"MABC" (space) message & send to 7575

پگڑی سنبھال جٹا

احساس کہہ لیں یا ندامت‘ یہ دونوں سوچیں سکھوں کو بے چین کئے ہوئے ہیں اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے انہیں اور ان کے بڑوں کو جو راہ دکھائی تھی‘ وہی حق اور سچ کی راہ تھی۔ بھنڈرانوالہ نے براہمن کا تراشا ہوا خوشنما چہرہ ننگا کر کے سکھوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ وہ جو حقیقت جان کر بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے گئے‘ وہ امر ہو گئے اور وہ جو بھارت کو ہی اپنی ماتا سمجھتے رہے وہ آج اپنے سروں کو گھٹنوں پر ٹکائے دن رات روئے جا رہے ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سوچ آج بھارت کے ہر ہندو گھر میں گھس چکی ہے اور وہ کسی سکھ کو اپنے سامنے دیکھنا پسند نہیں کرتی۔
گزشتہ دو ماہ سے اتر پردیش پولیس کے مسلح دستوں نے 17 دیہات کے 30 ہزار سکھوں کو ان کی زمینوں اور گھروں سے زبردستی بے دخل کر دیا ہے۔ میڈیا پر مودی سرکار کے اربوں روپے کا کنٹرول اس حد تک سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ ان ہزاروں سکھ خاندانوں اور ان کے حق میں اٹھائی جانے والی آوازیں بی جے پی حکومت کے نوازے گئے میڈیا کے کانوں میں نہیں پڑ رہیں۔ اس پر شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے اپنے ماہانہ میگزین کے ایڈیٹوریل میں دو ٹوک الفاظ میں وارننگ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس طرح سکھوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا کہ بھارت میں بسنے والا ہر سکھ اپنے لئے علیحدہ وطن مانگتے ہوئے خالصتان کی جدوجہد میں شامل ہو جائے۔
اتر پردیش میں بجنور، رام پور اور لاکھم پور کھیری کے پانچ ہزار سے زائد سکھ خاندانوں کی زمینوں کو یوگی سرکار ضبط کر کے ان کی زمینوں پر قائم گھروں، حویلیوں اور ان کی گایوں، بھینسوں، بیلوں اور ٹریکٹروں سمیت سب کچھ ضبط کر چکی ہے۔بھارتی سرکار کے انتہائی خاص اخبار ہندوستان ٹائمز میں 10 جولائی کو اس کے ایڈیٹر ستوندر سنگھ پھولپور کے ایڈیٹوریل کے مطابق اتر پردیش کی یوگی سرکار سکھوں کی زمینوں، ان کے فارم ہائوسز، دکانوں اور مکانوں کو جس انداز میں جبراً ضبط کئے جا رہی ہے‘ اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی اگلے انتخابات تک یو پی سے سکھوں کو ایک ایک کر کے نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔ ستوندر سنگھ کے ایڈ یٹوریل کا عنوان تھا '' Seizing land of the Sikhs by the Govt. is not an action that has been taken all of sudden‘‘۔ اور یہ صرف اتر پردیش تک ہی محدود نہیں بلکہ مدھیا پردیش کے سکھ خاندان بھی چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی یو پی والا سلوک کرتے ہوئے انہیں پولیس کے ذریعے ان کی آبائی زمینوں اور گھروں سے زبردستی نکالا جا رہا ہے۔ سکھ پریس ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطا بق مدھیا پردیش میں جنوری سے جولائی تک 500 سکھ خاندانوں کی دن رات کی محنت سے کمائی گئی زمینیں پولیس کے ذریعے زبردستی ان سے چھین لی گئی ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق یو پی پولیس اور فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے لوگ ان ہزاروں سکھ خاندانوں کی زمینوں اور گھروں کو ضبط کر کے وہاں پہرہ دے رہے ہیں۔ ان سکھوں کی گنے کی فصل کو ٹریکٹروں اور بھاری مشینری کے ذریعے تاراج کر دیا گیا ہے اور انہیں یہ بھی اجازت نہیں دی جا رہی کہ وہ اپنے ساتھ کسی قسم کی لکڑی ہی جلانے کے لئے لے جائیں۔ یہ بے چارے سکھ اپنی فیملیوں کے ساتھ اس وقت سڑکوں پر ہیں اور انہیں اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لئے کھانا پکانے کے لئے اپنے ہی کھیتوں اور باغات کی لکڑیاں جلانے کی بھی اجازت نہیں۔ اس سلسلے میں سکھوں کے پولیس اور فارسٹ ڈیپارٹمنٹ والوں سے ہاتھا پائی اور جھگڑے کے بھی متعدد واقعات پیش آئے ہیں جس پر رام نگر پولیس نے 35 نامزد اور 250 نامعلوم سکھوں کے خلاف محکمہ جنگلات کی طرف سے کرائی گئی ایف آئی آر بھی درج کر لی ہے۔
اپنی زمینوں سے بے دخل کئے جانے والے یہ سکھ1947ء میں مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے اتر پردیش پہنچے تھے جہاں انہوں نے بنجر اور ویران زمینیں خریدنے کے بعد انہیں دن رات اور کئی سالوں کی محنت و مشقت اور لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد کاشت کے قابل بنایا۔ ہزاروں سکھ خاندان 1948ء سے1951ء تک تحصیل بجنور کے نگینہ قصبے کے گائوں چمپت پور اور اس کے ارد گرد کے دیہاتوں میں آباد ہوئے لیکن آج 70 برس بعد ان سکھوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ خالصتان موومنٹ نے اپنے ایک پیغام میں سوال کیا ہے کہ یو پی میں ہزاروں ہندوئوں نے بھی ان سکھوں کے ساتھ ان زمینوں کو خرید کر آباد کیا تھا لیکن بے دخلی کی تلوار صرف ان سکھوں پر ہی کیوں چل رہی ہے؟ سکھوں کو ہی کیوں ان کے گھر بار اور آبائی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے؟ رامن دیپ سنگھ نے سکھوں کو خبردار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے ''مت بھولنا کہ جو کچھ مودی سرکار اتر پردیش میں سکھوں کے خلاف کر رہی ہے‘ وہی اس نے گجرات میں بھی کیا تھا‘‘۔ پنجاب، ہریانہ اور چندی گڑھ سمیت دنیا بھر کی سکھ تنظیمیں کہیں انفرادی تو کہیں اجتماعی طور پر اتر پردیش میں کئے جانے والے ظلم پر احتجاج کر تے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ان ہزاروں سکھ خاندانوں کو ان کے سکھ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے سکھوں کی زمینیں اور ان میں بنائے جانے والے گھر بار اتر پردیش کی ہندو انتہا پسند یوگی سرکار ضبط کر رہی ہے‘ ویسے ویسے سکھوں کا انتقامی جذبہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
شرومنی گوردروارہ پربندھک کے میگزین کے ایڈیٹوریل میں لکھا گیا ہے کہ ان کے پاس سینکڑوں سکھ نوجوانوں اور ان کے بزرگوں کے فون آ رہے ہیں اور وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہمارے ساتھ پھر 1984ء والا دہلی کا خونی کھیل دہرایا جانے والا ہے؟ اگر سکھ یوگی سرکار کے اس ظلم کے خلاف خاموش بیٹھے رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ آج تو مودی سرکار ہمارے فارم ہائوسز اور زمینیں ضبط کر رہی ہے‘ پھر وہ ہمارے گھر بار، دکانیں‘ گودام اور کاروباری و تجارتی دفاتر اور سکول بھی ضبط کر لے گی۔ اتر پردیش کے گائوں کی وہ وڈیو اس وقت دنیا بھر میں وائرل ہو رہی ہے جس میں رام پور گائوں کے ایک سکھ نوجوان کو آر ایس ایس کے غنڈے مارتے پیٹتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ غنڈے اس کے سر پر بندھی پگڑی کو زبردستی اتار کر گندے نالے میں پھینک دیتے ہیں۔ پھر پولیس کے آنے پر ان کے سامنے کالا کرتا اور سفید پاجامہ پہنے وہاں کا ایک سکھ اس پگڑی کو گندی نالی سے نکال کر شاپر میں رکھ کر پولیس کو دیتا دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری جانب خالصتان کی موومنٹ بھی اس وقت اپنے زوروں پر ہے جس کے لئے امریکہ میں قائم کی گئی سکھ فار جسٹس (SFJ) نامی تنظیم نے ریفرنڈم ٹونٹی ٹونٹی کے لئے پنجاب بھر کے سکھوں کی آن لائن ووٹرز رجسٹریشن کا آغاز کیا تھا‘ اس مہم میں یک دم تیزی آنے پر بھارت کی یونین منسٹری برائے داخلہ نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے جس پر SFJ نے فوری طور پر روسی پورٹل کے ذریعے نئی ویب سائٹ www.punjabfree.ru پر 18 سال اور اس سے زائد عمر کے سکھ مرد و خواتین ووٹرز کی آن لائن رجسٹریشن کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ یہ تنظیم ووٹرز رجسٹریشن اور ان کی رائے کے لئے پنجابی اور انگریزی زبانوں میں ترتیب دیا گیا فارم ہر ووٹرکے گھر پہنچانے کا عزم کئے ہوئے ہے جبکہ بھارتی پنجاب پولیس اور تمام خفیہ ایجنسیاں خالصتان موومنٹ کے لئے ذرا سا بھی نرم گوشہ رکھنے والوں پر سخت کریک ڈائون کر رہی ہیں؛ تاہم اس کے با وجود مجوزہ ووٹرز فارم کسی نہ کسی طریقے سے ہر گھر پہنچایا جا رہا ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بچوں کی کتابیں اور خواتین کے پرس اور چادروں تک کی تلاشی سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا۔ بھارت سرکار کو اس وقت سب سے بڑی پریشانی یہ لاحق ہے کہ سکھ فار جسٹس رشین سائبر سپیس کو سکھ ریفرنڈم کے لئے کیسے اور کیونکر لانچ کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں