قوموں‘ ملکوں‘ خاندانوں اور انسانوں کے کئے گئے کچھ فیصلے کبھی کبھی سخت تنقید اور اجتماعی غم و غصے کا اس بری طرح نشانہ بنتے ہیں کہ تنقید کے نشتروں کی بھر مار ہو جاتی ہے‘ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہی کئے گئے فیصلے قوموں کی زندگیوں کو درپیش آنے والے کسی انتہائی اذیت ناک نقصان سے بچائو کا سبب بن جاتے ہیں ۔انہی فیصلوں میں سے ایک گلگت بلتستان کی شکشم وادی کا جنرل ایوب خان کے ہاتھوں مارچ 1963ء میں چین کے حوالے کرنا تھا‘ جس پر اس وقت کے سیا سی‘ مذہبی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں‘ میڈیا اور ٹریڈ یونینز کی جانب سے احتجاجی ریلیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ گو کہ شرکاء کی تعداد بہت ہی کم ہوتی تھی‘ لیکن جلد ہی بھارتی فنڈنگ نے ایسا کام دکھانا شروع کیا کہ کچھ طلبا یونینز اور مزدور تنظیمیں بھی اس میں شامل ہو گئیں اور ان سب نے مل کر جنرل ایوب خان پراس قدر تنقید کے نشتر برسانا شروع کئے کہ خدا کی پناہ !
اب‘ اسے تقریباً پانچ دہائیاں گزر چکی ہیں۔ اس لئے کسی کو یاد ہی نہیں‘ لیکن ‘اگر اس کے اثرات اور ایسے لوگوں کے چھوڑے ہوئے اثرات کو دیکھنا ہے تو گلگت بلتستان میں ان کے گروہ آج بھی آپ کو مظاہرے کرتے اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈے کی صورت میں نظر آئیں گے۔ اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ اس فنڈنگ سے مستفید ہونے کا سلسلہ ابھی تک دشمن کے ایجنٹوں نے جاری رکھا ہوا ہے ۔ دوسرا فیصلہ جس پر اس وقت بہت لے دے ہوئی ‘بلکہ دیہاتوں کی بعض تھوڑے دل کی خواتین نے جب دیکھا کہ ان کے سترہ‘ اٹھارہ سال کے نوجوان بیٹوں کو بھرتی کر کے ساتھ لے جایا جا رہا ہے‘ توان خواتین نے حکمرانوں کو بد دعائیں دینا شروع کر دیں کہ نہ جانے ان کے بچوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟کہا جاتا ہے کہ اس وقت بناسپتی گھی کا کہیں نام ہی نہیں تھا او ریہ سب لوگ دیسی گھی اور پراٹھے کھانے کے عادی تھے۔ اب‘ ان کی مائیں ‘دادیاں اور نانیاں بیٹھ کر رونا شروع کر دیتیں کہ نہ جانے ان کے بچوں نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں؟
ذہن نشین رہے کہ یہ فیصلہ جس پر بہت تنقید کی جا رہی تھی‘ بی آر بی نہر کی کھدائی کا تھا‘ جس کیلئے ضلع لاہور اور قصور کے ہر گھر سے صحت مند نوجوانوں کو اس نہر کی کھدائی کیلئے پولیس اور انتظامیہ کے ذریعے لایا جانے لگا۔ پولیس‘ نمبرداروں کے ذریعے ہر گھر سے سترہ اٹھارہ برس کی عمر کے نوجوانوں کو زبردستی پر لے جانے لگی تو ہر قصبے اور محلے میں میں کہرام سا مچ گیا۔ کچھ لوگ ڈر کردوسرے اضلاع کے رشتہ داروں کی جانب بھاگ نکلے ۔اس بھاگ دوڑ میں قریباً چالیس سے زائد لوگ سانپوں کے کاٹنے سے ہلاک بھی ہوئے ۔بالآخرضلع لاہور اور قصور کے ہزاروں مردوں کی دو سالہ محنت اور قربانیوں کے نتیجے میں 1950ء میں جب یہ نہر مکمل ہوئی تو اس کی اٹھان اور ان اضلاع کی فصلوں اور باغات کو ملنے والے اچھلتے مچلتے پانیوں نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں اور پھر6 ستمبر1965ء کی ایک صبح جب بھارت لائو لشکر لیے لاہور کو فتح کرنے اور لوٹنے کیلئے آگے بڑھا تو ایک ماں کی طرح ڈھال بن کر یہی بی آر بی نہر‘ سینہ تان کر بھارت کی ٹڈی دل فوج کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اس جبری سمجھی جانے والی مشقت کے پھل سے اپنی عزتوں اور جان و مال کی حفاظت دیکھ کر سب اپنے خالق و مالک اﷲ تبارک و تعالیٰ کے حضور سر بسجودہو گئے اور حکمرانوں کو کوسنے والے اپنے کہے پر پچھتانے لگے۔
1948ء میں بی آر بی نہر( بمبانوالہ راوی بیدیاں نہر) 72 کلو میٹر طویل اور 18 فٹ گہری کھودنے کا آغاز ہو گیا اور یہ نہر جو بھارتی سرحد سے دو کلو میٹر دورہے ‘ جب اس کی کھدائی کا آغاز ہوا‘ تو اس کے افتتاحی موقع پر وہاں ایک جشن کا سماں تھا‘ نہ جانے کتنے من مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس وقت کے بچے اور لڑکے لڑکیوں میں سے جو بھی آج بفضل ِخدا حیات ہیں ‘انہیں یاد ہو گا کہ لاہور اور قصور کے اضلاع سے پولیس اور انتظامیہ ہر گھر سے سترہ اٹھارہ برس سے لے کر چالیس برس تک کے مردوں کو پولیس‘ پٹواری اور تحصیلداروں کے ذریعے مقررہ کیمپوں میں لاتی‘ جہاں پندرہ پندرہ دن تک ان کو دوپہر ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ کراتے اور سردیوں میں شام چھ بجے تک اور گرمیوں میں آٹھ بجے تک ان سے نہر کی کھدائی کرائی جاتی‘ ناشتہ اور کھانا انہیں سرکاری طور پر مہیا کیاجاتا اور حقہ تمباکو کی انہیں برابر کی سہولتیں مہیا کی جاتی تھیں۔ ان کی مدد اور رہنمائی کیلئے سول انجینئرز سمیت سکیورٹی کے جوان اور افسران ان کے ساتھ شامل ہوتے تھے ۔ چھ ماہ بعد ان لوگوں کو ایک مرتبہ پھر نہر کے مختلف حصوں کی کھدائی کیلئے لایا گیا‘ نیزدوبارہ آنے والے لوگوں کو کہا گیا کہ وہ نئے لوگوں کو ہمت و حوصلہ دیں اور ان کی بے جاپریشانیوں اور گھبراہٹ کو دُور کرنے میں مدد کریں۔ سینکڑوں گائوں‘ قصبوں ‘ اور ہزاروں محلہ جات سے سترہ اٹھارہ برس اور اس سے اوپر کی عمر کے تمام مردوں کے جانے سے جب علاقے خالی ہو گئے تو آٹھ دس مردوں کو پولیس اور پٹواریوں کی جانب سے منتخب کیا جاتا‘ جن کے فرائض میں تھا کہ وہ رات کو اپنے محلوں اور علا قوں میں پہرا دیا کریں گے۔
ہمارے محلے میں خدا غریق ِرحمت کرے انتہائی ہنس مکھ اور مضبوط جسم کے ٹو ٹو ماچھی اور عبد الرزاق طور کی ساری رات پہرہ دینے کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں‘ اس وقت دیہات اور قصبوں میں بجلی کی سہولت دور دور تک نہیں تھی‘ ا س لیے شام ہوتے ہی اندھیرا پھیل جایا کرتا اور رزاق طور اور ٹوٹو ماچھی مرحومین اپنے ہاتھوں میں ایک بہت مضبوط قسم کا لمبا سے ڈنڈا تھامے شام ڈھلتے ہی پہرہ دینے کیلئے نکل پڑتے۔ ان کی آواز میں اس قدر گھن گرج ہوتی کہ لوگ سوئے ہوئے اٹھ جایا کرتے۔ جیسے ہی بی آر بی نہر مکمل ہو ئی اور اس میں پانی چھوڑ اگیا ‘تواس کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ا چھا بھلا تیراک بھی ایک مرتبہ لڑکھڑا جاتا اور پھر6 ستمبر1965ء کی وہ صبح آ گئی‘ جب جبری مشقت کروانے پر حکومت کو برا بھلا کہنے والے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے کہ ان کی بھوک پیاس‘ سخت تکالیف نے لاہور اور پاکستان کو ان کی بنائی گئی اسی بی آر بی نہر کے ذریعے ہماری سکیورٹی فورسز نے دشمن سے محفوظ رکھا اور کئی گنا بڑا دشمن ‘ سترہ روز تک لاہور داخل ہونے کیلئے اس سے سر ٹکراتا رہا ‘لیکن بی آر بی سامنے کھڑی اس کا منہ چڑاتی رہی۔
جس طرح پیغمبر خدا خاتم النبین محمدﷺ نے چودہ سو برس پہلے مدینہ شہر کی کفار سے حفاظت کیلئے خود اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خندق کھدوائی تھی‘ ان کی امت کے ضلع لاہور کے نوجوانوں اور مسلمانوں نے اسی طرح بھوک اور سخت محنت و مشقت سے بی آر بی نہر کھود کر1965ء میں کفار کے لشکر سے لاہور اور پاکستان کی حفاظت کرائی۔ اب‘ آتے ہیں دوسرے معاہدے کی طرف‘ جس کے تحت جنرل ایوب خان نے ایک معاہدے کے ذریعے گلگت بلتستان کی حساس ترین شکشم وادی چین کو بطورِ تحفہ دے دی‘ اگر کوئی اس معاہدے کی گہرائی میں جاتا تو اسے سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگتی کہ '' اس معاہدے کے ذریعے غیر تحریری اور غیر محسوس طریقے سے چین اور پاکستان میں دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے‘‘۔
ستمبر1965ء کی جنگ میں چین کا بھارت کو '' ا س کی بکریاں واپس کرنے کا الٹی میٹم‘‘ دینا اسی سلسلے کی کڑی تھا اور اب‘ بھاشا ڈیم اور بلتستان کی طرف چڑھائی کی راہ میں یہی شکشم وادی کا معاہدہ حال ہے ۔یہ معاہدہ پہلے دن سے ہی بھارت کو کانٹوں کی طرح لگ رہا ہے اور وہ پیچ و تاب کھائے جارہا ہے کہ شکشم وادی تک پہنچے بغیر وہ اس خطے کی واحد طاقت بننے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ‘کیونکہ چین کا مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں پڑ رہی ۔ شکشم وادی کاجو علاقہ پاکستان نے چین کے حوالے کیا‘ وہ انگریزوں کے دو رکے نقشوں کے مطا بق‘ چین کا حصہ تھا‘جس پر پاکستان نے 2 مارچ1963 ء کو معاہدہ پر دستخط کر تے ہوئے‘ شکشم وادی چین کے حوالے کر دی‘ جس پر بھارت نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پاکستان نے اس کا2050 مربع میل علا قہ غیر قانونی طو رپر چین کے حوالے کر دیا ہے اور اس سلسلے میں اس نے اقوام متحدہ کو خط بھی ایک لکھا۔ (جاری)