31 جولائی کی رات تحریک انصاف حکومت نے عید الاضحی کے روز سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تو اگلے ہی لمحے میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے فوری ٹویٹ کیا ''عمران خان نے پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر غریب دشمنی کا ثبوت دیا ہے، جب سے عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے پٹرول عوام کی پہنچ سے دور کر دیا ہے‘‘۔ بلال بھٹو نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے پی پی پی کے لیڈران کو ہدایات جاری کر دیں کہ وہ پٹرول کی قیمتوں کے خلاف پنجاب کے عوام کو عمران حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے فوری طور پر تیار کریں کیونکہ ''اس طرح کی عوام دشمن حکومت کا اب اقتدار میں مزید رہنا ملک کے لئے خطرناک ہے‘‘۔ ہم سب نے ایک جیسے آئینے میں خود کو دیکھنے کے بجائے اپنا اپنا آئینہ بنا رکھا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے 'سکرین ترجمان‘ جو اُس وقت کیمروں کے سامنے بیٹھ کر پٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پر بری طرح برس رہے تھے‘ شاید بھول گئے تھے کہ اکتوبر 2010 ء میں جب آصف علی زرداری کی حکومت تھی تو اس وقت پٹرول کی فی لیٹر قیمت 101.08 اور ڈیزل 113.29 روپے فی لیٹر کس نے کیا تھا؟ آپ پی پی پی حکومت کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں پندرہ اکتوبر 2012ء کو پھر تیل کی قیمتیں بڑھا کر 113.62 روپے فی لیٹر کر دی گئیں۔اسی طرح 2013ء سے اکتوبر 2014ء اور پھر جنوری 2015ء میں جب میاں نواز شریف وزیراعظم تھے تو اس وقت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بالترتیب 113.24 اور 116.95 اور پھر 119 روپے فی لیٹر تک کیوں بڑھائی گئیں؟ اگر بقول شہباز شریف اور بلاول بھٹو‘ عمران خان حکومت کا تیل کی قیمتیں بڑھانا عوام دشمنی ہے تو نواز لیگ اور پی پی پی کے دورِ حکومت میں جب جب تیل کی قیمتیں بڑھائی گئیں تو اسے بھی عوام دشمنی ہی سمجھا جائے؟
تیل کی قیمتیں بڑھنے پر آج عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کرنے والوں اور وزیراعظم پر غریب دشمنی کی تہمتیں لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتیں تیل کی قیمتیں بڑھا رہی تھیں تو اکتوبر 2013ء میں ڈالر 106 روپے جبکہ آج 167 روپے کا ہے اور اکتوبر 2014ء میں جب مسلم لیگ نواز نے تیل کی قیمت113تا 116 روپے فی لیٹر کی تھی تو اس وقت ڈالر کا ریٹ 102 روپے تھا یعنی عمران خان کی حکومت کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت نواز حکومت میں 65 روپے کم تھی تو پھر کیا وجہ تھی کہ عوام دوست حکومت کا دعویٰ کرنے والی نواز لیگ نے ڈالر کی قدر عمران دور کے مقابلے میں ایک چوتھائی کم ہونے کے با وجود تیل کی قیمتوں کو اس حد تک بڑھایا؟ کیا اس سے زیادہ غریب دشمنی کی کوئی اور مثال دی جا سکتی ہے؟ ڈالر کی قیمتوں کے تناسب سے اگر عمران خان کی ''عوام دشمن‘‘ حکومت پی پی پی اور نواز لیگ کے نقش قدم پر چل کر تیل کی قیمتیں بڑھاتی تو بلاشبہ آج پٹرول کی کم از کم قیمت 150 روپے فی لیٹر ہوتی۔ ان سب حقائق کے باوجود بھی تیل کی کم قیمت رکھنے پر عمران خان پر تنقید کے تیر کیوں؟
شہباز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن رہنما بتانا پسند کریں گے کہ آپ کی حکومتوں میں ڈالر اور بین الاقوامی مارکیٹ میں فی بیرل تیل کی قیمتیں کم ہونے کے با وجود آپ نے تیل کی قیمتیں زیادہ کیوں رکھیں؟ مسلم لیگ کے صدر اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ ان کی حکومتوں میں تیل کی بلند قیمتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ عمران خان سے زیادہ نا اہل تھے۔ کسی بھی حکومت کا پٹرول کی قیمتوں کو ایک حد سے زیا دہ یا عوام کی قیمت ِ خرید سے زیا دہ بڑھانا کسی طور بھی سراہا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس فعل کا دفاع کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ سوالات جو ذہن میں ابھرتے ہیں‘ ان کے جوابات وہی دے سکتے ہیں جو پہلے حکومت کر چکے ہیں۔ ان سے بہتر کون بتا سکتا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے پٹرول کی قیمتوں کو ''عوام دشمنی‘‘ کی حد تک بڑھانا پڑتا ہے؟
اچھی حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ کچھ ایسے انتظامات کریں کہ جب کبھی بین الاقوامی مارکیٹ میں ایسی صورت حال پید اہو جائے تو اپنے اندرونی وسائل کی وساطت سے بیرونی چیلنجز سے نمٹا جائے اور تیل کی قیمتیں اپنے عوام اور ملکی معیشت کے مفاد میں رکھیں۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے کے ساتھ ہی انسانی زندگی کی ضروریات کی اشیا کی قیمتیں عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو ایک معمول بن چکا ہے کہ تیل کے ساتھ ہی اشیائے ضررویہ کی مہنگائی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں چار سے پانچ روپے کا جو حالیہ اضافہ ہوا ہے‘ اس کے بعد بھی بنیادی اشیائے صرف کی قیمتیں خود بخود بڑھا دی جائیں گی اور کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہو گا۔ یہ کسی ایک صوبے کی کہانی نہیں بلکہ چاروں صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے کیونکہ جب پٹرول کی قیمتیں جون میں 74 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی تھیں تو اس کا عوام کو رتی بھر بھی فائدہ نہیں ہوا تھا بلکہ تاجروں اور دکانداروں نے اشیاء کی قیمتوں میں ایک پائی کم کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مہنگائی کرنے والوں کو نہ تو کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی اس کا تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تعلق جوڑا جا سکتا ہے، اسے متعلقہ اداروں اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہی کہا جا سکتا ہے۔
تیل سمیت ہر چیز مہنگی کرنے کے مجرم ہم سب ہیں‘ چاہے ہم طالب علم ہوں یا کسان، دکاندار ہوں یا مزدور، قانون دان ہوں یا دانشور، چھوٹے درجے کے ملازم ہوں یا وہ جو اس مملکت خداداد پاکستان کے ہر ادارے میں انتظامی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں؛ ہم سب جو اپنے ملک کا کاروبارِ حیات چلانے کے لئے اس تیل‘ جو دیگر ممالک سے خریدا اور امپورٹ کیا جاتا ہے اور جس کے لئے ہمیں اپنے خزانوں اور وسائل کو خالی کرنا پڑتا ہے‘ کا متبادل نہیں ڈھونڈ سکے۔ ہم نے اپنے حکمرانوں کو مجبور کیوں نہیں کیا کہ وہ تیل پر انحصار کم کریں۔ جن پر اپنے ووٹ اور نوٹ قربان کئے ان کی بے رخی اور بے اعتنائی دیکھئے کہ آدھا ملکی خزانہ خالی کرنے والے تیل کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے اس کا متبادل سوچنے کی کوشش ہی نہیں اور تیل کی درآمد کے لئے ڈالروں کی بارش برسانے والوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھا، وہ تیل جو ہر ماہ اپنی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہمارے تمام وسائل اور ضروریات کو کھا جاتا ہے۔ ہر گھر کی ضرورت بجلی، فیکٹریاں، کارخانے، مارکٹیں، ٹریفک، بازار اور تجارتی ادارے جب تک اسی تیل کے مرہونِ منت رہیں گے تو پھر وہی ہو گا جو ہم گزشتہ 70برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ ہر تھوڑے عرصے بعد کبھی پٹرول پمپس، کبھی مارکیٹوں اور کبھی بازاروں میں عوام کی رائے پوچھ کر برسر اقتدار حکمران کو رسوا کرنا سوائے ایک ڈرامے کے کچھ نہیں۔ اپنے وجود پر خود اپنے ہی ووٹوں کے ذریعے لادے گئے حکمرانوں سے مہنگائی کا شکوہ کرنا... اپنے دشمن تو ہم خود ہیں‘ ہم سب نے کیوں نہیں کہا کہ ہم اس وقت تک ووٹ نہیں دیں گے جب تک کالا باغ سمیت ملک بھر میں پانی، ہوا، کوئلہ اور دوسرے سستے ذرائع سے بجلی اور توانائی کے پاور سٹیشن بنانے کا عہد نہیں کرو گے، تب تک تمہارے انتخابی نشان پر مہر تو کجا اس کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ ایک مرتبہ یہ بھی کر کے دیکھتے تو آج ہر ماہ بعد مہنگاتیل اور اس کی قیمتیں بڑھنے پر اشیائے خوردنی سمیت دوسری اشیا کی مہنگائی اور بے روزگاری ہم سب کا مقدر نہ ہوتی۔