"MABC" (space) message & send to 7575

یہ کس کی زبان بولتے ہیں؟

''یومِ استحصال کے نام پر ریلیوں اور تقریروں میں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات کرنے سے پہلے پاکستان کو اپنا دامن دیکھنا چاہئے کیا وہ بلوچ نوجوانوں، پشتون تحفظ موومنٹ اورصحافیوں کے اغوا میں ملوث نہیں؟‘‘ نجی ٹی وی کی سکرین پر یہ ٹکرز دیکھتے ہوئے سوچا یا تو لندن، امریکہ اور جرمنی میں بیٹھے ہوئے کسی ٹولے کا کوئی رکن ہو سکتا ہے یا پھر یہ امیت شا اور راج ناتھ جیسے مسلم دشمن بھارتی وزیر یا پھر انڈین آرمی کے کسی جنرل کی طرف سے پاکستان کے اقدامات سے بدحواس ہو کر جوابی گولے داغے جا رہے ہیں لیکن جب ان ٹکرز کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کا نام دیکھا تو یقین ہی نہ آیا کہ ہمارے سیا سی قائدین‘ عمران دشمنی میں اس حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ ایک ٹولے کا تو سب کو علم ہے کہ وہ مودی اور بھارت کے چیف آف ڈیفنس جنرل بپن راوت اور اجیت دوول سے دھڑلے سے ملتا اور بڑے فخر سے میڈیا کو ان ملاقاتوں کی تصاویر بھی جاری کرتا ہے۔ اس ٹولے کے لوگ ایک سابق صدر کے کس قدر انتہائی معتمد اور رازدان تھے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بد قسمتی کہہ لیجئے کہ عمران دشمنی میں ہماری اپوزیشن کا ایک حصہ اس حد تک بھارت نواز ہو جاتا ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ کا رول ادا کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کے ایک پالیسی بیان پر عربی میں ٹویٹ کر کے سعودی حکومت کو بھڑکانے کی کوشش سے بھی باز نہیں آتا۔ اس ٹویٹ کو بھارت نے اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے میڈیا پر ایک طوفان اٹھائے رکھا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ سب ایسے ہی نہیں ہوتا بلکہ با قاعدہ پلاننگ کے تحت کیا جاتا ہے کیونکہ کیسے ہو سکتا کہ احسن اقبال جیسا شخص کسی حکم کے بغیر یہ ٹویٹ کرے؟
ماضی میں جھانکیں تو اپوزیشن کے ایک صاحب ببانگ دہل اعلان کرتے رہے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم بنایا گیا تو وہ ا سے بموں سے اڑا دیں گے۔ ایک اور صاحب اسلام آباد میں کھڑے ہو کرآدھا بلوچستان، کے پی اور پنجاب کے اٹک اور بھکر تک کے حصے کو پاکستان سے الگ کر کے'' افغانیہ‘‘ کے نام سے ایک الگ ریا ست بنانے کا پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں۔ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں ایک تیسرے صاحب نے کہا ''کیسا کشمیر؟ آپ نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کر رکھا ہے تو اسی طرح بھارت نے کیا ہوا ہے‘‘۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کی لیڈر شپ کہتی ہے کہ انڈیا اور مودی سے جھگڑا کیسا؟ بارڈر تو بس ایک لکیر کا نام ہے۔ اسی پارٹی کے مرکزی لیڈر کہیں چھپ کر نہیں بلکہ قومی اسمبلی کے فلور پر بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں ''کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر کوئی فوقیت نہیں‘‘ توبہ نعوذباللہ... اور مزے کی بات یہ ہے کسی نے بھی ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا اور نہ ہی کسی اتھارٹی نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ 
محترم بلاول بھٹو شاید بھول چکے ہیں کہ جب CAA (Citizenship Amendment Act) کے ڈریکونین قانون کے خلاف دہلی میں مسلمانوں نے احتجاج کیا تو مودی سرکار نے آر ایس ایس کے غنڈوں کو پولیس کی وردیاں پہنا کر مسلم آبادیوں پر حملے کرائے تھے۔ وہ شاید یہ بھی بھول چکے ہیں کہ تین دنوں میں43 مسلمانوں کو کہیں ذبح اور کہیں آگ میں زندہ جلا دیا گیا تھا، ان کے گھر بار اور دکانیں شعلوں کی نذر کر دی گئی تھیں، مساجد کو بابری مسجد کی طرح بلڈوز کر دیا گیا تھا۔ یہ مقام افسوس ہے، اپوزیشن اقتدار چھن جانے پر اس قدر بھارت نواز ہو جائے گی‘ اس کا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے وطن کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد ریاست کے طو رپر پیش کرکے نجانے کن قوتوں کوخوش کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیے‘ عمران خان صرف ایک نام ہے‘ وہ پاکستان نہیں‘ پاکستان تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا نام ہے‘ پاکستان تو بائیس کروڑ توحید پرستوں کی بستی ہے جس میں کل تک عمران خان جیسے بے شمار حکمران آئے اور چلے گئے۔ اس کے با وجود ان کو ذرا خیال نہ آیا کہ ہم پاکستان کو انسانی حقوق کا دشمن ثابت کرکے خود اپنی جگ ہنسائی کا سامان کر رہے ہیں۔
جب پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگا ئے جا رہے تھے تو ستم ظریفی دیکھئے کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کئی رہنما اچھل اچھل کر ڈیسک بجا رہے تھے اور کالا باغ کو بم سے اڑانے والوں کے خاندان کے واحد رکن اسمبلی جوش میں آ کر کرسی سے کھڑے ہو کر ڈیسک پیٹ رہے تھے۔ بھارت کا ترجمان بننے والوںکی خدمت میں USCIRF (یو ایس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلی جیئس فریڈم) کی 2020ء میں جاری کی گئی رپورٹ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جس میں بھارت کو انسانی حقوق کی پامالی، مذہبی آزادی کو کچلنے اور اقلیتوں سے انتہائی ناروا سلوک کرنے ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی پرTIER2 COUNTRY کا خطاب دیتے ہوئے اسے 2020ء کی رپورٹ میں سب سے کمتر درجے کا رینک دیتے ہوئے CPC (Country of particular) کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ بھارت کے بارے میں رپورٹس عالمی ادارے شائع کر رہے ہیں‘ یہ عمران خان اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا۔
کاش کہ اپنے ہی ملک کو انسانی حقوق کا مجرم ٹھہرانے والے پہلے اقوام متحدہ اور USCIRF کی یہ رپورٹ ہی دیکھ لیتے یا محبوس کشمیریوں اور بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے خلاف آر ایس ایس جیسی انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے روا رکھی جانے والی قتل وغارت گری پر عالمی میڈیا کی تیار کی گئی وڈیوز ہی دیکھ لیتے‘ ممکن ہے اس طرح وہ بھارت کا دفاع کرنے سے باز رہتے۔
ایسے بیانات کی گہرائی اور مقاصد کو سمجھنے کے لئے روزانہ ہونے والے ہمارے ٹی وی ٹاک شوز سامنے رکھیں جن میں ایک جماعت دوسری پر کرپشن یا نااہلی جیسے الزامات لگاتی ہے تو جواب میں اسے طعنہ دیا جاتا ہے کہ تم بھی تو یہی کچھ کرتے رہے ہو۔ بعینہٖ کردار پاکستان کے خلاف زہر افشانی کر کے ادا کیا جا رہا ہے۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں سکا کہ پاکستان کو دنیا کے سامنے مجرم کے طور پر پیش کرنے والے کس کی ترجمانی کر رہے تھے؟ کیا یہ وہی حرکت نہیں جو میاں نواز شریف نے لاہور کے ایک ہوٹل میں سارک ممالک کے صحافیوں سے خطاب میں یہ کہہ کر کی تھی کہ ''جنرل مشرف نے کارگل وار کر کے واجپائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا‘‘۔ میاں نواز شریف کا وہ انٹرویو سامنے رکھیں جس میں انہوں نے چھبیس نومبر کے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ دہشت گرد پاکستان سے گئے تھے۔ اجمل قصاب کیس میں بی بی سی کو یہ بیان دینے سے عالمی برادری کی تمام انگلیاں ہماری جانب اٹھ رہی تھیں۔
آپ میں سے کسی نے کبھی سوچا کہ گوجرانوالہ میں ممبئی حملوں کی ایف آئی آر کا مطلب کیا تھا؟ ذہن کو کھول کر سمجھنے کی کوشش کریں کہ26/11 کے ممبئی حملوں میں پاکستان کو ملوث کر کے کس کی خدمت اور کس کی تباہی کا سامان پیدا کیا گیا؟ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے انہی انٹرویوز کو بنیاد بنا کر ایف اے ٹی ایف اور پھر عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے280 سے زائد لوگوں کو بم دھماکوں میں شہید کرنے والے بھارتی دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ کلبھوشن یادیو کی رہائی کی کوشش کی گئی۔ صد افسوس کہ ملک کو زیادہ تر ایسی ہی سیاسی لیڈرشپ میسر آئی جس نے اپنے تھوڑے سے سیاسی مفاد کے لیے قومی مفاد دائو پر لگا دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں