بھارت نے یورپی یونین کو گمراہ کرنے کے لئے اس کے آفیشل جرنل کی 11 ستمبر کی اشاعت میں ایک خط کے ذریعے باسمتی چاول کے جیو گرافیکل انڈیکشن (GI) کا حوالہ دیتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مشہور و معروف باسمتی چاول بھارت کی زرعی پیداوار ہے اور اس کا پاکستان سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کسی بھی کمرشل اتاشی نے ابھی تک بھارت کے اس صریح جھوٹ کا پردہ چاک کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، شاید ہمارے اربابِ اختیار اس وقت کے انتظار میں ہیں جب چڑیاں کھیت چگ جائیں گی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جیسے ہی بھارت کا یہ خط شائع ہوا‘ پاکستان آگے بڑھ کر بھارت کے اس جھوٹ اور غلط بیانی کی دھجیاں اڑاتا ہوا دستاویز سے ثابت کرتا کہ ''باسمتی اور اروما‘‘ دونوں خالص پاکستان کے ٹریڈ مارک ہیں اور جو ملک یا لوگ‘ باسمتی چاول کو اپنے نام سے منسوب کر رہے ہیں‘ وہ دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں۔
یورپی جرنل میں شائع شدہ اس خط کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو اندازہ کرنا چاہئے کہ مکاری اور عیاری سے لبریز ہٹلر اور گوئبلز کی جانشین مودی سرکار‘ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد ذہنیت کے ذریعے پاکستان کی معیشت کے لئے کثیر زرمبادلہ کا ذریعہ بننے والی اس سب سے بڑی زرعی پیداوار کی ایکسپورٹ کو کس طرح متاثر کر رہی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت تمام خلیجی ریاستوں اور امریکہ و کینیڈا سمیت پورے یورپ میں پاکستان کے باسمتی چاول کی سب سے زیا دہ مانگ ہے۔ پاکستانی چاول کی بڑھتی ہوئی مانگ ہمیشہ سے بھارت کو کھٹکتی آئی ہے‘ اسی لیے اس کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے بھارت آئے روز نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ یورپی یونین کو لکھے جانے والے اس بھارتی خط سے اندازہ کیجئے کہ ایک جانب وہ دشمن ہے جو دن رات پاکستان پر حملہ کرنے اور اس کے عوام کو بھوکوں مارنے کے لئے سازشیں اور فریب کاری کرتا رہتا ہے اور اس مقصد کے لیے کہیں اس نے گولہ باری کا بازار گرم کیا ہوا ہے تو کہیں دریائوں کا پانی روک کر پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں اڑانے والی فاشسٹ بھارتی قیادت پوری پاکستانی قوم کو یہ کہہ کر بھوکا مارنے میں جتی ہوئی ہے کہ بھارت پاکستان جانے والے پانی کے ایک ایک قطرے کو روک دے گا جبکہ دوسری طرف بدقسمتی سے اس رزیل دشمن کے ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے پاکستان کی سیاست کے کچھ کردار استعمال کیے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما کبھی ملکی سرحدوں کوصرف ایک لکیر کا نام دے کر نظریہ پاکستان کی نفی کرتے ہیں تو کبھی اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلاف زبان درازی کر کے اپنے جذبۂ انتقام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جب کبھی بھی دبئی جانا ہوا تو چاول کے بزنس سے وابستہ پاکستانی اور مقامی تاجر شکوہ کرتے ملے کہ کچھ عاقبت نا اندیش پاکستانی‘ بھارتی حکومت اور اس کے ایجنٹوں سے مل کر باسمتی چاول کے ایسے کنٹینر خلیجی ممالک اور امارات کو بھجواتے ہیں جن میں پتھر اور اسی قسم کی دوسری اشیا کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ جیسے ہی یہ ابتدائی کھیپ مقامی خریداروں کے پاس پہنچتی ہے تو اس میں بدترین ملاوٹ دیکھ کر وہ فوری طور پر بقیہ آرڈر کینسل کر دیتے ہیں۔ بھارتی تاجر‘ جنہوں نے ڈالروں اور سونے کے بدلے ملک دشمنوں کے ذریعے یہ کھیل رچایا ہوتا ہے‘ باقی کا صاف چاول خرید کر اسے بھارتی لیبل اور ٹریڈ مارک کے ساتھ دنیا بھر میں ترسیل کر دیتے ہیں۔ اس باسمتی چاول کو مختلف بھارتی برینڈز کی نئی پیکنگ کے ساتھ پوری دنیا میں فروخت کیا جاتا ہے اور اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ باسمتی چاول بھارت کی پیداوار ہے اور یہ بھارت کے فلاں شہر سے بھیجا گیا ہے۔ جب بھی امارات کے مقامی لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ انتہائی دکھ اور افسوس سے بتاتے ہیں کہ پاکستان سے جو چاول یہاں بھارتیوں کو بیچا جا رہا ہے اور جسے بھارت کے نام سے امارات کی مارکیٹوں، دکانوں اور سپر سٹوروں کے علاوہ تمام ہوٹلوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے‘ اصل میں یہ پاکستان کا باسمتی چاول ہے لیکن بھارت اس کا تمام سٹاک اپنے لوگوں کے ذریعے منگوا کر اس پر اپنا لیبل لگا کر دنیا بھر میں اپنے نا م کا ڈنکا بجوا رہا ہے اور اس میں پاکستان کے چند لالچی تاجر اور بھارت کا سرمایہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
یورپی یونین کے جریدے میں شائع شدہ بھارتی خط کے الفاظ ملاحظہ کیجئے: ''Basmati is special long grain aromatic rice grown in Indian-sub continent‘‘۔ فوڈ سکیورٹی سے متعلق اقوام عالم کے تمام ادارے اور عالمی مارکیٹ کے لئے یہ کوئی نئی خبر نہیں ہو گی کہ باسمتی چاول پاکستان کی ایک بہترین جنس اور دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لی جانے والی زرعی پیداوار ہے جس کا بھارت سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن بھارت چاول کی فروخت کے بل بوتے پر یہ ثابت کرنے میں تلا ہوا ہے کہ دنیا بھر میں باستمی مارکیٹ کا بھارت کا حصہ 65فیصد ہے حالانکہ خلیجی ممالک سمیت یورپ اور دنیا بھر میں‘ جہاں چاول کی ایک پلیٹ بھی کھانے کے لئے تیار کی جاتی ہے وہاں پاکستانی باسمتی کی ہی ڈیمانڈ ہے کیونکہ اس کی خوشبو اور ذائقے کا مقابلہ دنیا کا کوئی بھی چاول نہیں کر سکتا۔ بھارت کے چاول کا تو پاکستان کے چاول سے کوئی مقابلہ ہی نہیں‘ بالکل ایسے ہی جیسے خوشبو اور ذائقے میں بھارتی آم پاکستانی آم کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہ وہ سچائی اور حقیقت ہے جو دبئی میں بیٹھے بھارتی تاجر بھی نہ صرف دل سے قبول کرتے بلکہ زبان سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں۔
یورپی یونین کے جرنل میں بذریعہ خط بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ بھارت کی ریاست پنجاب، ہریانہ، دہلی، ہماچل پردیش، اتر کھنڈ اور مغربی اتر پریش کے علاوہ اس کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھی باسمتی چاول کی بھرپور کاشت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ بھارت کے اس بہت بڑے معاشی حملے کا جواب دینے کے لئے پاکستان کی جانب سے ابھی تک کسی قسم کا کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔ لگتا ہے کہ تمام ذمہ دار ادارے غفلت کا شکار ہیں یا شاید انہیں احساس ہی نہیں ہو رہا کہ اگر ملک کی یہ سب سے بڑی ایکسپورٹ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تو اس کے ہمیں دو نقصانات ہوں گے۔ ایک بھاری زرمبادلہ سے محرومی اور دوسرا ہمارے زمینداروں اور کسانوں کو ان کی فصلوں کا بہتر معاضہ نہ ملنا۔ گزشتہ حکومتوں کے دور کا وہ عرصہ بھی سب کو یاد ہو گا جب کم قیمت ملنے پر کسانوں نے چاول کی کھڑی فصلوں کو یہ کہتے ہوئے نذرِ آتش کر دیا تھا کہ فصل کی کٹائی اور چاول کی تیاری میں جو اخراجات آئیں گے‘ اتنے میں تو یہ چاول فروخت بھی نہیں ہو سکے گا۔ وزارتِ خارجہ، وزارتِ تجارت اور فوڈ سکیورٹی سے متعلقہ اداروں کو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر یورپی یونین اور اس جیسے دوسرے فورمز پر‘ جہاں جہاں بھارت نے زہریلا پروپیگنڈا کیا ہے، تفصیلی خط لکھنے کے علاوہ اپنے اعلیٰ اختیاراتی وفد بھیج کر بتانا ہو گا کہ سچ کیا ہے اور بھارت کے اس خط کا جواب دینے کے لئے پاکستان کا خط بھی یورپی جرنل میں شائع کرانا ہو گا۔ جیو گرافیکل انڈیکشن (GI) سے قطع نظر پاکستان کو باستمی چاول‘ اس کی حقیقت، بھارتی اور پاکستانی چاول میں فرق کو پوری دنیا کے سامنے واضح کرنا ہو گا۔ بھارت گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل ایسی سازشیں کر رہا ہے اور ہمارا مناسب ردعمل نہ دیکھ کر اس نے باسمتی چاول کے بعد ہمالیائی لال نمک (پنک سالٹ) اور ملتانی مٹی کو بھی بھارتی پراڈکٹ بتا کر اس کی ایکسپورٹ شروع کر دی ہے اور دنیا بھر میں ہمارے کمرشل اتاشی ا ور سفارت کار میٹھی نیند سو رہے ہیں۔