فیض محمد عرف ماما فیضو ٹرانسپورٹر کے قتل نے رحمان ڈکیت کو ارشد پپو سے دل برداشتہ کر دیا اور اس نے ان سب سے علیحدہ ہونے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے لیاری پر اثرانداز ہونے والی بیرونی سیا سی قوتوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دیے۔ ان عناصر کا اعتماد جیتنے کے بعد وہ کھل کر اپنے مقابل طاقت پکڑنے والے دوسرے گینگز غفار ذکری اور ارشد پپو کے خلاف ہو گیا۔ یہاں سے حالات نے ایک نیا رخ لیا اور لیاری کی بادشاہت کے لیے رحمان با با اور ارشد پپو گینگ میں خون ریز مقابلوں کا بھرپور اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو عزیر بلوچ کے ہاتھوں مبینہ طور پر ارشد پپو اور اس کے بھائی یاسر عرفات کے قتل تک جا پہنچا۔
لیاری گینگ کے بعد کراچی کے امن کو تباہ کرنے میں دوسرا اہم ترین فیکٹر لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت ہے جو کوبرا ناگ بن کر اس طرح ابھرا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کراچی اور سندھ سمیت ملک کے دوسرے حصوں کو بھی خون میں نہلا کر رکھ دیا۔ جنرل ضیا کے دور میں افغان جنگ میں ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی سے بھی نوجوان افغانستان جا نا شروع ہو گئے تھے۔ یہ نوجوان جنگ کے لیے کمانڈو تربیت حاصل کرنے ا فغانستان چلے تو جاتے لیکن صرف چند ہفتے ہی وہاں لڑتے اور پھر کراچی واپس آ جاتے۔ روسی فو جوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد جب شمالی اتحاد وجود میں آیا تو ایک دوسرے کے مخالف عسکری گروپوں کی وہاں کے اقتدار کے لیے آپس میں لڑائیاں شروع ہو گئیں جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا۔ یہ نوجوان جب افغانستان سے واپس پہنچتے تو پاکستان میں مخالف فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیتے اور کراچی میں ان کے مراکز بن گئے۔ اس طرح ان کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔
بعد کی معلومات نے یہ انکشافات کئے کہ اس گروہی جنگ کو بڑھاوا دینے اور ان مٹھی بھر گروپوں کو مالی و عسکری مدد فراہم کرنے میں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔ دشمن اس طرح کے مواقع کیسے ضائع کر سکتا تھا؟ 1970ء سے 1990ء تک کی دہائیوں کے دوران سندھ کی مختلف یونیورسٹیوں کے کئی طلبہ مفرور ہو کر نامی گرامی ڈاکو بن گئے تھے جن میں نسیم کھرل کو قتل کرنے والے رب رکھیو ناریجو جیسے درجنوں ڈاکو کراچی کے کرتا دھرتا بن گئے۔ یہ بھی خبریں عام ہیں کہ کراچی کا ہر کاروباری اور صنعتکار ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔ سندھ اور کراچی میں لسانی کشیدگی قومی اور بلدیاتی انتخابات سے پہلے اور بعد میں مزید پھیلتی، قصبہ کالونی کراچی اور پکا قلعہ حیدر آباد کا قتل عام آج بھی جلیانوالہ باغ کی یاد دلا تا ہے۔
ادھر الطاف حسین کی ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد میں ہر الیکشن کے بعد اپنے قدم مضبوط کر تی جا رہی تھی جبکہ پی پی پی صرف لیاری کی نشستوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ پھر پی پی کوکراچی میں ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنے کیلئے لیاری کے مسلح گروپوں پہلے رحمان با با اور بعد میں با با لاڈلا گروپ کا محتاج ہونا پڑ گیا۔
2008ء کے عام انتخابات کے بعد پی پی پی کا مرکز اور سندھ میں حکومت سازی کیلئے ایم کیو ایم سے اتحاد ہونے کے با وجود سندھ کی پی پی پی قیادت متحدہ کی دلی طور پر مخالف ہونے کی وجہ سے خوش نہیں تھی۔ سندھ کے اس گروپ کے لیڈر ذوالفقار مرزا تھے اور انہیں عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید کی مدد حاصل تھی۔ یہ دونوں مل کر بزور طاقت متحدہ کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن زرداری صاحب جانتے تھے کہ اس سے پورے سندھ کے اندر مہاجروں اور سندھیوں میں خونیں تصادم شروع ہو جائے گا جس کے نتیجے میں ان کی حکومت ختم کر دی جائے گی جس سے مرکز کے ساتھ سندھ بھی ان کے ہاتھ نکل جائے گا۔ جب مرزا گروپ کا ساتھ نہ دیا گیا تو رحمان با با کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد ''پیپلز امن کمیٹی‘‘ کے نام پر ایک اور عسکری تنظیم وجود میں لائی گئی جس کے سرپرست عبد القادر پٹیل، حبیب جان بلوچ اور اویس مظفر ٹپی بتائے جاتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو کے کراچی میں انتہائی قابل اعتماد ساتھی اور لیاری کی طاقتور شخصیت حبیب جان بلوچ نے '' فرینڈز آف لیاری‘‘ کے نام سے اپنی ایک علیحدہ نئی تنظیم بنا لی۔ حبیب جان بلوچ نے محترمہ کی اکتوبر میں کراچی آمد پر ان کے تاریخی استقبال پر کروڑوں روپے خرچ کئے۔ حبیب جان کے ہی لوگوں کو بی بی کی کراچی آمد پر ان کے ٹرک کے ارد گرد سکیورٹی کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی لیکن نجانے کیا وجہ ہوئی کہ جب آصف زرداری محترمہ کی شہادت کے بعد اقتدار میں آئے تو حبیب جان بلوچ کو ان کا صحیح مقام نہ مل سکا جس سے وہ سخت رنجیدہ رہنے لگے۔ لیاری گروپ، ایم کیو ایم حقیقی کے آفاق احمد، اے این پی اور متحدہ کی آپس میں ٹارگٹ کلنگ کے نام پر خونریز لڑائیاں شروع ہو گئیں، اس سلسلے میں کراچی شیر شاہ میں دن دہاڑے تیرہ افرادکا قتل اور صرف ایک ماہ بعد بابا لاڈلا سمیت سب ملزموں کا با عزت بری ہوجا نا دنیا کا انوکھا ترین ریکارڈ ہے۔ اس طرز کی بے تحاشا ٹارگٹ کلنگ نے 2009 ء میں کراچی میں دو ہزار سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔
ذوالفقار مرزا جو ایک طوفان کی طرح ایم کیوا یم اور پھر آصف زرداری کے خلاف اٹھے تھے‘ یک لخت چپ ہو گئے اور ان کی اس خاموشی نے لیاری میں ایک طوفان کھڑا کر دیا جس پر حبیب جان کی مدد سے2 مارچ 2012ء کو عزیر بلوچ نے دبئی چوک لیاری میں بلوچ کلچرل ڈے منانے کا اعلان کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر زرداری کے ''بھائی‘‘ اویس ٹپی نے 27 اپریل 2012ء کو ایس ایس پی چوہدری اسلم کی نگرانی میں تین ہزار سے زائد پولیس نفری لیاری میں پیپلز امن کمیٹی کے خلاف ایکشن کے لئے بھیجی جو شدید مزاحمت کی وجہ سے چیل چوک، فقیر عیسیٰ خان روڈ اور گبول پارک سے آگے نہ بڑھ سکی اور سات دن بعد 4 مئی کو پسپا ہونے پر مجبور ہو گئی۔ اس پر اس وقت کے آئی جی پولیس سید مشتاق شاہ پیپلز امن کمیٹی کی طرف سے استعمال ہونے والے اسلحہ کو دیکھ کر بے ساختہ میڈیا کے سامنے پکار اٹھے کہ ''ایسا لگتا ہے کہ لیاری میں دو گینگ نہیں بلکہ ملکوں کی آپس میں جنگ ہو رہی ہے‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کی مرکزی حکومت کو اطلاع مل چکی تھی کہ عزیر اور حبیب جان کی کوششوں سے دبئی چوک میں ہونے والے بلوچ کلچرل ڈے کے بعد پنجاب حکومت لیاری کے نوجوانوں کو حبیب جان، عزیر بلوچ اور ظفر بلوچ کے ذریعے برطانوی شہریت کے حامل ایک سیاستدان کی سفارش پر 10ہزار لیپ ٹاپ دینے کراچی آ رہی ہے۔ (حبیب جان بلوچ کی شاید عمران خان کے خلاف لندن میں ٹی وی انٹرویو ریکارڈ کرانے کی اصل وجہ یہی ہے) سندھ کے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ اویس ٹپی نے جب محسوس کیا کہ لیاری امن کمیٹی خود کو منظم کر رہی ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کریم شاہ کی زیر قیا دت کچھی امن کمیٹی کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔
یہاں پر ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے کہ عزیر بلوچ نے شروع میں کوئی گینگ بنانے کے بجائے اپنی توجہ صرف اپنے باپ کے قتل کیس کی عدالتوں میں پیروی تک مرکوز رکھی لیکن لالو گینگ نے اسے دھمکیاں دیں کہ وہ خاموش رہے کہ اس کا سب سے بڑا دشمن ارشد پپو تھا جس نے اس کے باپ کو بری طرح قتل کر کے نالے میں پھینکا تھا۔ اس بات کا اس کے خالہ زاد بھائی رحمان ڈکیت کو بھی بہت دکھ تھا اور اسی وجہ سے رحمان اور ارشد پپو میں دشمنی بڑھی تھی۔