"MABC" (space) message & send to 7575

وہ جو سب سے بڑی عدالت ہے

سب دیکھ رہے ہیں کہ عدالتوں کے فیصلے اچھی طرح یا پوری تفصیل سے پڑھنے کے بجائے محض چند سطروں کو اپنے حق میں کیا گیا فیصلہ سمجھ کر اور وقتی طور پر جان بوجھ کر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے اپنے مداحین اور مصاحبین کی تسلی کا سامان کیا جاتا ہے تو اس طرح ایک طرف معزز عدالتوں کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھائے جاتے ہیں تو ساتھ ہی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے فیصلے کی چند سطروں کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کے لئے پریس کانفرنس اور میڈیا ٹاکس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں فیصلے کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔
میرا خیال ہے کہ یہی کچھ حال ہی میں خواجہ برادران کیس میں دیے گئے فیصلے کے ساتھ ہوا کہ خواجہ برادران اور نون لیگ کے سینئر ساتھیوں نے اپنی ضمانت کے فیصلے میں لکھی گئی آخری سطور پڑھے بغیر ہی نیب کے خلاف بیانات داغنا شروع کر دیے‘ حالانکہ معزز عدالت نے اپنے فیصلے کی آخری سطور میں یہاں تک لکھا ہے ''مذکورہ آرڈر کے پیرا 93 میں عدالت واضح کرتی ہے کہ اس کا جاری کردہ یہ حکم عارضی بھی ہے اور اس کا خواجہ برادران کے خلاف پیش کئے گئے نیب ریفرنس یا اس کے نتائج پر اثرانداز ہونا ضروری نہیں‘‘۔ اب یہ سطور غور سے پڑھئے اور پھر بتائیں کیا اس تشریح یا حکم کے بعد نیب یا کسی بھی دوسرے ادارے کے سربراہ سے مستعفی ہونے کی اپیل کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز رہ جاتا ہے؟
خواجہ برادران کے کیس کے چند حقائق جو اس وقت تک سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں‘ کچھ یوں ہیں: اگر کسی بھی ادارے کو دس بیس نہیں بلکہ 68افراد دہائیاں دیتے ہوئے فریاد کریں کہ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی جو انہوں نے ڈبل شاہ جیسے کچھ لوگوں کو کاروبار یا سر چھپانے کیلئے یا اپنے گھر کا خواب دیکھتے ہوئے کئی برسوں سے جمع کرا رکھی ہوں لیکن کئی سال گزرنے کے بعد بھی نہ تو انہیں کوئی پلاٹ اور نہ ہی ان کی جمع کرائی گئی رقوم واپس کی جا رہی ہوں یا ان سے کاروباری ا شتراک کے نام پر لیے گئے پیسوں کا کوئی منافع اور نہ ہی واپسی کی کوئی بات کی جا رہی ہو اور بے چارہ سائل کئی کئی سال ان کے دفاتر کے چکر لگانے کے بعد پاکستان کے کسی سرکاری ادارے سے مدد مانگنے کیلئے رجوع کرے تو کیا اس ادارے کا فرض نہیں کہ ایسے تمام پاکستانی شہریوں کی داد رسی کیلئے قانون نے اسے جو حق یا گائیڈ لائن دی ہے‘ وہ اس کے تحت کارروائی کرتے ہوئے متاثرہ فریقوں کی بے لوث مدد کرے؟ 
عدلیہ پاکستان بننے سے اب تک بے شمار تاریخی فیصلے کرتی چلی آ رہی ہیں جنہیں کبھی بے حد سراہا جاتا ہے تو کبھی کسی پر مختلف الزامات لگاتے ہوئے ہمارے ملک کے چوٹی کے سیاست دانوں نے ناک بھوں چڑھائی۔ بہت سے مشہور اور مرکزی سیاست دانوں نے ان عدالتوں کو اپنے خلاف فیصلہ آنے پر کبھی کینگروکورٹس کا نام دیا تو کسی نے اسے چمک سے تشبیہ دینا شروع کر دی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے فیصلے کو تو اب پی پی کے لیڈران کے علا وہ بڑے بڑے وکلاء کی جانب سے بھی ''جوڈیشل مرڈر‘‘ اس کثرت سے کہا جاتا ہے کہ یہ فقرہ اب زبان زد عام ہو چکا ہے۔ اگر حق میں فیصلہ آ جائے تو عدلیہ آزاد ہو جاتی ہے لیکن اگر وہی فیصلہ ان سیاست دانوں کی مرضی کا نہ ہو تو منہ میں جو کچھ آتا ہے‘ بنا سوچے سمجھے کہہ دیا جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مدعی یا مدعا علیہ سمیت سرکاری وکلاء مقدمات کو عدالت کے سامنے اس طریقے سے پیش ہی نہیں کر پاتے جس سے فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہو پاتا۔ بے شک ان کا مقدمہ اپنی جگہ مکمل اور سچا ہوتا ہے‘ اس طرح اپنے حق میں فیصلہ نہ پانے والے سائل کو یہ امر اکساتا رہتا ہے کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے یا شاید اس کے ساتھ کچھ غلط ہو گیا ہے۔
