پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے پانچ اگست یومِ استحصالِ کشمیر کے حوالے سے جیسے ہی نغمہ ریلیز کیا پاکستان کے اندر موجود انڈین لابی نے سوشل میڈیا پر شور مچا دیا اور دھڑا دھڑ ایسی پوسٹس شیئر کرنا شروع کر دیں کہ بھلا کبھی نغمے ریلیز کرنے سے بھی کشمیر مل سکتا ہے؟ مقصد صرف بھارت کی مذمت اور کشمیر کے حالات کو اجاگر کرنے کے لیے جاری کیے گئے اس نغمے کی اہمیت کو کم کرنا تھا، حالانکہ یہی نغمے تھے جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں پاکستانی عوام اور فوجی افسروں اور جوانوں میں جوش و ولولے اور حب الوطنی کی ایسی روح پھونک دی تھی کہ پورا پاکستان بھارت کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ویسے سوال یہ بھی ہے کہ کیا مودی کی ماں کو آم اور ساڑھیوں کے تحفے بھیجنے سے کشمیر آزاد ہو گیا تھا؟ پھر کیا پٹھانکوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد اپنے ہی ملک کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے مودی کو خوش کرنے کے لئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے حکمِ خاص سے گوجرانوالہ کے پولیس تھانے میں اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرا نے سے کشمیر آزاد ہونا تھا؟بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط اور سپیشل سیکرٹری دفتر خارجہ تسنیم اسلم کے وہ انٹرویوز آج بھی ریکارڈ پر ہیں جن میں ان دونوں اہم شخصیات نے الزام لگایا کہ میاں نواز شریف بحیثیت وزیراعظم انہیں مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات کرنے سے سختی سے منع کر تے تھے۔
عمران خان حکومت کی جانب سے جاری کردہ نقشے کی بھارت اور پاکستان میں موجود ایک تنظیم کو پہنچنے والی اصل تکلیف کا سبب یہ ہے کہ ریاستِ جونا گڑھ کو بھی پاکستان کے نقشے میں شامل کیا گیا ہے۔ آج اگر 73 برس بعد ہی سہی‘ کسی نے مقبوضہ کشمیر اور جونا گڑھ کو قومی نقشے میں شامل کر کے بھارت اور اسرائیل میں کھلبلی مچا دی ہے تو اس پر تکلیف تو ہونا ہی تھی۔ اس نقشے کے جاری ہوتے ہی ایک ٹولہ‘ جو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والوںکی طرح خود ہی اغوا بھی ہو جاتا ہے‘ اس نقشے کو میز پر پھیلا کر تمسخرانہ رقص کرنے لگ گیا۔آئی ایس پی آر کے نغمے نے شاید ان لوگوں کو کوئی ذہنی ادیت پہنچائی ہے کہ انڈین لابی کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کا منظم طریقے سے تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ اپنے اغوا کے ڈرامے رچانے والے یہ وہی لوگ ہیں جو27 فروری 2019ء کو انڈین ایئر فورس کی گردن مروڑے جانے کے بعد بھارت کے ہم آواز ہو کر سرگوشیاں کر رہے تھے کہ بھارت نے پاکستان کا ایک ایف سولہ گرا دیا ہے‘ یہ لوگ مان نہیں رہے‘ بھلا کہاں بھارت کی ایئر فورس اور کہاں یہ؟... الحمدللہ خدا نے ان سب سازشی نظریات پھیلانے والوں کا منہ بند کیا اور پاکستان نہ صرف تباہ شدہ مگ 21 کا ملبہ منظرِ عام پر لایا بلکہ ایک بھارتی پائلٹ کو بھی قیدی بنا لیا، جبکہ بھارت کا ایف سولہ گرانے کا دعویٰ ہنوز دعویٰ ہی ہے جس کا نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی یہ کوئی حقیقت ہے۔
پاکستان کے نئے قومی نقشے کا اجرا کوئی معمولی بات نہیں ہے‘ دیکھتے جائیے گا اس کے جلد ہی دوررس اثرات مرتب ہوں گے اور اگر کسی کو میرا 18 جولائی کا کالم ''الحاقِ کشمیر کی قرارداد اور کھوٹے سکے‘‘ یاد ہو تو اس میں یہی مطالبہ کیا گیا تھا کہ ہمیں تمام کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے دینا چاہئے۔ الحمدللہ وہ غلطی جو 1947-48ء میں سردار ابراہیم کی درخواست نہ مان کر ہم نے کی تھی‘ اس کا ازالہ 4 اگست کو وزیراعظم عمران خان نے نئے قومی نقشے کے اجرا کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے کر دیا ہے۔
پاکستان کے نئے نقشے کی تیاریوں کی جیسے ہی سجن جندال کو خبر ہوئی‘ اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور پھر سب نے دیکھا اور سنا کہ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی اور ٹی وی ٹاک شو میں شور مچا دیا کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ مولانا فضل الرحمن کے بیانات بھی تین اگست کو ٹی وی سکرینوں کی زینت بنے رہے کہ عمران خان کشمیر بھارت کے ہاتھ بیچ رہا ہے۔ جب یہ دونوں صاحبان کشمیر بیچنے کے الزامات لگا رہے تھے تو ٹائم سکوائر نیویارک میں پاکستان کی طرف سے کشمیر کی آزادی اور بھارت کے اس پر غاصبانہ اور بہیمانہ فوجی قبضے کے خلاف تشہیری مہم زوروں پر تھی۔ فلیکس اور نیون سائن بورڈز پر رنگ بدلتی روشنیوں کے سنگم میں کہیں ''Kashmiri lives matter‘‘ اور کہیں ''Kasmir Siege Day‘‘ کے فکر انگیز نعرے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔
وزیراعظم عمران خان کو اب برق رفتاری اور انتہائی تیاری سے سفارتی محاذ پر پاکستان کے اس نئے نقشے کی وضاحت اور اس کی اقوام عالم میں قبولیت کے لئے میدانِ عمل میں اترنا ہو گا۔ یقینا بھارتی ایجنٹ ان کی راہ میں کانٹے بچھانے کی بھرپور کوششیں کریں گے لیکن انہیں ان سب کوششوں کو پائوں تلے کچل کر اپنے اس مشن پر آگے کی طرف بڑھنا ہو گا کیونکہ بھارت پانچ اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35اے کو ختم کر کے جبری طور پر کشمیر کی حیثیت تبدیل کر چکا ہے۔ عمران خان نے بھارت کے قدموں کے نیچے سے قالین کھسکا کر اسے جو جواب دیا ہے‘ تاریخ کے اوراق میں وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو چکا ہے۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ 2014ء میں بحرین نے پاکستان کو پیشکش کی تھی کہ حکومت بحرین آپ کو ایک برادرانہ تحفہ پیش کرتے ہوئے جدید معیار کی نرسنگ یونیورسٹی قائم کر کے دینا چاہتی ہے۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر کے بعد دو سال تک اس کے تمام تدریسی اخراجات بھی برداشت کرے گی‘ اس پیشکش میں بحرین حکومت نے ایک شرط یہ رکھی تھی کہ اس منصوبے کی تکمیل اور اس کے فنکشنل ہونے کے تمام اخراجات بحرین برداشت کرے گا لیکن اس کے لئے آڈٹ اینڈ چارٹرڈ اکائونٹینسی کی فرم بحرین حکومت کے کہنے پر مقرر کی جائے گی۔ جب یہ منصوبہ میاں نواز شریف کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنے ذاتی سٹاف کے حوالے کر دیا۔ اس بات کو دو برس گزر گئے تو اسلام آباد میں بحرین حکومت کے نمائندوں نے 2016ء میں ایک مرتبہ پھر یاددہانی کراتے ہوئے پوچھا کیا آپ ہمارے منصوبے پر عملدرآمد چاہتے ہیں؟ اس پر بدقسمتی سے بحرین کے بادشاہ کو وزیراعظم ہائوس کی جانب سے یہ جواب دیا گیا کہ فی الحال ہمارے پاس اس کے لئے اسلام آباد میں مطلوبہ رقبے اور معیار کی زمین دستیاب نہیں ہو سکی۔2017ء میں حکومت بحرین نے ایک مرتبہ پھر وزیراعظم ہائوس کو خط لکھتے ہوئے اپنے مجوزہ منصوبے اور پیشکش سے متعلق استفسار کیا تو اس وقت شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے‘ ان کی جانب سے بھی بحرین کو کافی انتظار کے بعد کہا گیا کہ ابھی تک مطلوبہ زمین کی نشاندہی نہیں کی جا سکی، اس لئے نرسنگ یونیورسٹی پر کام کرنا ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ نایاب تحفے کی صورت میں بحرین کی یہ پیشکش نااہلی کی نذر ہو جاتی لیکن جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت آئی‘ وزیراعظم عمران خان نے پرانی فائلیں دیکھتے ہوئے جب اس فائل کو پڑھا تو اسی وقت بحرین کے شاہ سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا او رجب وہ خصوصی دعوت پر بحرین پہنچے تو انہوں نے بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ سے 6سال قبل 2014ء میں پاکستان کو نرسنگ یونیورسٹی بطور تحفہ دینے کی پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے لئے مطلوبہ زمین سمیت تمام سہولتیں دینے کی ہامی بھرتے ہوئے اس پر جلد کام شروع کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ اس پر کرائون پرنس سلمان بن حماد بن عیسیٰ نے فوری طور پر نرسنگ یونیورسٹی کے لئے تمام فنڈز مہیا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہ شرط بھی ختم کر دی جس میں آڈٹ اور چارٹرڈ فرم کی خدمات بحرین کی جانب سے دینے کا کہا گیا تھا۔ اب عمران خان نے اس نرسنگ یونیورسٹی کے لئے چک شہزاد اسلام آباد میں237 کنال زمین وزارتِ صحت کے نام الاٹ کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ زمین کی نشاندہی کے ساتھ ہی بحرین حکومت پاکستان سے اس سلسلے میں MOU پر دستخط بھی کر چکی ہے۔ پھر کہتے ہیں عمران نے کیا ہی کیا ہے؟