"MABC" (space) message & send to 7575

’’ سی پیک اور کشمیر ‘‘

مسلم لیگ (ن) کے چوٹی کے رہنما ؤں‘جن میں مریم اورنگزیب‘ خواجہ آصف‘ شاہد خاقان عبا سی‘ محمد زبیر اور احسن اقبال شامل ہیں‘ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں سی پیک کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے‘ نیز یہ کہ موجودہ حکومت نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے۔ نواز لیگ کے ان مرکزی رہنماؤں کے ان دعوؤں سے یہ کہتے ہوئے صرفِ نظر کیا جا سکتاکہ سیا سی رہنما ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہی رہتے ہیں‘ لیکن ہمیں نہیں بھو لنا چاہئے کہ سی پیک پاک فوج کا پراجیکٹ ہے اور اس سلسلے میں ہمیں جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کا بحیثیت آرمی چیف دیا جانے والا پالیسی بیان سامنے رکھنا ہو گا کہ افواج پاکستان سی پیک کی تکمیل‘ اس کی حفاظت اور شفافیت کی ضامن ہیں۔ اس لئے سابق وزیر اعظم اور سابق حکمران پارٹی کے چوٹی کے ذمہ داروں کی جانب سے سی پیک پراجیکٹس کو بند کرنے کے الزامات کی کوئی حیثیت نہیں۔ شاہد خاقان عباسی‘ مریم اورنگزیب‘ اور احسن اقبال کے سی پیک پر لگائے جانے والے الزامات کو عوام سیا سی سٹنٹ کے طور پر لیتے ہیں ‘ لیکن جب مریم نواز اور ان کے نئے ترجمان سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں ان الزامات کا ذکر کیا تو پھر انہیں سنجیدگی سے لینا ضروری ہو جاتا ہے ‘نہ کہ انہیں سیا سی مشق سمجھ کرسرے سے نظر انداز ہی کر دیا جائے۔
ملک کے ہر باشعور فرد کی خواہش اور جستجو ہو گی کہ اُسے پتہ چلے کہ کیا واقعی موجودہ حکمرانوں نے سی پیک اور کشمیر سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟ CPEC/BRI پر مسلم لیگ نواز کے الزامات کا زمینی حقائق سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو صورتحال اس کے بالکل الٹ نظر آ رہی ہے۔ اس کے لیے حکومتی موقف یا اس کی طرف سے جاری کی جانے والی کارکردگی رپورٹ کی طرف دیکھنے سے پہلے کیوں نہ ہم بین الاقوامی ذرائع ابلاغ‘ دنیا کے مختلف تھنک ٹینکس کی رپورٹس‘ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی رپورٹس اور بھارت کے اندر اس پراجیکٹ کے خلاف مچایا جانے والا واویلا سامنے رکھ کر بات کریں ؟ان رپورٹوں ‘ دعوؤں اور بیانات کی روشنی میں یہ حقیقت ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلم لیگ نواز کا بار بار یہ دہائی دینا کہ سی پیک رول بیک کر دیا گیا ہے ‘ ایک بے بنیاد دعوے کے سوا کچھ ۔ شاہد خاقان عباسی صاحب نے اگلے روز اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ غدار وہ ہوتے ہیں جو بھارت کو فائدہ پہنچاتے ہیں‘ غدار وہ ہوتے ہیں جو ملکی معیشت تباہ کرتے ہیں‘ اگر عبا سی صاحب مناسب سمجھیں تو ان کی ایک ریٹائرڈ اعلیٰ عسکری شخصیت سے ہونے والی الوداعی ملاقات میں ان کی وزارت عظمیٰ کے آخری تین ماہ میں کی جانے والی دو ادائیگیاں روکنے کی بات کر لی جائے ۔اس الوداعی ملاقات میں عباسی صاحب نے جو کہا تھا وہ با قاعدہ ریکارڈ کا حصہ ہے اور میں وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کروں گا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اس کا ثبوت قوم کے سامنے رکھ دیں تاکہ سب کچھ سامنے آ جائے اورعوام جان لیں کہ ملکی معیشت کی تباہ حالی بلا وجہ نہیں بلکہ قومی جرم کی صورت میں کی گئی۔ دنیا کے کچھ اداروں کی واجب الاداخطیر رقم اداکرنے کی بجائے سیا سی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے وہ رقوم کن پر اور کہاں خرچ کر دی گئیں ‘ اس کا پتہ چلنا چاہیے‘ نیز یہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ پاکستان پر واجب وہ ادائیگیاں روکنے کا مشورہ شاہد خاقان عبا سی صاحب کو کس نے دیا تھا؟''عباسی صاحب کیا اگلی حکومت ہماری آنے والی ہے؟‘‘ جواب میں جب شاہد خاقان عبا سی صاحب نے نفی میں سر ہلایا تو پھر انہیں کیا کہہ کر وہ ادائیگیاں روکی گئیں ؟ اب وقت آ چکا ہے کہ سب کچا چٹھا سامنے لایا جائے‘ تاکہ سب جان لیں کہ ملکی معیشت کو کس نے اور کس طرح تباہ کیا ۔ اس ریٹائرڈ عسکری شخصیت کو بھی چپ کا روزہ توڑتے ہوئے سامنے آ کر قوم کو بتانا ہو گا کہ سابق وزیر اعظم نے دو بہت بڑی ادائیگیاں نہ کرنے کی وجوہ بتاتے ہوئے کیوں اور کس کو روکا ؟ کس نے عبا سی صاحب سے کہا تھا کہ کوئی ا دائیگی نہیں کرنی‘ آنے والوں کو بھگتنے دو؟ عباسی صاحب کے بقول: بحیثیت وزیر اعظم وہ یہ سن کر ایک لمحے کے لیے حیرت زدہ بھی ہوئے‘لیکن قیا دت کے سامنے بولنے کی بجائے خاموشی اختیار کر لی کیونکہ انہیں یہ بھی علم تھا کہ خزانے کی کنجی ان کے ہی پاس ہے۔ 
مسلم لیگ (ن) کی چھوٹی بڑی تمام قیا دت جو سی پیک کے منصوبوں کو رول بیک کرنے کا رونا رو رہی ہے ‘چاہے تو اپنے الزامات کی صداقت جاننے کے لیے Refinitiv کی یہ رپورٹ ملاحظہ کر لیں‘ جس کے مطابق چین کےBRI اور سی پیک پراجیکٹس پر اس وقت چار کھرب ڈالرز سے زائد مالیت کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے اور ان پراجیکٹس پر چین کے علا وہ دنیا کی دوسری کئی بڑی بڑی کمپنیاں اور ادارے کام کر رہے ہیں۔ چین نے ان پراجیکٹس کے لیے صرف اپنی کمپنیوں پر انحصار کرنے کی بجائے دنیا کی بڑے بڑے اور انتہائی ایکسپرٹ کنسٹرکشن ٹائی کونز کو اپنے پراجیکٹس حوالے کئے ہوئے ہیں۔جب مریم اورنگزیب اور احسن اقبال یہ فرماتے ہیں کہ سی پیک پر عمران خان حکومت کام بند کر کے اسے ختم کر رہی ہے تو ان کے یہ الزامات اور دھواں دھار بیانات کو جھوٹ کا پلندہ اور گوئبلز کی شکست ثابت کرنے کے لیے عالمی اداروں کی رپورٹس سامنے آ جاتی ہیں جن میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ BRI اور سی پیک پر اس وقت2630 چھوٹی بڑی کمپنیاں سی پیک اور بی آر آئی کے3000 پراجیکٹس پر کام کر رہی ہیں اور ان پراجیکٹس کی مجموعی مالیت اس وقت تک چار کھرب ڈالرز ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی قیا دت اگر مزید سچ سننا برداشت کر سکتی ہے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ چین سی پیک اور بی آر آئی کے لیے مختص کئے گئے سرمائے کے بعد کچھ مزید اجیکٹس شروع کر نے کے لیے چار ٹرلین ڈالرز کے بعد1.2 ٹرلین ڈالرز مزید مختص کر رہا ہے۔ سجن جندال سے اپنی دوستی اور یارانے پر کوئی جواب دینے کی بجائے عمران خان پر بھارت کو خوش کرنے جیسے الزامات عائد کرنے سے پہلے اگر چینی سفارت خانے یا ان کے سرکاری نشریاتی ادارے کی رپورٹس ہی دیکھ لی ہوتیں تو انہیں ایسا کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔Refinitive کے ایڈیٹر لکھتے ہیں کہ ان کی رپورٹ کے مطا بق اس وقت سی پیک کے84 نئے پراجیکٹس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔Morgan Stanley's کے چیف چائنا اکناموسٹ Robin Xing کہتے ہیں کہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی جاری کر دہ رپورٹس کے مطابق چین کے سی پیک اور بی آر آئی پراجیکٹس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے کیونکہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی رپورٹس کہتی ہیں کہ ایشیائی ممالک میں ان پراجیکٹس پر اگلے پندرہ برسوں میں کم ازکم26 کھرب ڈالر تک کے اخراجات آئیں گے۔ سی پیک میں سے100 ملین ڈالر زراعت اور100 ملین ڈالرز ہائوسنگ سیکٹر کے لیے مختص کئے گئے ہیں۔
تاہم عوامی جمہوریہ چین کے یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہو سکتے کہ کچھ طاقتیں پاکستان میں سی پیک پر کام کی رفتار کو سست تو کچھ اسے ختم کرانے کے لیے سازشیں کر رہی ہیں‘ لیکن اسے یقین ہے کہ پاکستان کے غیور عوام جو پاک چین دوستی کے سب سے بڑے محافظ ہیں ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ابھی حال ہی میں سی پیک کے تحت پاکستان میں پانی اور توانائی کی کمی دو رکرنے کے لیے جن ڈیمز پر کام شروع ہوا‘ ان کے خلاف بھی دشمن کی شہ پر مہم چلائی جا رہی ہے کہ اس سے ماحولیات کو نقصان پہنچے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں