600 ٹن سے زائد ریکوڈک کا سونا، 700 ملین ٹن لوہا، تانبا پیدا کرنے والا ساتواں، کوئلے کے ذخائر کا چوتھا بڑا ملک اور اس کوئلے کا اگر 20فیصد بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال ہو تو پاکستان کو چالیس سال تک20ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار ملتی رہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ آج قہر کی گرمی اور حبس میں پاکستان کے 80فیصد گھرانے دن رات کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا شکار ہیں۔ ایشیا میں گیس کے وسیع ذخائر رکھنے والے چھٹا ملک سردیاں آتے ہی توانائی کی کمی کا شکار ہو کر گھریلو صارفین کے حصے کی گیس کارخانوں اور فیکٹریوں کو دے کر ہر دوسرے گھر کا چولہا بند کر دیتا ہے۔ کاش! کوئی اپنے وسیع میدانوں اور سمندری ساحلوں کے اردگرد ہوا کو استعمال کر کے بجلی پیدا کرتا تو اس ملک کو 25ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل ہو جاتی۔ پورے براعظم افریقہ اور جنوبی امریکہ سے چار گنا زیادہ گندم پیدا کرنے والے ملک کے عوام کا آٹے، گندم کیلئے لمبی لمبی لائنوں میں کئی کئی گھنٹے کھڑے رہنا سب کیلئے باعثِ شرم نہیں تو کیا ہے؟ بہترین افرادی قوت رکھنے والا دنیا کادسواں بڑا ملک لیکن فنی تعاون کیلئے جگہ جگہ غیروں کا محتاج اور دو کروڑ سے زائد بے روزگاروں کی فوج۔ 5380 سے زائد بہترین PhD لیکن نوجوانوں کی تعلیم کیلئے مخلص اور اچھے اساتذہ کا فقدان۔ دنیا کی بڑی افواج، اور ایٹمی قوت کا حامل ملک‘ بائیس کروڑ سے زائد آبادی کا ملک اور ہر تیسرے مہینے غیروں کی خیرات کا محتاج؟ ہم سب نے اپنے پاکستان کو بساط سے بڑھ کر لوٹا اور کھسوٹا ہے۔ اس ملک کی تعمیر کیلئے اپنے حصے کی ایک ایک اینٹ لگانے کے بجائے سب نے اس میں لگی اینٹوں کو کھرچ کھرچ کر کھوکھلا کر دیا ہے اور اس کی چھت تلے بیٹھ کر اسی کو برا بھلا کہنے میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان جب دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے ظہور پذیر ہوا تو اس وقت کی کانگریسی قیا دت یہی کہے جا رہی تھی کہ یہ نوزائیدہ مملکت چند ماہ کی مہمان ہے۔ پاکستان میں بھی اِس کے مخالفین کی بڑی تعداد موجود تھی، یہ لوگ دعوے سے کہتے تھے کہ انگریزوں نے تو مسلمانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے، انگریز بڑی عقلمند اور دور اندیش قوم ہیں، انہیں اچھی طرح علم ہے کہ یہ چند دنوں کا کھیل ہے اور چھ ماہ کے اندر اندر پاکستانی خود کہیں گے کہ ہمیں معاف کر کے دوبارہ ہندوستان کے ساتھ ملا لو، ہم الگ نہیں رہ سکتے۔ آزادی کی دستاویز پر دستخط کرتے وقت نہرو سے جب میڈیا نے پوچھا کہ آپ تو تقسیمِ ہند کے سخت مخالف تھے‘ پھر یہ دستخط کیوں؟ تو نہرو نے کہا: میں نے یہ دستخط جان بوجھ کر کئے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ جناح کو ایک بار پاکستان بنا لینے دو، ہم ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ جناح بھاگتا ہوا میرے پاس آئے گا کہ ہم اس پاکستان سے باز آئے۔
پھر پاکستان بنتے ہی نہرو نے افغانستان کے ظاہر شاہ سے گٹھ جوڑ کر کے افغانوں سے ہمارے قبائلی علا قوں پر حملے کرا دیے۔ پاکستان کے شمال میں‘ کشمیر پر فوجی چڑھائی کر دی اور بلوچستان میں خان آف قلات کے بھائی کریم خان اور ظاہر شاہ کے ذریعے بغاوت کرا دی۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک نے اپنی فوجی قوت اور انگریز کے چھوڑے ہوئے وسیع اسلحہ کے ذخائر کے بل بوتے پر پاکستان پر چاروں جانب سے چڑھائی کر دی لیکن کشمیری رضاکاروں، قبائلی پٹھانوں اور پاکستان کی چھوٹی سی فوج نے مل کر کرشمہ کر دکھایا۔ وہ جو کہتے تھے کہ پاکستان چند دنوں کا مہمان ہے‘ ان کی نظروں میں لٹے پٹے لہو لہان نیم جان لاکھوں مہاجرین کے کبھی نہ ختم ہونے والے قافلے، کشمیر میں بھرپور جنگ، مغربی سرحد سے بھارت کی پشت پناہی میں صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں پر افغان فوج کے حملے، بلوچستان میں افغانستان کی شرارت، تاریخ دم بخود اور اقوام عالم انگشت بدنداں تھیں کہ اس کے با وجود یہ ملک سلامت رہا۔
پاکستان بننے کے چند سال بعد وہی جاگیردار جنہیں انگریز نے منہ میں اپنی وفاداری کی چوسنی دے کر پالا پوسا تھا، جمہوریت کی ڈمی سیا ست میں آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وزارتوں‘ سفارتوں اور اہم عہدوں پر قابض ہوگئے۔ وہ جنہیں کانگریسی قیادت نے مذہب اور فرقہ بندی کا باطل تصور دے کر تحریک پاکستان کا دشمن بنایا تھا‘ پاکستان کی سیا ست میں ابھرنے لگے اور انہوں نے اس قوم کوفرقوں اور منافرتوں میں تقسیم کر کے ایسے ٹکڑوں میں بانٹا کہ سب ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔
جس دن قیادت کی غلطیوں سے قائداعظم کا پاکستان دو لخت ہوا تو نہرو کی بیٹی نے لال قلعہ دہلی میں کھڑے ہو کرکہا: آج میں نے اپنے باپ کی خواہش پوری کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کو بحر ہند میں غرق کر دیا ہے۔ بندے ماترم کے ترانے کی گونج میں اس نے اعلان کیا کہ میں نے مشرقی اور مغربی پاکستانیوں کے درمیان اسلام کا رشتہ توڑ دیا ہے۔ آج اس زخم کو لگے 50 برس ہو رہے ہیں اور وہ قوم جس کی جنگی مہارت کا لوہا اقوام عالم نے مانا تھا، آج پھر دشمنوں کی سازشوں سے اس کے ہر حصے میں‘ ہر کونے میں‘ ہر صحن میں آگ لگی ہوئی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو قوم اپنی قسمت عالمی ساہوکاروں کے ہاں گروی رکھ دے وہ قوم ایک آزاد اور باوقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے اور گروی رکھنے والوں کو بار بار قیادت سونپ کر اس جرم میں ہم سب بھی کسی نہ کسی حد تک شامل ہیں۔ پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ کار بھاگ کر باہر جاناشروع ہو گئے، بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے والا پاکستان اس حالت تک جا پہنچا کہ آئی ایم ایف اور فرینڈز آف پاکستان قرضہ نہ دیں تو ملک کا پہیہ جام ہو کر رہ جائے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ چاہے نام کے ہی سہی‘ ہم کلمہ گو لوگوں کو یہ تکلیفیں اور عذاب کیوں؟ اس کا جواب یہ ملا کہ قدرت کے قوانین اٹل اور بے لچک ہوتے ہیں۔ قدرت اور فطرت کے قوانین کسی بھی قوم کے لیے بدلا نہیں کرتے۔خدا کی یہ سنت نہیں ہے کہ اپنے قانونِ قدرت کو کسی کے لیے بدل ڈالے۔ اللہ رب العزت نے اپنے پیغمبروں کے لیے بھی اپنے قوانین میں لچک پیدا نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ اس کے محبوب آخری نبیﷺ کو کہنا پڑاکہ اگر میری بیٹی خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراؓ بھی چوری کرے گی تو قسم ہے اپنے رب کی‘ اُس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے۔لیکن جب ہر چھوٹا بڑا اس مملکتِ خداداد کو لوٹنے کے بعد سزا اور جزا کا سامنا کرنے کے بجائے بڑے بڑے عہدوں کیلئے منتخب ہونے لگے، جب پاکستان میں انصاف خوابِ غفلت کا شکار ہو گیا تو پھر اللہ کا انصاف اس طرح بیدار ہوا کہ ظالم اور لٹیروں کا ساتھ دینے والوں کو اس طرح عذاب میں مبتلا کر دیا کہ نہ انہیں بجلی ملتی ہے اور نہ ہی گیس اور پانی۔ اپنے ملک کے جس دفتر میں بھی جائیں گے، ان کا کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہو گا اور نہ ہی ان کی زمینوں کے چھپے ہوئے خزانے ان کے کام آئیں گے۔
یہ صورتحال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ ہم آزادی کے بعد کس منزل کی جانب رواں دواں ہوئے تھے اور کدھر آ نکلے ہیں۔ لیکن اب بھی شاید بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ ہم اگر خود کو اور اپنے معاملات کو ٹھیک کر لیں تو ترقی کی منزل کی جانب اپنا سفر دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے پہلی شرط اپنا محاسبہ کرنا ہے۔