گلوان سے 150 کلو میٹر دور کھڑے ہو کر چینی افواج سے ڈری اور کانپتی ہوئی بھارتی فوج کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے جس ٹیکنیکل طریقے سے چین کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی مقبولیت کو لگنے والے سیاہ داغ کو دھونے کی ناکام کوشش کی ہے وہ مضحکہ خیز بھی ہے اور شکست خوردہ بھی۔ مودی نے چین کا نام لیے بغیر کہا ''اب توسیع پسندی کے دن لَد گئے‘ اب جارحیت اور توسیع پسندی کے عزائم رکھنے والی قومیں یا تو مٹ جاتی ہیں یا منہ کی کھا کر واپس پلٹ جاتی ہیں‘‘۔
ایک اطلاع کے مطابق جیسے ہی بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے چین کے ساتھ یہ معاملہ طے پا گیا کہ بھارتی عوام کو دکھانے کیلئے چین گلوان وادی کی موجودہ جگہ سے ایک کلومیٹر پیچھے چلا جائے گا اور اس کا باقاعدہ اعلامیہ بھارت کے کسی حکومتی عہدیدار کے لداخ فرنٹ کے مختصر دورے کے بعد جاری کیا جائے گا۔ اسی وقت راج ناتھ کی جگہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے خود لداخ پہنچنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نریندر مودی کی تقریر کے بعد امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے 9 جولائی کو اپنے ایک پالیسی بیان میں چین پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تمام جمہوریت پسند قوتیں مل کر چین کی توسیع پسندی کے عزائم کو ناکام بنائیں کیونکہ جس طریقے سے چین نے بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے لداخ میں کئی جگہوں سے بھارت کے اندرگھس کر غیر قانونی قبضہ کیا ہے وہ اس کی توسیع پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس بیان پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ‘‘۔
امریکی تاریخ دان کرسٹوفر کیلی اور برطانوی تاریخ دان سٹیورٹ لکاک نے مشترکہ طور پر ''America Invades‘‘ کے نام سے لکھی کتاب میں واقعاتی شواہد کے ساتھ بتایا ہے کہ بھوٹان، Andorra (ایک یورپی ملک) اورLiechtenstein (ایک ملک جو آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ کے درمیان واقع ہے اور صرف 62 کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے) ہی دنیا کے تین ایسے ممالک ہیں جہاں امریکہ اب تک یا تو حملہ آور نہیں ہوا یا اپنی مرضی یا زبردستی سے‘ وہاں کوئی فوجی اڈہ نہیں بنایا۔ کوئی تین دہائی قبل سکیورٹی کونسل کے ریکارڈ کے مطا بق اقوام متحدہ کی رکنیت کے حامل 193 میں سے 84 ممالک پر امریکہ با قاعدہ حملہ آور ہو چکا ہے۔ چین پر توسیع پسندی کا الزام لگاتے ہوئے مائیک پومپیو اور نریندر مودی نے خود سے اور دنیا بھر سے جو مذاق کیا ہے‘ ان کے اس بھاشن پر جس قدر بھی ہنسا جائے‘ کم ہے کیونکہ توسیع پسندی کی مذمت وہ کر رہے ہیں جنہوں نے دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے زیر نگین لانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
کسی کی سرحدیں‘ کسی کی معیشت‘ کسی کی سیا ست‘ کسی کا امن‘ کسی کی پرائیویسی‘ غرض جب چاہا اس پرچڑھ دوڑے اور اس کیلئے عراق، شام، لیبیا، افغانستان، مصر، تیونس، کیوبا، ویتنام، میکسیکو، جنوبی اور شمالی کوریا، مراکش اور ایران میں کہیں فوجی بغاوتوں کو پذیرائی دی تو کہیں''Mass Destruction‘‘ کا دھوکا دے کر مال و دولت سمیٹنے کیلئے حملہ آور ہو کر قابض ہو گئے۔ امریکہ‘ جس نے اپنے پروں کے نیچے اسرائیل اور بھارت جیسے پالتو‘ اپنے سے کمزور ہر آنے جانے والے پر غرّانے کیلئے چھوڑ رکھے ہیں‘ ان کے زہر سے ڈسے ہوئے اردن، فلسطین، شام، لبنان اور مصر ابھی تک تڑپ رہے ہیں۔
توسیع پسندوں کا سر پرست امریکہ اور اس کی ذیلی بھارت اور اسرائیل جیسی کرائے کی فوجی طاقتیں جہاں چاہتی ہیں‘ قبضہ جما کر بیٹھ جانا اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہیں۔ پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے جس طرح آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی دھجیاں بکھیر کر ایک ایسے علاقے کو جسے امریکہ اور اقوام متحدہ نے متنازع علاقہ قرار دے رکھا ہے‘ فوجی طاقت کے بل بوتے پر بھارت میں ضم کیا اور یونین آف جموں و کشمیر اور یونین آف لداخ کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا‘ وہ اس جارحیت کی کھل کر گواہی دے رہا ہے۔ خود بھارت نے 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو اپنی فوج ا ور سکیورٹی فورسز کی 8 لاکھ سے زائد سنگینوں کی نوک تلے دبا کر رکھا ہوا ہے۔صرف 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت نے امریکہ کو چین کی توسیع پسندی یاد دلا دی لیکن مقبوضہ کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی بھارتی فوج کی بندوقوں سے چھلنی لاشیں اس کو کیوں نظر نہیں آ تیں؟ سکولوں اور کالجوں کے 123 سے زائد نو عمر لڑکے‘ لڑکیاں بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے ادھڑی ہوئی بے نور آنکھیں لئے اقوام عالم کے ضمیر کو کب سے جھنجھوڑ رہے ہیں لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ یورپ، امریکہ اور جاپان چین پر بیس بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرنے پر تو پابندیاں لگانے کی بات کر رہے ہیں لیکن کیا انہوں نے کبھی بھارت کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کا کبھی سوچا ہے؟ چین‘ جس پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے توسیع پسندی کا الزام لگایا ہے‘ اس کی 14 ممالک کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں اور چین کی یہ سرحدیں کوئی پانچ چھ ہزار کلومیٹر نہیں بلکہ اس وقت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کی سرحدوں کی طوالت 22ہزار 116 کلو میٹر ہے۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ چین کی سرحدوں کا کل فاصلہ نصف کرہ ارض سے بھی زائد ہے۔ دنیا کے چودہ ممالک‘ ویتنام، لائوس، میانمار، بھوٹان، نیپال، بھارت، پاکستان، افغانستان، تاجکستان، کرغیزستان، قازقستان، روس، منگولیا اور شمالی کوریا چین کے ہمسایہ ممالک کی فہرست میں آتے ہیں اور سوائے ویتنام اور بھارت کے‘ اس نے باقی بارہ ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی معاملات خوش اسلوبی اور امن سے طے کر رکھے ہیں اور ان سب سے چین کے انتہائی خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم ہیں جبکہ چین کے مقابلے میں بھارت کے ہمسایہ ممالک چین، بھوٹان، نیپال، میانمار، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علا وہ سمندری سرحدوں میں سری لنکا، مالدیپ اور انڈونیشیا بھارت کی ہمسائیگی میں آتے ہیں اور اس نے اپنی سرحدوں سے متصل ہر ملک کے ساتھ خواہ مخواہ کے تنازعات اور جبری قبضے کو اپنا معمول بنا رکھا ہے۔ نیپال کے کالا پانی حصے پر مشتمل 400 مربع کلو میٹر علاقہ بھارت زبردستی اپنے کنٹرول میں لئے ہوئے ہے بلکہ الٹا نیپال کے پاس سوستا کے 140 مربع کلو میٹر علا قے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے گاہے گاہے اسے ڈانٹتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ پتھور گڑھ کا 400 مربع کلومیٹر کا علاقہ ہی بھارتی توسیع پسندی کی گواہی کیلئے کافی ہے۔
بھارتی توسیع پسندی کے ڈسے شکار دیکھنا ہوں تو اس کے ہر ہمسائے سے پوچھیں پھر پتا چلے گا کہ 70 برسوں سے ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ میانمار کو ہی لے لیجئے‘ ہالنپھائی گائوں سے ملحق کابا وادی منی پور سٹیٹ کی مورھ تحصیل اور تامو آف ساگینگ ریجن بھارتی فوجیوں اور اس کی بارڈر سکیورٹی فورسز کے بوٹوں تلے کچلے جا رہے ہیں۔ بھوٹان کی بات کریں تو بھارت کی ریاست اروناچل پردیش سے ملحق یہ چھوٹا سا ملک بھی بھارت کی گھورتی نظروں سے ہمہ وقت سہما رہتا ہے۔ یہ تو اس خطے کے ممالک کیلئے چین ایک بڑی نعمت بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ جیسے ہی بھارت اپنے کسی ننھے منے ہمسائے کی گردن دبانے کی کوشش کرتا ہے وہ رحم طلب نظروں سے مدد کیلئے چین کی جانب دیکھنا شروع کر دیتا ہے‘ اس خطے میں اگر چین کا رعب نہ ہوتا تو بھارت‘ پا کستان سمیت اپنے اردگرد کے دس بارہ ممالک کو ایک لمحے کیلئے بھی چین اور آزادی سے جینے کا حق نہ دیتا۔ بھوٹان کو بھارت کی جانب سے ملنے والے زخموں اور دکھوں کی طرف آئیں تو ''سربھانگ اور گیلنگ پھانگ‘‘ کو بھارت اپنا ترکہ سمجھ کر جب چاہے‘ اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔ بنگلا دیش کے تلپاتی اور بنگا بدھو جزیروں کا بھارت نے جو حشر کیا ہے وہ تو اپنی جگہ‘ بنگلا دیش کو اس کے جائز پانی سے جس سفاکی سے محروم کیا ہے اس پر ہر بنگلا دیشی تلملا رہا ہے۔ اب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہ موضوع کئی دفاتر کا متقاضی ہو گا۔