گزشتہ دنوں خواجہ برادران کی ضمانت کے خلاف نیب کی درخواست کی سماعت کے دوران معزز عدالت نے جو فیصلہ دیا اس پر مسلم لیگ نواز سمیت پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بیک آوازچیئرمین نیب کے استعفے کا مطالبہ کر دیا بلکہ دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے نیب جیسے ا دارے کو سرے سے ہی ختم کرنے کا گولہ داغ دیا۔ اب تک دنیا کے ہر ملک کے قانونی اداروں کی طرح پاکستان میں ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور پولیس لاکھوں‘ کروڑوں مقدمات عدالتوں میں پیش کرتے چلے آ رہے ہیں جن میں ملزمان گرفتار بھی ہوئے‘ کئی کئی سال جیلوں میں بھی بند رہے۔ وہ پان والے کا قصہ تو ابھی کل کی ہی بات ہے جسے مجسٹریٹ نے چھ دن کی سزا دی لیکن اسے رہائی گیارہ سال بعد اس وقت ملی جب اس کا مقدمہ سیشن جج کی عدالت کے سامنے آیا۔ مجسٹریٹ کا سنایا گیا فیصلہ پڑھ کر معزز جج اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اب کیا مجسٹریٹی نظام ، پراسیکیوٹنگ اور پولیس سمیت جیل خانہ جات کے سب محکمے ختم کر دیے جائیں؟
خواجہ برادران کے مقدمے کی بنیاد اس وقت پڑتی جب 68 افراد نے نیب کے سامنے فرداً فرداً پیش ہو کر استدعا کی کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے جس کے بارے میں بعد میں علم ہوا کہ یہ ہائوسنگ سوسائٹی اس لئے غیر قانونی ہے کیونکہ ایل ڈی اے نے اسے منظور ہی نہیں کیا۔ جب متاثرین کی التجائوں پر تحقیقات شروع ہوئیں تو ایک شخص نے NAO1999 کی شق 26 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے تسلیم کیا کہ ملزمان کے بینک اکائونٹس میں کچھ رقوم کی منتقلیاں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں قائم سعدین ایسوسی ایٹس نام کی ایک فرم کے بارے پتا چلا کہ اس کی کنسلٹینسی خدمات مذکورہ ہائوسنگ پروجیکٹ کیلئے مستعار لی گئی تھیں‘ جس کے عوض اس فرم کو 58 ملین روپے دیے گئے۔ ایک اور فرم کی کنسلٹینسی خدمات لینے کے بدلے میں 39 ملین کی رقم میسرز ایگزیکٹیو بلڈرز کو ادا کی گئی جو میسرز پیراگون سٹی کی ایک پراکسی فرم بتائی جاتی ہے‘ جس کے مالکان میں مبینہ طور پر عمر ضیا اور فرحان علی کا نام لیا گیا۔
جب 68 افراد اور ان کے لواحقین نے پریس کلب اور نیب پنجاب کے باہر اپنی ڈوبی ہوئی رقوم واپس دلانے کیلئے احتجاج شروع کیا تو چیئرمین نیب نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا اور نیب ٹیم نے کارروائی شروع کی تو پتا چلا کہ ندیم ضیا نامی ایک شخص نے شاہد بٹ نامی شخص کی31 کنال اراضی پر غیر قانونی قبضہ کرتے ہوئے اسے 63 کروڑ 8 لاکھ میں فروخت کر دیا ہے۔ اسی طرح شریک ملزمان نے اسی کیس میں حاجی رفیق نامی شخص‘ جو اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر بیمار پڑ گیا‘ کی80 کنال اراضی پر قبضہ کر لیا‘ جس کی مالیت ریونیو ریکارڈ کے مطا بق آج بھی ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔
لاہور کے نواحی علا قے موضع پھلرواں میں سرکاری شاملات کے21 کنال 18 مرلے، موضع ڈوگرائی خورد کے 13 کنال 5 مرلے اور موضع کلاس مربی کے 4 کنال 10 مرلے‘ ان سب کے بارے تحصیل کینٹ لاہور کا سرکاری ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہ سب قبضہ میں لے رکھی تھیں۔ ان تمام مقدمات میں جب ملزمان کی گرفتاریاں ہوئیں تو چند ماہ بعد انہوں نے ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا جس پر 18 جون 2019ء کو فیصلہ ہوا کہ مجاز عدالت کے سامنے پیش کئے گئے شواہد کے مطابق مذکورہ کیس عوام کو دھوکا دہی کا ثابت ہوتا ہے، اگرچہ ان الزامات کو ابھی تک ان کی گہرائی تک نہیں جانچا گیا لہٰذا درخواست گزار کی اپیل کو موجودہ شواہد اور میرٹ کی بنیاد پر رد کیا جاتا ہے۔
یہ ہیں وہ حقائق جو عوام سے چھپائے جا رہے ہیں اور سارا الزام تفتیشی اداروں پر لگاتے ہوئے اس کیس کو سیاسی اور بے بنیاد کیس قرار دیا جا رہا ہے۔ ہم سب کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا کے علاوہ وہاں بھی ہمارے اعمال کا حساب ہونا ہے جو سب سے بڑی عدالت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں