"MABC" (space) message & send to 7575

بھنگ کی کاشت

کینسر جیسے انتہائی موذی اور خطرناک مرض میں مبتلا مریضوں کی کیمو تھراپی کے دوران اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسے مریضوں کی جب کیمو تھراپی کی جا رہی ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگوں کو یک لخت قے آنا شروع ہو جاتی ہے‘ جو مریض کے لئے انتہائی خطرناک ہوتی ہے، اس کو روکنے کے لئے 'مری جوآنا‘ (Marijuana)کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر شہریار آفریدی نے جیسے ہی اعلان کیا کہ چرس، افیون اور ہیروئین جیسی قبضے میں لی گئی منشیات کو تلف کرنے کے بجائے جان بچانے والی ادویات میں استعمال کیا جائے گا تو عمران خان حکومت پر ڈھولوں اور ڈرموں کے شور میں اپوزیشن نے وہ آوازے کسناشروع کیے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس شور شرابے میں اپوزیشن کا کچھ حمایتی میڈیا بھی پیش پیش تھا۔ تحریک انصاف جسے نت نئے انقلابی لیکن عوامی مزاج کے خلاف فیصلے کرنے کی صلاح نجانے کس نے دی ہے کہ اب اس نے منشیات کے بعد بھنگ کو بھی قومی خزانہ قرار دے دیا اور اپوزیشن کی پہلے سے لگائی گئی آگ کو مزید بھڑکانا شروع کر دیا ہے۔ 
یہ نادان لوگ شاید نہیں جانتے کہ آج کل میڈیکل کی فیلڈ میں جس CBD نے دھوم مچا رکھی ہے‘ وہ منشیات سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ بھنگ کو اب سرکاری سطح پر کاشت کیا جائے گا اور اس کے لئے وفاق اور پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ کے پی میں بھی اس کی کاشت کے لیے مناسب علاقے تلاش کرنے کے لئے سروے اور تجربات کئے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل زیتون‘ (آلیو آئل) جس کی امپورٹ پر ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں‘ کی پاکستان میں کاشت کے لئے چکوال اور کلرکہار سے آگے اور اس کے اطراف کے علاقوں میں کئے گئے تجربات کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنے کے بعد اب زیتون کی کاشت بڑھائی جا رہی ہے۔
چرس اور افیون سمیت ہیروئین کی فیکٹریوں سے متعلق حکومتی بیان کو اپوزیشن نے طنز و تضحیک کا چابک بنا لیا تھا جسے وہ تحریک انصاف کی کمر پر رسید کرتی جا رہی تھی۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کو نجانے کیا سوجھی کہ انہوں نے قریب پانچ ماہ قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان کے تین چار علا قوں میں بھنگ کی کاشت کو سرکاری سرپرستی میں لینے کا اعلان کر دیا کیونکہ انہیں علم ہو چکا تھا کہ زیتون کی کاشت سے ابھی مکمل تو نہیں لیکن بہت سے زرمبادلہ کی بچت ہونا شروع ہو چکی ہے۔ نارکوٹس کنٹرول کی وزارت کے انچارج شہریار آفریدی نے فروری 2019ء میں جیسے ہی یہ تجویز پیش کی کہ ضبط کی گئی کروڑوں ڈالر کی منشیات‘ جس میں چرس، افیون اور ہیروئین اہم ہیں‘ کو تلف کرنے کے بجائے کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ملک کے اندر ہی ایسے فارماسیوٹیکل یونٹ لگائے جائیں جہاں سے تیار کردہ ادویات اور انجکشن ملک کے اندر استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں برآمد کرتے ہوئے اربوں ڈالر کا منافع بھی حاصل کیا جا سکے۔ سمگلروں سے پکڑی گئی منشیات سے جان بچانے والی اہم اور قیمتی ادویات جب ہم خود تیار کریں گے تو اس سے ہمیں کروڑوں ڈالرز کی شکل میں زرمبادلہ کی بچت بھی ہوا کرے گی اور ساتھ ہی ملک میں نئی ادویہ ساز فیکٹریاں لگنے سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ جیسے ہی شہریار آفریدی نے اس تجویز کا ذکرکیا تو نواز لیگ اور پی پی پی نے طنز و تضحیک کے نشتر چلانا شروع کر دیے‘ ان کی باتیں سن کر لگتا تھا کہ یا تو انہیں میڈیکل اور فارما سیوٹیکل کی الف ب کا ہی پتا نہیں یا شاید وہ حکومت کی مخالفت میں صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کہہ رہی ہیں؛ تاہم حکومت اپنے موقف پر سنجیدگی سے ڈٹی رہی اور بھنگ سے متعلق اپنے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے تین وفاقی وزراء کی نگرانی میں درست اور قانونی طریقے سے بھنگ کاشت کرنے کی محدود اجازت دے دی تاکہ ہر سال اربوں ڈالر کمائے جا سکیں۔بارانی علا قے جہاں اس وقت زیتون کی کاشت بڑھ رہی ہے‘ میں اگر بھنگ کی کاشت اس نظریے سے کی جائے کہ اس سے بنی نوع انسان کی بہتری اور میڈیکل کے شعبے میں قیمتی اور انتہائی اہم ادویات تیار کی جائیں گی تو یہ قدرت کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ سمجھئے۔ ماہرین نے اس کے پودے کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زیادہ بارش کی صورت میں یہ زمین کا پانی چوس لیتا ہے اور جب پانی کی کمی ہونے لگے تو بھنگ کے پودے کا کمال یہ ہے کہ وہی چوسا ہوا پانی یہ زمین کو واپس لوٹا دیتا ہے۔ اس طرح اس سے خشک سالی اور سیلاب‘ دونوں میں زمین کو فائدہ ہوتا ہے۔
اگر بھنگ‘ افیون‘ چرس اور ہیروئین سے انسانی زندگیاں بچانے کی ادویات بنانے کی بات اپوزیشن جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی تو پھر یہ جماعتیں اپنی جماعت میں شامل ڈاکٹرز، سائنس دانوں یا فارما سیوٹیکل کمپنیوں سے معلوم کر لیں کہ آیا عمران خان حکومت کی یہ تجویز قابلِ عمل ہے؟ کیا اس سے ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کی بچت اور منا فع ہو سکے گا؟ اور اگر ان ڈاکٹرز، سائنس دانوں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی باتوں یا ان کی قابلیت پر ان جماعتوں کو اعتماد نہیں تو پھر مغربی ممالک سے شکایت کر یں کہ حکومت پاکستان نے چرس، افیون اور ہیروئین کو تلف کرنے کے بجائے ان سے ادویات اور انسانی جانوں کو بچانے والے انجکشن تیار کرنے کا پلان بنایا ہے۔ اگر وہاں یہ خبر ملے کہ خود امریکا سمیت کئی یورپی ممالک میں ان منشیات کی کاشت لیگل ہے اور یہ پہلے سے میڈیکل کی فیلڈ میں استعمال ہو رہی ہیں تو پھر ان جماعتوں کو چاہئے کہ چپکے سے پاکستان واپس آکر بھنگ کی کاشت میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیں۔ 
اس وقت اپوزیشن کے بعض رہنمائوں اورسوشل میڈیا سمیت کچھ مخصوص میڈیا ہائوسز کے دماغ میں بھنگ کا سودا اس طرح سمایا ہوا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ زہر انڈیلا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی تبدیلی یہ ہے کہ اب ہمارے بچوں کو نشے پر لگا رہی ہے۔ اگر بچوں کے والدین سمیت پاکستان کے بائیس کروڑ عوام جاننا چاہیں کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیوں کیا تو وہ گوگل سمیت دنیا کے کسی بھی ادارے یا عالمی ادارۂ صحت سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ منشیات سے کشید کیا جانے والا تیل اعصابی کمزوری اور پٹھوں کو مضبوط بنانے کے لئے امرت دھارا کا درجہ رکھتا ہے؟ کیا بھنگ سے حاصل کیا جانے والا تیل کاسمیٹکس سمیت صابن اور لوشن تیار کرنے میں بھی استعمال ہو رہا ہے؟شہریار آفریدی نے تو پاکستان کی بہتری کے لئے منشیات کو تلف کرنے کے بجائے اس سے جان بچانے والی ادویات تیار کرنے کا مشورہ دیا تھا اور عندیہ دیا تھا کہ حکومت ابھی سوچ رہی ہے کہ امریکہ ویورپ بھر میں قانونی طور پر اسے ایکسپورٹ کیا جائے کیونکہ وہاں اس کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ اس سادہ سی بات پر حکومت مخالفین نے طوفان اٹھا دیا کہ جیسے کوئی بہت انہونی بات ہو۔ کئی ہفتوں تک سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں وفاقی وزیر شہریار آفریدی کے اس بیان پر لتے لئے جاتے رہے کہ حالانکہ پوری دنیا میں بھنگ درد کش ادویات میں استعمال کی جاتی ہے، سرجری کے بعد مریض کو درد کی شدت سے بچانے کے لیے دی جانے والی ادویات میں بھی بھنگ کا استعمال عام بات ہے۔ مرگی کے علاج کے لیے تیار کی جانے والی ادویات میں بھی بھنگ شامل کی جاتی ہے جبکہ کینسر کی ادویات میں بھی بھنگ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کینسر کے علاج کے حوالے سے ایک خاص قسم کی بھنگ کا تیل کافی عرصے سے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ چلی، جمیکا، امریکا، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت متعدد ملکوں میں پہلے سے بھنگ وغیرہ کی طبی استعمال کے لیے کاشت کی اجازت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں