شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا تھا ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے تجھ سے گا کام دنیا کی امامت کا
صداقت‘ شجاعت‘ دیانت اور امانت... پاکستان کے وجود سے یہ تمام خوبیاں اس طرح دھو ڈالی گئیں کہ دنیا کی امامت کا منصب اب نظروں سے اوجھل ہی نہیں‘ گردِ راہ میں کہیں گم ہو چکا ہے۔امانت‘ دیانت‘ شجاعت اور صداقت جیسے اوصاف معاشرے سے ایسے غائب ہوئے جیسے عدم آباد سدھار گئے ہوں‘اسی باعث دور دور تک پھیلے ہوئے قبرستانوں میں 'دیانت اورامانت کے چلتے پھرتے تابوت‘ اپنا پیٹ بھرنا اور ہم سب کو لوٹنا شروع ہو گئے اور ہمارے تمام وسائل لوٹ لئے گئے۔ ہمارے ہاں تمام پروجیکٹ دوگنے بجٹ پر ٹینڈر کیے گئے اور بدلے میں دنیا بھر کی کمپنیوں سے بھاری کمیشن لئے گئے۔جب امانت، دیانت اور صداقت کی موت ہو جائے تو پھر ایک ہی چیز رہ جاتی ہے جسے ذلت یا ہزیمت کہا جاتا ہے اور یہ کسی قوم کو پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتی ہے۔
ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ اس ملک و قوم کو چاٹ جانے والوں‘ اس قوم کی ہڈیوں سے ایک ایک بوند نچوڑنے والوں کی سرکوبی کے بجائے ہماری سیاسست اور قلم کے بادشاہ کیوں اصرار کرنے لگتے ہیں کہ دیانت دفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر کھڑے ہو کر رونے پیٹنے کے بجائے مفاہمت سے حاصل عیش و آرام اپنا لو۔ اگر ایک دفعہ دیانت کو زہر کا پیالہ پلا کر بددیانتی سے مفاہمت کر لی جائے تو پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے اس قدر وسیع ہو کر اس عطار کی بیٹی کی طرح کا ہو جاتا ہے جو بیاہ کر سسرال پہنچی‘ جن کا چمڑے کا کام تھا‘ تو سخت بدبو سے اس کا دماغ پھٹنے لگا جس کی شکایت وہ اپنے میکے اور سسرال میں ہر ایک سے کرتی، پھر آہستہ آہستہ اس طرح چمڑے کی بدبو کی عادی ہو گئی کہ اس کے بدبو ہونے کا احساس ہی ختم ہو گیا۔ یہی حال 70 برسوں سے اس ملک میں جاری و ساری ہے۔ آمروں نے اقتدار سنبھالا اور ابتدائی مارشل لائی ایام میں پکڑ دھکڑ کی بھی تو سیا سی عمل شروع کرنے کے نام سے‘ پھر انہی لوگوں سے مفاہمت کر لی اور دیانت بال کھولے ماتم کرتی رہ گئی۔ ایوب خان، یحییٰ خان اور پرویز مشرف‘ سبھی نے امریکا اور یورپ کہ خوشی کیلئے جمہوریت کے نام پر بددیانتی سے مفاہمت کی، اب پھر یہی سبق دیا جا رہا ہے کہ مفاہمت کر کے دیانت، امانت اور صداقت کو میٹھی نیند سلا دیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ملک کی قسمت میں ہر لٹیرے اور کرپشن کے دیوتا سے مفاہمت ہی کرنا ہے تو پھر ہمیں‘ آخری نبی محمد مصطفی‘ احمد مجتبیٰﷺ کی امت کو یہ درس کیوں دیا گیا اور یہ سبق کیوں پڑھایا گیا کہ ''خدا کی قسم اگر فاطمہؓ بنت محمدﷺ چوری کرے گی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جائے گا‘‘۔ کیا اس کے بعد مفاہمت کا کوئی جواز‘ کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟
پندرہ برس ہوئے‘ لاہور کے نواح میں ایک معروف اور طاقتور سیا سی شخصیت‘ جس کا قبضہ گروپوں کا اپنا پورا نیٹ ورک پھیلا ہوا تھا‘ نے اپنے ایک نوجوان ملازم کا شناختی کارڈ استعمال کرتے ہوئے پنجاب کے محکمہ انہار میں ٹھیکیداری کے سلسلے کی ایک فرم بنائی اور محکمے کے چند افسران کی ملی بھگت سے کچھ ٹینڈر منظور کرائے، کاغذوں میں اس کی تکمیل مکمل دکھاتے ہوئے بوگس بل تیار کیے گئے اور پھر آڈٹ اور اکائونٹس کے لوگوں کو ساتھ ملا کر چیک جاری کرانے کے بعد اس نوجوان کو‘ جو بعد ازاں ایک پراسرار حادثے کا شکار ہو کر دنیا سے چل بسا‘ بینک لے جا کر چیک اس فرم کے اکائونٹ میں جمع کرائے‘ جسے بعد میں کیش کرا لیا گیا۔ کچھ عرصہ گزرا ہو گا کہ اس نوجوان نے اپنے والد سے اس معاملے کا ذکر کر دیا‘ جن کی نیک نامی اور دیانت کا ایک زمانہ اس طرح معترف تھا کہ ایک بہت بڑے صنعتی گروپ کے مالکان ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے اور اس اعتماد کی انہوں نے زندگی بھر یوں لاج رکھی کہ وہ گروپ آج بھی ان کی دیا نت کا معترف ہے۔ اپنے بیٹے کی ساری کہانی سننے کے بعد والد نے وزیراعلیٰ کے نام خط لکھتے ہوئے تمام کرپشن کی رپورٹ کر دی نتیجتاً معاملہ وزیراعلیٰ پنجاب تک پہنچ گیا جنہوں نے اینٹی کرپشن پنجاب کو اس کی انکوائری سونپ دی لیکن ہوا یہ کہ یہ تفتیش اسی قبضہ گروپ کے پے رول پر موجود ایک انسپکٹر کے سپرد کر دی گئی۔ اب معاملہ ایسے شروع ہوا کہ اس شخص‘ جس نے چیف منسٹر کو خط لکھا تھا‘ کو بیٹے سمیت تھانے بلایا گیا اور مجبور کیا گیا کہ یہ درخواست واپس لے لو، ورنہ تم لوگوں کو بھی اس میں ملوث کر دیا جائے گا۔ ان کے انکار پر وہ تفتیشی انسپکٹر آپے سے باہر ہو گیا اور اسی رات کو نصف شب انہیں گھر سے اٹھا کر تھانے لے گیا جہاں ان کے ساتھ نہایت توہین آمیز اور گھٹیا سلوک کیا گیا۔ وہ درویش صفت‘ شریف النفس باپ‘ جس نے جونیئر کمیشنڈ آفیسر کے طور پر اپنی تیس سالہ شاندار سروس مکمل کی تھی‘ اس ذلت کو برداشت نہ کر سکا اور جسمانی اذیت و تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور چند سال بعد اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کا بیٹا بھی کچھ عرصہ بعد ایک پُراسرار حادثے کا شکار ہوا اور چند گھنٹے ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد چل بسا۔ وہ انسپکٹر‘ جس کے بدعنوان افسران سے حصہ پتی کے تعلقات تھے اور جس نے اس نوجوان اور اس کے والد کو درخواست دینے کے جرم میں تھانے لے جا کر تشدد کا نشانہ بنا کر مجبور کیا کہ بڑے افسران یا ہوم سیکرٹری جب پوچھیں تو مذکورہ سیاسی شخصیت اور اس کے بدنام زمانہ جرائم پیشہ بھتیجے کا نام نہیں لینا اور ساتھ ہی وہ کرپشن کی فائل‘ جس میں حکومت پنجاب کے 65 لاکھ روپے(پندرہ برس پہلے) ایک بوگس پروجیکٹ کے نام پر لوٹ لیے گئے‘ بنا انکوائری کے بند کر دی اور خود نجانے کہاں غائب ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کرپشن کا بہت بڑا حصہ اس انسپکٹر اور دوسرے افسران میں تقسیم ہوا تھا اور 65لاکھ کی کرپشن تو وہ معاملہ ہے جو منظر عام پر آ گیا‘ اصل کرپشن تو کئی کروڑوں کی تھی۔ اب دیکھیے کہ 65 لاکھ روپے کی کرپشن کے محض ایک کیس نے ایک ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا۔ سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اور غریبوں کو ظالم کے ظلم سے بچانے والے ادارے اور ان کے قوانین صرف غریبوں تک ہی پہنچتے ہیں؟ چینی اور آٹے سمیت ہر بڑے پروجیکٹ میں اربوں‘ کھربوں کی کرپشن اور کمیشن لے کر پروجیکٹ کی لاگت بڑھانے والوں سے مفاہمت اور ہولا ہاتھ رکھنے کا سبق دینے والوں کو اس لوٹ مار سے کوئی حصہ ملتا ہے؟ اس شخص کا گھر تباہ ہوا‘ اس کے گھر والوں کے لیے جان بچانا مشکل ہو گیا، ان کی جمع پونجی بک گئی، صرف اس لئے کہ انہوں نے بددیانتی‘ چوری اور کرپشن سے مفاہمت نہیں کی۔ اس شخص نے مفاہمت کو دیانت کی موت سمجھ کر اپنے ہی بیٹے کے ذریعے ایک سیاسی شخصیت سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تفصیلات اس وقت کے وزیراعلیٰ تک پہنچا دیں لیکن صلہ یہ ملا کہ اس گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ رن آف کچھ‘ جنگ ستمبر اور جنگ دسمبر میں بہادری سے حصہ لینے اور فوج میں تیس سالہ شاندار خدمات انجام دینے پر جس شخص کو تمغۂ بسالت ملا تھا اور دشمن کا جس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا‘ اپنے ہی وطن میں کرپشن کے خلاف جنگ کی نذر ہو گیا۔ کرپشن سے مفاہمت ایک حد تک کی جاتی ہے اور وہ حدیں جب روند دی جائیں تو اس مفاہمت کی موت ہی قوموں کی زندگی بن جاتی ہے۔