"MABC" (space) message & send to 7575

ایک اور BRB…(2)

1963ء کے اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان نے Shaksgam Valley چین کو دے کر بدلے میں در اصل20 مربع میل کا جنوب میں سٹریٹیجک طو رپر انتہائی اہم خنجراب پاس حاصل کیا تھا‘ جس کی بھارت کو سخت تکلیف پہنچی۔ چین کو دیے گئے حصے پر نظر ڈالیں تو اس سے پاکستان کو یہ سٹریٹیجک فائدہ بھی ہوا کہ چین نے سرکاری طور پر تسلیم کر لیا کہ شمالی کشمیر بھی پاکستان کا قانونی حصہ ہے۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعدShaksgam Valley چین کے حوالے کرنے کامعاہدہ ہواتو دنیا حیران رہ گئی اور وہ طاقتیں جنہیں آپ کالا باغ ڈیم بننے کی مخالفت میں چالیس برسوں سے پیش پیش دیکھ رہے ہیں انہی قوتوں نے اپنے ساتھ سیا سی اور دیگر حلقوں کو ملا کر اور اس وقت کے معروف شعلہ بیان مقررین کی خدمات حاصل کرکے وہ اودھم مچانا شروع کیا کہ کچھ نہ پوچھئے ۔ 
لداخ کی گلوان ویلی‘ دولت بیگ اولڈی‘دمپسانگ ایریا ‘یہ وہ علا قے ہیں جو اس وقت چین اور بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی چپقلش کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ یہ کسی ندی نالے یا قریب کی چراگاہوں کا معاملہ نہیں بلکہ بھارت کے دماغ میں گھڑیال کی طرح ہر وقت بجنے والی وہ ٹک ٹک ہے جو اسے افغانستان کا ہمسایہ ملک بننے کا خواب دکھاتا چلا آ رہا ہے۔بھارت کو یہ مغالطہ ہو گیا ہے کہ وہ شمال کی جانب سے افغانستان کے ساتھ مل سکتا ہے ‘ اس طرح وہ جغرافیائی اعتبار سے چین کے برابر وسعت اور علاقائی پھیلاؤ حاصل کر سکتا ہے۔ حالانکہ بھارت کی اس بچگانہ خواہش کوعلاقے کے جغرافیائی ‘ سیاسی اور عسکری معاملات کو سمجھنے والا کوئی بھی متوازن ذہن قابل عمل قرار نہیں دیتا۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی اور امریکہ ‘ طالبان اور افغان طالبان میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد بھارت افغانستان میں بے سہارا ہو جاتا ہے کیونکہ افغان طالبان کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اشرف غنی سمیت کسی بھی افغان حکمران کے سیا سی اور دفاعی مشیروں کا تعلق بھارت سے ہو اور نہ ہی کوئی یہ چاہے گا کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر خطے کے امن کو تباہ کرنے کی سازشیں مزید جاری رکھ سکے؛ چنانچہ افغانستان میں صورتحال کی بہتری کو بھارتی منصوبوں کے خاتمے کا اعلان سمجھا جا رہا ہے‘ مگر بھارت خود کو افغانستان کا ہمسایہ ملک قرار دینے پر مُصر ہے اور اس کے لیے یہ بھونڈی دلیل دیتا ہے کہ لداخ کا وہ علا قہ جو گلگت بلتستان کے ایک کونے سے افغانستان سے ملتا ہے وہ در اصل بھارت کا حصہ ہے جس پر پاکستان کا قبضہ ہے اور وہ اپنا یہ علا قہ پاکستان سے واپس لیتے ہی افغانستان سے زمینی راستوں سے تجارتی اور سماجی رابطوں کے قابل ہو جائے گا اور فوجی روابط بھی بڑھا ئے گا۔ اس زمینی رابطے کے لالچ میں بھارت افغانستان کا مسلسل استحصال بھی کرتا آرہا ہے اور اس خطے میں پائیدار قیام امن کی راہ میں بھارت کے اس سازشی مائنڈ سیٹ کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔مگر زمینی طور پر بھارت کو افغانستان کے ساتھ ملانے کی بھارتی خواہش کی راہ میں Shaksgam Valley ایک بہت بڑے ڈریگن کی صورت میں کھڑی اسے ہر وقت خوف زدہ کئے رکھتی ہے‘ جس کی جانب دیکھتے ہی اس کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ 
بھارت اور چین میں جاری چپقلش اور آئے روز کی سرحدی جھڑپوں اور آئندہ کی کسی بڑی کنونشنل جنگ یا جھڑپ پر رائے زنی کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ لداخ‘ سکم‘ہما چل پردیش‘ اُتر کھنڈ اور ارونا چل پردیش یہ پانچ مقامات ان دونوں ملکوں کی سرحدیں ہیں اور سوائے ہما چل پردیش کے باقی چاروں مقامات پر تنازعات چل رہے ہیں‘ لیکن ان میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب پانچ اگست2019ء کو بھارت نے زورزبردستی سے آرٹیکل370/35A کو منسوخ کرتے ہوئے اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر ریا ست کو دو حصوں‘ یونین آف جموں و کشمیر اور یونین آف لداخ‘ میں تبدیل کر دیا۔گلگت بلتستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں‘ جس کے ایک طرف چین واقع ہے۔اب نقشے میں دیکھیں تو بھارت کے زیر قبضہ لداخ کے ساتھ NJ9842 اور اس کے بالکل ساتھ سیاچن ہے ۔اب یہ ذہن میں رکھئے کہ نقشے میں یہ حصہ بارہ میل شمال میں دریائے شیوک‘ جو قراقرم کے پہاڑی سلسلہ سالتو رینج کہلاتا ہے‘ سے ملتا ہے۔سیاچن گلیشئر قانونی طو رپر گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے‘ جو چین کے صوبے سنکیانگ سے ملتا ہے اس سے آگے وہ Shaksgam Valley ہے جو بھارت کو گلگت بلتستان کی جانب بڑھنے سے روکے ہوئے ہے اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے گلگت سے آگے نکل کر افغانستان تک جانے کی منصوبوں میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔
Shaksgam Valleyجسے مارچ1963ء میں چین کے حوالے کیا گیا‘ اسے ٹرانس قراقرم ٹریک بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک حصہ شمال میں چین کے صوبے سنکیانگ اور پاکستان کے گلگت بلتستان سے ملتا ہے جبکہ بھارت کے زیر قبضہ سیاچن گلیشئر شمال میں ہے اور اس سے آگے اکسائی چین ہے۔ اب ذرا آج کے چین بھارت متوقع میدانِ جنگ کا نقشہ سمجھ لیں‘جس کے تین سیکٹر ہیں ایک گلوان دوسرا دولت بیگ اولڈی اور تیسرا دمپسانگ جھیل ‘جس کا ایک حصہ چین اور دوسرا بھارت کے قبضے میں ہے اورا سی حصے میں چشول ہے جہاں بھارت کا اہم فوجی بیس ہے ۔ اگر ہم دریائے سندھ کو دیکھیں تو یہ لینک لاء جو اکسائی چین کے ساتھ چین کے پاس ہے اور رزانگ لا‘ چانک لا اور دمچوک جو بھارت کے قبضے میں ہیں یہاں سے انڈس داخل ہوتا ہے۔ یہ سب لداخ کے ہی حصے ہیں اور لب لباب اس کا یہ سمجھ لیجئے کہ انڈس لداخ سے گزرتا ہے اور قراقرم پاس بھارت کے قبضے میں ہے۔ انڈینز کا سب سے اہم ٹارگٹ میٹاکا پاس‘ جو چینی لداخ میں ہے اور اس کے قریب مشرق میں ایک اور درہ ہے جسے پارپک پاس کہتے ہیں ‘یہ دونوں درے گلگت بلتستان میں پاکستان کے پاس ہیں اس کے بعد ایک اور اہم ترین درہ خنجراب آتا ہے اور یہ پارپک پاس کے جنوبی حصے کو چھوتا ہوا گزرتا ہے اور ان سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر آگل پاس ہے اور یہ چاروں درے چین کے صوبے سنکیانگ سے ملتے ہیں اور ان سے کچھ پیچھے قراقرم پاس ہے جو سنکیانگ سے ملحق ہیں ‘اس طرح یہ اوپر کے پانچوں درے چین کے سنکیانگ سے ملتے ہیں۔
اب آتے ہی لداخ کے نیچے کی جانب جہاں لینک لا‘ رزانگ لا‘ چانک لا اور زارا لا پاسز ہیں جن کے ذریعے لداخ کو تبت سے ملاتے ہیں۔ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے ارد گرد چین اور پاکستان بیٹھے ہوئے ہیں ‘چین کے دو صوبے تبت اور سنکیانگ مقبوضہ جموں کشمیر سے ملتے ہیں‘ اکسائی چین اور Shaksgam Valleyکے درمیان میں سیاچن ہے جس پر بھارت کا قبضہ ہے اور اکسائی چین حاصل کرنے کے لیے بھارت دہائیوں سے منصوبہ بندی کر رہا ہے‘ لیکن آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرتا ۔مشرق میں تبت اور شمال میں چین کا سنکیانگ جموں کشمیر سے ملحقہ ہے‘قراقرم پاس سب سے اہم درہ ہے جس کے بالکل نیچے دمسانگ ہے جو چند پہاڑی سلسلوں کا زیادہ تر میدانی علاقہ ہے اوراس کے بالکل ساتھ دولت بیگ اولڈی ہے جہاں بھارت کی بری فوج کا ایک بریگیڈ اورپرانی ہوائی پٹی موجود ہے ۔
گلوان وادی میں چین نے دریائے گلوان اور پنگانگ جھیل کے ارد گرد مضبوط دفاعی لائن کھڑی کر رکھی ہے۔کارگل جنگ کو سامنے رکھیں تو اس وقت پاکستان نے سری نگر‘ زوجیلا اور کارگل لیہہ ہائی وے کو شمال کی جانب سے لداخ سے کاٹنے کی کوشش کی تھی ‘اسی طرح اب چین گلوان وادی میں دریا کے دونوں اطراف اونچی اونچی چوٹیوں پر بیٹھا ہے اور داربک‘ شیوک‘ دولت بیگ اولڈی ہائی وے کے عین اوپر چین اپنی فوجی چوکیاں بنا چکا ہے ۔اس طرح یہ سیکٹر اب چین کے نشانے پر ہے‘ کیونکہ چینی فوج دریائے شیوک اور گلوان کے سنگم پر پہنچ چکی ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں