کارگو گاڑی سے ٹکرا دیا۔ اس وقت بھارت کے وزیر ہوا بازی ولا روی نے اپوزیشن کے سوال پر بتایا کہ انڈین ایئر لائن کے 57 پائلٹس کو دوران پرواز نشے میں دھت ہونے کی بناء پر ان کے لائسنس تین ماہ کے لیے معطل کر دیئے گئے ہیں اور وہ کہانی شایددنیا بھول چکی ہے ‘جب جون2008 ء میں نشے میں دھت ایئر انڈیا کے دو پائلٹ ممبئی ایئر پورٹ پر جہاز اتارنے کی بجائے ایک گھنٹے تک بغیر کسی وجہ کے ادھر ادھرچکر لگاتے رہے اور دنیا بھر میں مشہور ہو گیا کہ دہشت گردوں نے انڈین جہاز اغوا کر لیا ہے۔
اسی طرح3 مارچ2019 ء کی ایک رپورٹ کے مطا بق‘ سینئر فرسٹ آفیسر ولیم شینڈلر جو 25 برس سے سٹار ایلائنس ممبر یونائیٹڈ ایئر لائنز اور سائوتھ افریقن ایئر ویز سے وابستہ تھا ‘جوہانسبرگ سے فرینکفرٹ اترتے ہوئے کنٹرول نے اس کی پرواز میں کچھ عجیب سے ٹرن نوٹ کرنے کے بعد اس کی ہائی پروفائل سطح پرانکوائری کروائی تو پتا چلا کہ اس کا لائسنس جعلی تھا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یورپی یونین نے کبھی انڈیا یا کسی دوسرے ملک کی ایئر لائنز پر پابندیاں لگائیں؟یکم جولائی سے یورپی یونین نے 54ممالک کے شہریوں کو اپنے ہاں آنے کی اجا زت دی ہے‘ جس میں بھارت بھی شامل ہے ‘لیکن عالمگیر موذی وباکورونا وائرس کی وجہ بتاتے ہوئے پاکستان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں کیا ‘جبکہ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطا بق‘ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا اسے پاکستان سے متعصبانہ سلوک نہیں کہا جائے گا؟
یورپی یونین کی دیکھا دیکھی برطانیہ ‘ ویت نام سمیت دوسرے ممالک نے بھی پاکستان کے وزیر ہوا بازی کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کے حوالے سے پی آئی اے کی پروازوں پر چھ ماہ کے لیے پابندیاں عائد کردی ہیں۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ کا وہ سوموٹو تھا‘ جس نے قومی ائیر لائن میں کرپشن اور ہر سال اربوں روپے سبسڈی کی نظر ہو جانے پر زبان زد عام ہو نے والی خبروں پر لیا گیا‘ جس پر گزشتہ ایک برس سے انتہائی اعلیٰ سطح پر کی جانے والی انکوائری کے نتیجے میں قومی ایئر لائن کے150 پائلٹس کے لائسنس اور تعلیمی اسناد جعلی قرار پا گئیں۔ وفاقی کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میں ایسے تمام پائلٹس کی برطرفی کی منظوری بھی دے دی ہے۔
میری نظر میں اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یورپی یونین نے قومی ائیر لائن (پی آئی اے) کی پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ جلد بازی میں کیا۔قومی ایئر لائن کا ریکارڈ گواہ ہے کہ پی آئی اے ہمیشہ سےSafety First کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مسافروں کو اپنی بہترین خدمات مہیا کرتی چلی آ رہی ہے اور اس وقت قومی ایئر لائن میں جو پائلٹ خدمات انجام دے رہے ہیں‘ ان کی تمام اسناد اور لائسنس کی ایک سال تک انتہائی باریک بینی سے چھان بین نے ثابت کیا ہے کہ ان کی ڈگریاں اورلائسنس سب اصلی ہیں ۔
پاکستان سے چمٹنے والی دیمک نے قومی اداروں کو جس طرح چاٹا ہے‘ اس کے ذمہ داروں کو نہ جانے کون سے ادارے اور کون سی عدالتیں سزائیں دیں گی ؟حالانکہ مجرم سامنے ہیں ‘جن کی نشاندہی اس وقت کی گئی ‘جب ایئر چیف مارشل مصحف علی میر کو قومی ایئر لائن کے ایئر کریوز (Air Crews) کی بھرتیوں میں مبینہ طور پر میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اقربا پروری اور کرپشن کے ذریعے کی گئی بھرتیوں کے خلاف قائم کی گئی انکوائری کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تو پی آئی اے کے ایسے تمام درخواست دہندگان کے تعلیمی ریکارڈ زاور لائسنس سمیت دوسری ٹیکنیکل دستاویزات کے علا وہ بھرتی کرتے وقت ان کے لیے گئے انٹرویوز کی سمریوں کا جائزہ لینے کے بعد ہر پائلٹ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز کئے گئے ان تمام افراد کو ذاتی طور پر تحقیق اور سوال و جواب کے لیے بلایا گیا تھا۔ ان کے طویل انٹرویوز کرتے ہوئے یہ جان کر انکوائری کمیٹی کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ اس وقت ملک ایک انتہائی اہم ترین شخصیت ‘جن کے نام کے ساتھ مسلم لیگ نواز کی جانب سے حسا ب کتاب کا اس وقت ایک خاص لفظ کثرت سے ا ستعمال کیا جاتا تھا‘ انہوں نے فی پائلٹ چالیس سے پچاس لاکھ روپے بطورِ نذرانہ وصول کئے اور یہ قصہ89-90ء اور پھر94-96 ء تک کے عرصوں کا ہے۔
قومی احتساب ادارے اور وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پی آئی اے کو تباہ کرنے کے مرتکب مجرمان تک پہنچنے میں اگرمخلص ہیں تو ایئر چیف مارشل مرحوم مصحف علی میر کی رپورٹ وزارت دفاع میں موجود ہے‘ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس وقت کے ''احتساب کمیشن کے سربراہ جسٹس غلام مجدد مرزا کاآصف علی زرداری‘ احمد صادق اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے نا جائز استعمال پرتیار کیا گیا ریفرنس جس میں طارق کھوسہ جو اس وقت ایف آئی اے میں تھے‘ بیانات لئے جائیں‘جو اس کیس کے تفتیشی افسر کی حیثیت سے گواہ بھی تھے کہ کس طرح انہوں نے ملزمان کے خلاف ہائی کورٹ سے سخت عدالتی ایکشن کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ فائل دیکھیں یا طارق کھوسہ جو اب‘ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں‘ وہ بتائیں سکتے ہیں کہ قومی ایئر لائن میں بڑے بڑے عہدوں پر بھرتی کے احکامات دینے کے لیے ایک پیلے رنگ کی Strip پر کس اہم ترین شخصیت کے دستخط ہوا کرتے تھے؟
اسی طرح احمد صادق صاحب کے ہائی کورٹ کے سامنے ریکارڈ کئے گئے بیانات بھی گواہی دیں گے‘ جس میں انہوں نے ایک اہم ترین شخصیت کا نام لیتے ہوئے بتایا کہ وہ پائلٹ کی بھرتی کے لیے فی کس کتنے لاکھ نذرانہ لیا کرتے تھے '' اور یہ تعداد1600 سے زائد ہے‘ جن کا ریکارڈ آج بھی اس رپورٹ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
وطنِ عزیز میں اس کے عوام سمیت تمام قومی اداروں کی بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس ملک کی ہردور کی اہم ترین شخصیات کے خلاف جوریفرنس دائر کیا گیا‘ اسے جنرل مشرف کے2007 ء میں کونڈا لیزا رائس کے حکم پر دئیے گئے این آر او کے ذریعے ختم کرا دیا گیا‘ جس کا اظہار چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قومی اسمبلی میں بجٹ منظوری کے اگلے روز اپنے خطاب میں بھی کیا ہے۔
اب‘ سوال یہ ہے کہ قومی ایئر لائن میں جعلی پائلٹس کی اور اعلیٰ عہدے داروں کی بھرتیاں کیسے ہوئیں تو اس کے لیے وزارت دفاع کا ریکارڈ دیکھنا ہو گا۔ ایئر مارشل مصحف علی میر کی سربراہی میں قائم کی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو بھی دیکھنا ہو گا اور فضل پیچوہو نام کے اس افسر کو تلاش کرنا ہوگا‘ جسے بحیثیت ایڈیشنل سیکرٹری خاص مہربانی سے شہری ہوا بازی کا انچارج سیکرٹری لگایا گیا تھا ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان صاحب کاڈی ایم جی گروپ سے دُور کا بھی تعلق بھی نہیں تھا‘ لیکن انہیں بادشاہی اختیارات استعمال کرتے ہوئے صوبائی ملازمت سے بطور ِسپیشل کیس ڈی ایم جی گروپ میں شامل کیا گیا۔ اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ '' با کمال لوگ لا جواب سروس‘‘۔