"MABC" (space) message & send to 7575

حادثہ یا قتل؟

اگست 1988ء کے پہلے ہفتے شاہِ اردن نے پاکستانی سفیر جنرل صغیر کو شاہی محل میں خصوصی طور پر بلا کر کہا ''میرے بھائی سے کہو وہ کچھ عرصے کے لئے اپنی خوراک اور سفر کے معاملے میں بے حد تک احتیاط کریں‘‘ 
یکم اگست 1988ء کو لاہو ر کی ممتاز علمی اور روحانی شخصیت حکیم نیر علی واسطی اچانک اسلام آباد پہنچے اور دسویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ بنگش سے ملاقات کرتے ہوئے کہا ''جنرل ضیاء الحق سے کہیں کہ وہ اگست کو پورا مہینہ نہ تو باہر کا کھانا کھائیں اور نہ ہی سفر کریں‘‘ ۔ (بحوالہ تکبیر، کراچی)
حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اپریل1988ء میں جنیوا معاہدہ کے بعد پاکستان میں تیزی سے پُراسرار واقعات رونما ہونے لگے تھے؛ 10 اپریل 1988ء کو اوجڑی کیمپ کا سانحہ رونما ہوا جس میں موجود ہزاروں ٹن ایمونیشن اور بارود ضائع ہو گیا، اوجڑی کیمپ کا حادثہ اس لئے مشکوک ہو گیا کہ موقع پر ایک بھی امریکی موجود نہیں تھا جبکہ یہ اصول طے تھا کہ سی آئی اے کے تین افسران یہاں موجود رہیں گے۔ یاد رہے کہ اوجڑی کیمپ سے افغان مجاہدین کو اسلحہ تقسیم ہوتا تھا اور اس کیمپ میں پاک فوج کے استعمال کے لئے سٹنگر میزائلوں کی ایک بڑی تعداد بھی بچا کر رکھی گئی تھی۔
اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو اوجڑی کیمپ کے واقعہ کے بعد جنرل اختر عبد الرحمن اور جنرل حمید گل کو جبری ریٹائر کرنا چاہتے تھے جو جنرل ضیاء الحق کو منظور نہ تھا۔ جس طرح میاں نواز شریف ابھی تک یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کارگل آپریشن سے متعلق کچھ علم نہ تھا‘ اسی طرح اوجڑی کیمپ کا تباہ کن اور افسوس ناک حادثہ ہوا تو وزیراعظم جونیجو کہنے لگے کہ انہیں تو کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ شہر کے اندر اوجڑی کیمپ موجود ہے حالانکہ اکتوبر 1986ء میں بحیثیت وزیراعظم وہ خود بھی اوجڑی کیمپ کا با قاعدہ دورہ کر چکے تھے، اور اس کا ریکارڈ ملک کی تمام سکیورٹی ایجنسیوں، قانون ساز اداروں اور وزیراعظم ہائوس کے ریکارڈ میں بھی محفوظ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جنیوا معاہدہ سے پہلے ہی صدر جنرل ضیاء الحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو میں اچھی خاصی بدمزگی پیدا ہو چکی تھی جس میں دیگر لوگوں کے علاوہ مبینہ طور پر غلام اسحاق خان نے بھی کردار ادا کیا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہی دنوں وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی ایک ملاقات میں صدر نے جنیوا معاہدہ پر دستخط کرنے کی مخالفت میں اپنے دلائل پیش کئے تو وزیراعظم جونیجو نے کوئی جواب دینے کے بجائے اس وقت کے چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کو اشارہ کیا اور انہوں نے جنرل ضیاء سے بحث شروع کر دی جس پر وہ ششدر رہ گئے۔ واپسی پر جنرل ضیاء کے ریمارکس تھے ''یہ کیسا ٹرن کوٹ ہے اچانک جونیجو کی حمایت پر اتر آیا ہے‘‘۔
اسی سال یعنی 1988ء میں 29 مئی کو جنرل ضیا نے اٹھاون ٹو بی کے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جونیجو حکومت بر طرف کر دی اور ایک مرتبہ پھر تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے لیکن اس بار وہ تنہا نظر آ رہے تھے۔ محسوس یہ ہو رہا تھا کہ ان کے کئی ساتھی دل سے ان کے ساتھ نہیں تھے اور جسے وہ اپنا دوست سمجھتے رہے‘ وہ اب ان کا سب سے بڑا دشمن بن چکا تھا کیونکہ امریکہ جان گیا تھا کہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں حالات اس کی مرضی کے خلاف رنگ اختیار کرنے کے علاوہ کشمیر میں بھارت کے لئے انتہائی تکلیف دہ وقت بھی شروع ہونے جا رہا ہے اور امریکہ کسی بھی صورت میں بھارت کو خطرے میں ڈالنے سے روکنا چاہتا تھا۔ اس کے لئے جنرل ضیاء کو جلد از جلد رستے سے ہٹانا اب بعض قوتوں کا مشن بن چکا تھا کیونکہ امریکہ اپنے اگلے ایجنڈے کیلئے بے نظیر بھٹو کو پاکستان کا اگلا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ ادھر 29 مئی کو جونیجو حکومت اور اسمبلیاں ختم ہوئیں تو دوسری جانب ایک ماہ بعد بے نظیر بھٹو 21 جون کو 35 سال کی کم ازکم اس حد کو عبور کرنے جا رہی تھیں جو آئین پاکستان کی رو سے ان کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ تھی۔
جنرل اسلم بیگ کی بطور وائس چیف آف آرمی سٹاف تقرری جنرل ضیاء کی مرضی نہیں بلکہ وزیراعظم جونیجو کی ضد سے ہوئی تھی کیونکہ جنرل ضیاء کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ جنرل بیگ اور بے نظیر بھٹو کے باہمی رابطے ہو رہے ہیں ۔ اس صورتحال میں جنرل ضیاء ا لحق کو کسی نہ کسی طور آمادہ کیا گیا کہ امریکی ٹینکوں کی مشقیں دیکھنے کے لئے ان کا ہر حالت میں بہاولپور پہنچنا ضروری ہے اور اس طرح دشمن اپنا وار کر گیا۔ یاد رہے کہ جولائی88ء میں کارنیگی انسٹیٹیوٹ کی ایک ٹیم پاکستان پہنچی جس نے جنرل ضیاء اور جنرل اختر سے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لئے طویل مذاکرات کئے لیکن وہ مایوس لوٹ گئے کیونکہ نتائج ان کی مرضی کے مطابق برآمد نہ ہو سکے تھے۔
5 اگست کو ہردل عزیز مشہور شیعہ رہنما علامہ عارف الحسینی اچانک شہید کر دیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے قتل کا الزام جنرل ضیاء الحق پر دھر دیا گیا۔ ان کے قتل کی اگلی صبح‘ 6 اگست کو اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح کے در و دیوار جنرل ضیا کو علامہ شہید کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کے نعروں اور پوسٹروں سے بھر دیے گئے، اس حوالے سے بعد میں خفیہ ایجنسیوں کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ علامہ عارف حسینی کے قتل کی آڑ میں جنرل ضیاء کے خلاف چلائی گئی نفرت انگیز مہم کے پیچھے دو ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی تھیں۔
فضائی حادثوں کی تحقیقات کے ماہر گروپ کیپٹن ظہیر زیدی نے خیرپور ٹامیوالی میں کریش ہونے والے C130 کے کاک پٹ کے بعض ٹکڑوں کے کیمیائی تجزیے کئے تو ان پر کچھ ایسے غیر معمولی کیمیائی عناصر پائے گئے جو جہاز کی بناوٹ میں استعمال نہیں ہوتے اور حاصل ہونے والے ان کیمیائی مادوں کو یکجا کر دیا جائے تو ہلکے دھماکے کا بم تیار کیا جا سکتا ہے (اس حادثے کے کوئی دو ماہ بعد لاہور ماڈل ٹائون میں احمد رضا قصوری کی رہائش گاہ پر اعجاز الحق، ان کے ڈاکٹر بہنوئی اور ہمایوں اختر خان ملنے کے لئے آئے تو میری موجو دگی میں انہوں نے بتایا کہ کاک پٹ میں ایک ایسی چھوٹی سی ڈبی رکھی گئی تھی جسے رن وے کے قریب ریموٹ کے ذریعے توڑا گیا جس سے ایسی گیس کا اخراج ہوا جس نے تمام عملے کے اعصاب چند سیکنڈ میں ہی شل کر دیے)۔
C130 کے کارگو دروازے کے بارے کہا گیا کہ یہ خراب ہو گیا ہے، اس لئے جہاز کو ملتان نہ بھیجا جائے، اس خرابی کے بہانے جہاز کو بہاولپور ہی کھڑا رکھا گیا جو بلیو بک کی سخت خلاف ورزی تھی۔ حادثے کے بعد جب کارگو دروازے کی تفصیلی جانچ پڑتال کرنے لگے تو بتایا گیا کارگو کا مطلوبہ دروازہ ہی غائب ہے۔جسٹس شفیع الرحمن کمیشن نے بار بار پوچھا ''کارگو دروازہ کہاں ہے؟ یہ کیسے اور کس کے حکم سے غائب ہوا؟‘‘ ابھی تک کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔
یہ تباہی کی داستان یہاں ہی ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس پُراسرار کہانی کے دوسرے شکار جنرل آصف نواز جنجوعہ ہیں، جنرل آصف جنجوعہ‘ سی ون تھرٹی حادثہ‘ جس میں دس جرنیلوں سمیت پاک فوج کے 29 افسران شہید ہوئے تھے‘کے مجرمان تک پہنچنے کے لئے میدان میں اتر چکے تھے لیکن انہیں ایک پُراسرا موت نے آن لیا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں