1971ء کی جنگ شروع ہوتے ہی ایک شام اطلاع ملی کہ بھارتی ایئر فورس آج رات روس کی مدد سے کراچی شپ یارڈ کو نشانہ بنانے والی ہے۔ اُس وقت کراچی ایئر بیس کے کمانڈر کموڈور نذیر لطیف‘ جن کاپاکستان کی مسیحی برادری سے تعلق تھا‘ انہوں نے فوری طور پر ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ انڈین ایئر فورس کے اس حملے کو آگے بڑھ کر روکنا انتہائی ضروری ہے ‘ورنہ کراچی کو بہت زیا دہ نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کیلئے ہمیں فوری طور پر بھارتی ایئر فورس کے جام نگر اور ممبئی ہوائی اڈوں کو تباہ کرنا ہو گا جہاں سے ان کے جہاز کراچی پر بمباری کرنے کے لیے اُڑیں گے ۔ کموڈور نذیر چوہدری نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شاہینوں کو نقشے کی مدد سے اس کی ایک ایک سمت اور اس ایئر بیس پر بھارت کی جانب سے کئے جانے والے سخت سکیورٹی انتظامات کی تفصیلات پر سرخ نشان لگاتے ہوئے بتایا کہ آپ کایہ مشن معمولی نہیں کیونکہ بھارت کراچی پر حملے کے لیے مکمل تیاریاں کر چکا ہے اور اس کی بے خوفی کی سب سے بڑی وجہ روس کی ٹیکنیکل معاونت اور رہنمائی ہے۔ اس لئے جام نگر کے ہوائی اڈے کی فول پروف سکیورٹی کے بھارت نے سخت انتظامات کئے ہوئے ہیں‘ اس لئے میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مشن'' مارنے یا مر جانے کا ہو گا‘‘ اس لئے جام نگر ایئر بیس کو تباہ کرنے کے لیے جانے والے ہر فائٹر پائلٹ کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برا بر ہوں گے اور یہ بھی نوٹ کرلیجئے کہ مشن مکمل کرنا ہے اسے ادھورا چھوڑ کر نہیں آنا۔
ستمبر میں لکھے گئے آرٹیکل'' سب ہاتھ ایک ساتھ‘‘ پر بہت سے لوگوں نے کہا کہ سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی اور ایئر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال اور سیسل چوہدری کے علا وہ ہمارے دوسرے فائٹر پاکستانی جن کا تعلق ہماری قابلِ احترام مسیحی برادری سے ہے‘ ان سب کے بارے میں مکمل تفصیلات بتائی جائیں کہ افواجِ پاکستان کے مختلف شعبو ں میں ہمارے ان مسیحی بھائیوں نے وطن عزیز کی سالمیت کے لیے مزید کیا کیا قربانیاں اور خدمات انجام دیں ‘تاکہ ہم اپنے بچوں کو بتاسکیں کہ کس طرح ہمارے مسیحی بھائیوں نے وطن عزیز پاکستان کو ہم سب کے دشمن کے شر سے بچانے کے لیے اپنی قیمتی جانیں اس وطن اور ہم سب پر قربان کیں۔
اس سلسلے میں جنگِ ستمبر کے فائٹر ہیرو پیٹر کرسٹی ‘جن کا سابقہ مضمون میں سر سری تذکرہ کیا تھا‘ ان کی قربانی ان سب پاکستانیوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا دشمن اور اس کے ایجنٹ بھائی چارے اور آہنگی کو نفرت اور جھوٹے پراپیگنڈے‘ من گھڑت کہانیوں اور واقعات کا سہارا لیتے ہوئے پارہ پارہ کرنے کے مشن پر گامزن ہیں ۔ بد قسمتی سے ان میں کچھ نئے ناموں سے بنائی گئی تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہیں۔بہرکیف سات دسمبر کوکراچی شپ یارڈ اور نیول بیس پر حملے کی اطلاع ملتے ہی جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے‘ کراچی ایئر بیس کے کمانڈر نذیر چوہدری نے بریفنگ دیتے ہوئے جب کہا کہ یہ مشن مارو یا مر جائو والا ہو گا اور واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برا بر ہوں گے تو سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی نے رضاکارانہ طو رپر اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا'' سر اسی دن کا تو ہم سب کوانتظار ہے۔ جام نگر اور ممبئی کا ہوائی اڈہ تباہ کرنے کے لیے سب سے پہلے جانا پسند کروں گا اور میری اس درخواست کو رد نہ کیا جائے‘‘ ۔ذرا سوچئے پیٹر کرسٹی‘ سیسل چوہدری‘ ایرک گورڈن ہال وطنِ عزیز پاکستان کے وہ قابلِ فخر فرزند ہیں جو اپنے مذہب کے مطا بق چرچ یا گرجا گھروں میں عبادت کرنے والے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے‘ لیکن وہ ہم سب سے بڑھ کر پاکستانی تھے اور پاکستان کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے اپنی جان نچھاور کرنے اور حملہ آور دشمن کو تباہ کرنے کے لیے خود کو قربان کرنے والے مرد مجاہد تھے۔
جنگ ِستمبر اور جنگِ دسمبر تک کہیں بھی مذہبی عقائد کا تصادم نہ تھا‘ تمام مذاہب کے لوگ پاکستان میں امن و سکون اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ زندگیاں گزار رہے تھے ‘پھر آخر کیا ہوا کہ اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے بد قماش عناصر اپنی زبانوں سے شعلے اگلنا شروع ہو گئے‘ جس پر اس وقت کسی نے توجہ نہ دی اور ہم سب پر حیرتوں کے پہاڑ اس وقت ٹوٹنے لگے جب یہ عناصر جگہ جگہ پھیل گئے۔ اس سلسلے میں کسی مضمون میں بھارت کی آئی بی کے بھیجے گئے ان جاسوسوں کی مکمل تٖفصیلات سے آگاہ کریں گے جن کے سلسلے اب دورد راز تک پھیل چکے ہیں‘ اس سلسلے میں کچھ لوگوں کو ہماری خفیہ ایجنسیوں نے مکمل ثبوتوں کے ساتھ گرفتار بھی کر لیا ہے ‘لیکن ان کے باقی ساتھی اس قدر با اثر ہیں کہ ہو سکتا ہے کوئی ان کا سن کر یقین ہی نہ کرے۔
سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی جنگِ ستمبر کے چند سال بعد ڈیپوٹیشن پر پی آئی اے میں بھیج دیئے گئے ‘لیکن71ء کی جنگ شروع ہوتے ہی واپس ایئر فورس میں آ گئے۔ پی آئی اے سے واپسی پر مسرور رپورٹ کرنے کے لیے جب وہ اپنی فیملی کو اپنے بھائی کے گھر اتار کر ایئر بیس پہنچے تو ان کے بھائی‘ جو انہیں ڈراپ کرنے کے لیے آ رہے تھے‘ نے کہا '' پیٹر ذرا دھیان سے اب تمہاری فیملی ہے‘ جس میں چار اور چھ سال کی دو بیٹیاں اور ایک سال دس ماہ کا بیٹا شامل ہے ‘‘۔ آپ یقینا جاننا پسند کریں گے کہ میرے وطن کے اس جان نثار فائٹر نے اپنے بھائی سے کیا کہا ۔ سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی نے اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا '' دشمن کی توپوں‘ ٹینکوں‘ بمبار جہازوں کے سامنے صرف اپنی فیملی نہیں بلکہ پاکستان میں بسنے والی تمام فیملیوں کو دیکھتا ہوں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے ‘میں اپنی آخری سانس تک اپنے وطن اورہم وطنوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے دشمن کے اند ر بار بارگھس کر اسے بمباری سے تباہ کروں گا‘‘ ۔ اسی طرح جنگِ دسمبر میں اپنے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے کرسٹی نے پوچھاکہ جام نگر مشن پر جب میں مارا گیاتو میرے نام کے ساتھ شہید لکھو گے ؟ یاد رہے پیٹر کرسٹی نے اپنے فقرے میں لفظ'' جب‘‘ استعمال کیا نہ کہ ''اگر‘‘ ۔
6 دسمبر1971ء کو B-57 بمبار کے نیوی گیٹر سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی ستارہ جرأت بھارت کے انتہائی اہم ہوائی اڈے جام نگر کو تباہ کرنے کے مشن پر روانہ ہو ئے۔وہ لپکے‘ پلٹے اور انڈین ایئر فورس کے شدید حملوں کے با وجود جام نگر ہوائی اڈے کے مختلف حصوں کو طیارہ شکن گنوں سے تباہ کرنے کے لیے پلٹ پلٹ کر آتے رہے ۔ ممبئی تک ان کی بمباری کی دھمک سنائی دیتی رہی۔ دشمن انہیں چاروں طرف سے گھر چکا تھا ‘ان کا بمبار طیارہ ان کا نشانہ بن گیا اور آج تک ان کے بارے میں کوئی پتہ نہیں چل سکا‘ لیکن ان کی شجاعت ‘ حاضر دماغی اور حملہ کرنے کی تیزی دنیا بھرکے جنگی وقائع نگاروں کی دلچسپی کا باعث بنی رہی۔ کرسٹی نے مشن پر جانے سے پہلے کہا تھا کہ میں بھی پاکستان ہوں۔ اب آپ انہیں جو مرتبہ چاہے دے لیں ‘لیکن وہ یقینابلند مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔
6 دسمبرء کو سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی بھارت کے انتہائی اہم ہوائی اڈے جام نگر کو تباہ کرنے کے مشن پر روانہ ہوئے اور انڈین ایئر فورس کے شدید حملوں کے با وجود جام نگر ہوائی اڈے کے مختلف حصوں کو طیارہ شکن گنوں سے تباہ کرنے کے لیے پلٹ پلٹ کر آتے رہے ۔