بھارت نے دنیا بھر میں پھیلے اپنے سفارتی مشنز، خفیہ ایجنسیوں اور مختلف ناموں سے قائم تنظیموں اور این جی اوز کے ذریعے 30 اگست کو اقوام متحدہ کی جانب سے ''جبری اغوا اور لاپتا افراد کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے سٹی ہال کے بالمقابل ناتھن فلپ سکوائر پر پاکستان کے کچھ اداروں کے خلاف دس‘ بارہ درجن افراد کے ہاتھوں میں پلے کارڈ پکڑا کر اور نعرے بازی کراتے ہوئے مظاہرہ کیا جس میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے وہ وہ جھوٹ بولے گئے کہ مقرر تو مقرر‘ اردگرد کھڑے سامعین بھی اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ اس مظاہرے میں پاکستان کے چند وطن فروشوں کے علاوہ زیا دہ تعداد ان اوور سیز ہندوئوں کی تھی جو کئی برسوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ بھارت نے 30 اگست اور اس سے اگلے روز پاکستان کے کچھ لوگوں کو ساتھ بٹھا کر پاکستان کے بعض اداروں سے متعلق ظلم کی من گھڑت اور خود ساختہ وہ داستانیں بیان کیں کہ گوئبلز بھی شرم سے منہ چھپا کر بیٹھ گیا ہو گا۔ بھارت نے تو سنی سنائی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی گھڑی ہوئی کہانیاں سنائی ہیں لیکن میں اپنے اس کالم میں دنیا بھر کے میڈیا ہائوسز، تھنک ٹینکس اور اشاعتی اداروں سمیت سوشل میڈیا کے ہر ذریعے کے سامنے بھارتی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بدترین بے حرمتی کا ایک ایک ثبوت اور دستاویزات رکھ رہا ہوں۔
ٹائمز آف انڈیا جیسے مشہور جریدے میں اس کے سینئر رپورٹر سبودھ ورما نے تین نومبر 2016ء کے شمارے میں ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا تھا کہ 2004ء سے 2016ء تک کے صرف بارہ برسوں میں بھارت میں جبری اغوا اور ذرا سے شک کی بنیاد پر مسلم، دلت، سکھ ، آسامی اور ناگالینڈ، منی پور سمیت مشرقی بھارت کی ریاستوں میں 55ہزار سے زائد افراد کو پولیس مقابلوں کی آڑ میں قتل کیا جا چکا ہے جبکہ 2016ء میں‘ صرف ایک سال کے دوران‘ مشرقی ریا ستوں میں پولیس حراست میں 470 افراد کو جان سے مار دیا گیا۔ ٹائمز آف انڈیا اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ جبری اغوا اور پولیس تحویل میں قتل کئے گئے افراد کی جو مذکورہ بالا تعداد بیان کی گئی ہے‘ وہ ریاست جموں کشمیر، پنجاب، چندی گڑھ اور دہلی سمیت بھارت کی دوسری ریاستوں میں آزادی کی تحریک چلانے والوں کی ہے۔ ''ان میں وہ تعداد شامل نہیں جنہیں بھارتی فوج اور اس کی پیرا ملٹری فورسز نے ہلاک کیا۔ اگر بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے ہاتھوں مار ے گئے افراد کی تعداد بھی ان میں شامل کر لی جائے تو یہ ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ ہیں‘‘۔ یہ سب وہ اقلیتی قومیں ہیں جنہیں ہندو انتہا پسند ان کے گھروں میں بھی چین سے نہیں رہنے دیتے اور اگر کوئی ان میں سے احتجاج کے لئے باہر نکلے تو ایسے لوگوں کو کہیں پولیس مقابلے میں تو کہیں فوج کے ٹارچر سیلز میں تڑپا تڑپا کر مار دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کا ہر گھر اور ہر گلی بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی بربریت کا شکار ہو چکی ہے جس کا ثبوت مقبوضہ وادی میں میلوں تک پھیلی ہوئی گمنام قبریں ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی اس رپورٹ کو اگر کوئی حقائق کی روشنی میں پرکھنا چاہے تو اسے بھارتی سپریم کورٹ کا جولائی2016ء میں Judicial Intervention کے تحت دیا جانے والا وہ حکم سامنے رکھنا چاہئے جس میں منی پور ریاست میں انڈین آرمی کی بھینٹ چڑھائے گئے 1562 افراد کا مقدمہ پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق صرف 2015ء میں پولیس اور ہیومن رائٹس کمیشن کے پاس 55000 افراد کے لاپتا ہونے کی شکایات درج کرائی گئیں، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) نے اس خبر کی تردید یا تصدیق کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ''ہم اسے دیکھ رہے ہیں‘‘ لیکن جب اس خبر سے متعلق بھارتی فوج کے تعلقات عامہ کے کرنل کالیا سے رابطہ کیا گیا تو موصوف نے دبے لفظوں میں اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم کشمیری مسلمانوں اور نکسلائٹس کے ساتھ نرم رویہ نہیں رکھ سکتے‘‘۔
سی پیک اور گوادر پورٹ کا دکھ ابھی کم نہیں ہو رہا تھا کہ افغان طالبان اور اشرف غنی کے امن معاہدے نے بھارت کی راتوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ وہ بھارت جو امریکی اشیرباد سے دو دہائیوں سے کابل میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مغربی محاذ گرم رکھنے کے لئے افغانستان میں پانچ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا تھا‘ اس کی تمام سازشیں اور پلاننگز اس معاہدے کے مستقبل میں دھویں کی صورت ارٹی دکھائی دے رہی ہیں۔ خود کو جنوبی ایشیا کا ڈان سمجھنے والا اور اپنے سے کمزور اور چھوٹی قوموں کو ہر وقت آنکھیں دکھانے والا بھارت ونگ کمانڈر ابھینندن کی صورت میں ہونے والی رسوائی کا ابھی ازالہ بھی نہ کر پایا تھا کہ چین نے اس کی بچی کھچی عزت کا گلوان وادی میں جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ ہر نیا آنے والا دن جب اشرف غنی کی جیلوں سے طالبان قیدیوں کی رہائی کی خبریں سناتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ وہ بھارت کی کمر پر ٹھوکریں رسید کرتے ہوئے کہہ رہا ہے... ''اب تیرا کیا ہو گا کالیا‘‘۔
ٹورنٹو، امریکہ اور برطانیہ میں ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کے اندر سے اجیت دوول اور را کے ہاتھوں میں کھیلنے والے کچھ وطن فروش‘ جن کے بارے میں بھارتی فوج کے سابق آرمی چیف اور دوسرے ریٹائرڈ جنرلز نے بڑے فخر سے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا کہ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر سے بعض افراد ،این جی اوز، سوشل میڈیا پرسنز ہماری خدمات سر انجام دے رہے ہیں‘ بھارت کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔بھارت کی ہر طرح سے کوشش رہتی ہے کہ کسی طریقے سے FATF پاکستان کو بلیک لسٹ کر دے تاکہ پاکستان عالمی تنہائی اور شدید معاشی دبائو کا شکار ہو جائے۔ بھارت کی اس خواہش کو دھول چٹانے کے لئے ایف اے ٹی ایف کی شرائط اور طے شدہ معیار کو پورا کرنے کے لئے عمران خان حکومت نے قومی اسمبلی سے منی لانڈرنگ کے خلاف بل منظور کرانے کے بعد جب سینیٹ میں یہ بل منظوری کے لئے پیش کیا تو بڑی جماعتوں نے اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں کے ذریعے اسے جس طرح سے مسترد کرایا‘ اس سے علم ہو رہا ہے کہ اشارے کہاں سے ہو رہے ہیں‘ کون اپنی دوستیاں اور کون کاروبار نبھا رہا ہے۔
پاکستان نے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئے چین کی مدد سے گوادر بندرگاہ کا منصوبہ شروع کرنا چاہا تو امریکہ، بھارت اور اس کے حلیفوں نے بلوچستان میں بعض سرداروں کو گمراہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا اور صوبے میں شورش برپا کرا دی۔ ان سرداروں کو کبھی امریکہ تو کبھی سکینڈے نیوین ممالک میں شاہی مہمانوں کے طور پر محلات میں ٹھہرایا جاتا ہے اور ان کے لئے نت نئے ناموں سے دہشت گرد تنظیمیں وجود میں لائی جاتی ہیں۔ سرداروں کی بگڑی ہوئی اولادوں کو اپنے پروں تلے پناہ دیتے ہوئے سب سے پہلا ٹارگٹ یہ دیا گیا کہ بلوچستان میں مقیم غیر بلوچ افراد کے علاوہ ڈاکٹرز، اساتذہ، انجینئرز اور سرکاری ملازمین کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دو۔ اس کے بعد سے سینکڑوں استاد، فنی ماہر، ڈاکٹرز اور سرکاری ملازمین کو شہید کیا جانے لگا، ہسپتالوں اور عدالتوں میں وکلاء پر خود کش حملے کراتے ہوئے سینکروں وکلاء کی جانیں لی جانے لگیں یہاں تک کہ راہ چلتے بچوں اور خواتین تک کو نہ بخشا گیا۔ آج مضحکہ خیزی کی انتہا دیکھئے کہ انہی دہشت گردوں کے ساتھیوں کو کینیڈا اور یورپ میں کھڑا کر کے ان کے ساتھ انسانی حقوق کا رونا رویا جا رہا ہے۔درحقیقت یہ انسانی حقوق کا معاملہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ بھارت، امریکہ ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کو اصل دکھ صرف اور صرف سی پیک کا ہے جس پر پاکستان کے عوام اور اس کی مسلح افواج بھرپور قوت سے پہرہ دے رہی ہیں۔