''نہیں جناب! آپ گلگت‘ بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے غلط طور پر نتھی کر رہے ہیں کیونکہ مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ایک نہیں بلکہ کئی قراردادیں موجود ہیں جو اسے متنازع ڈکلیئر کر چکی ہیں، بات یہیں پر نہیں رکتی بلکہ 1948ء سے اب تک دنیا کا ہر قابلِ ذکر ملک اور ہیومن رائٹس سے متعلقہ تمام ادارے بھارتی سکیورٹی فورسز کے کشمیر پر جبری قبضے کے خلاف دنیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر آوازیں اٹھا رہے ہیں۔ اور یہ تو سامنے دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا ہے کہ کشمیر اب محض علاقائی نہیں بلکہ برسوں سے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع مسئلہ بن چکا ہے‘‘۔
انڈیا ٹوڈے کے کرن تھاپر کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر معید یوسف نے پورے بھارت کو یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبد اللہ نے آپ ہی کے پروگرام میں بیٹھ کر جو کچھ کہا‘ ان کے وہ الفاظ بھارت سرکار نے بھی سنے تو ہوں گے؟ وہ انٹرویو دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے سنا ہے جس میں وہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ''مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا ظلم و ستم اس انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ لوگ اب جھولیاں اٹھا اٹھاکر دعائیں مانگ رہے ہیں کہ چین ہمت کرے کہ وہ گلوان ویلی لداخ سے آگے لیہہ کی جانب قدم بڑھائے تاکہ بھارتی فوج کی شکست کے بعد مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا جبری اور بے رحمانہ قبضہ ختم ہو اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ (بھارت سے اس قدر تنگ ہیں کہ وہ) خوشی کے شادیانے بجاتے ہوئے چین کے کنٹرول کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ فاروق عبداللہ نے آپ (کرن تھاپر) کے پروگرام میں پاکستان کے بجائے مقبوضہ کشمیر پر چین کے قبضے کا حوالہ اس لیے دیا کیونکہ ان کو آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کی فسطائی ذہنیت کے خون آشام آسیب کے سائے تلے زندہ بھی تو رہنا ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف نے بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کو یوں کھل کر بیان کیا کہ بھارت اپنی سات لاکھ سے زائد فوجی طاقت کے بہیمانہ استعمال سے جس طرح مقبوضہ کشمیر کیDemography تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے‘ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بد ترین خلاف ورزی ہے جو کسی بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
اس انٹرویو میں کرن تھاپر نے پاکستان کے ایک انگریزی اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے عذر پیش کیا کہ جس طرح آپ گلگت‘ بلتستان کی حیثیت تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اسی طرح بھارت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ زیر قبضہ علا قوں میں جو چاہے‘ کرے۔ وزیراعظم پاکستان کے سپیشل ایڈوائزر نے پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے جو بھرپور اور مدلل جواب دیا اس نے گلگت بلتستان کی صوبائی حیثیت پر پاکستان مخالف تمام لابیوں کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دیا۔ ڈاکٹرمعید یوسف نے دوٹوک الفاظ میں کہا ''پاکستان کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کا امکان ہو‘‘۔ اس جواب پر کرن تھاپر چند لمحوں کے لئے سکتے میں آ گیا، اس پر ڈ اکٹر معید نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ آپ نے عمران خان کی انتخابی مہم میں گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت دینے کے انتخابی نعرے کی بات کرنے کے علاوہ پاکستان کے ایک انگریزی اخبار کی جس خبر کا حوالہ دیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی کوئی یک طرفہ فیصلہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لئے مملکت کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاتا ہے لیکن آپ پھر بھی مطمئن رہیں‘ گلگت بلتستان میں اقوامِ متحدہ کے کسی بھی چارٹر کی خلاف ورزی نہیں ہو گی، سب کچھ ایک طے شدہ دائرے میں ہو گا، ہم گلگت بلتستان کی عوام کی بہتری اور علا قائی ترقی کے لئے جو قدم بھی اٹھا رہے ہیں وہ کسی طور بھی بین الاقوامی قوانین یا دائرہ کار سے باہر نہیں ہو گا اور آپ جو بار بار شملہ معاہدے کا حوالہ دے رہے ہیں تو ا سے ایک مرتبہ پڑھ لیجئے‘ اس معاہدے کا گلگت بلتستان سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ شملہ معاہدہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت کے حوالے سے ہے۔
ڈاکٹر معید نے کرن تھاپر کو یاد دلاتے ہوئے سوال کیا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے امریکا میں اپنے ایک انٹرویو میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کس بنیاد پر کہا ''بھارت کسی بھی ملک سے اپنے تنازعات طے کرنے کا پابند نہیں رہا، اب ہم جو بھی کریں گے‘ کسی تیسرے کی شرکت تو دور کی بات‘ دوسرے فریق کو بھی خاطر میں لائے بغیر‘ اکیلے ہی فیصلے کریں گے‘‘؟ اس سوال کا کرن تھاپر کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ چین سے جوتے کھاتے ہی بھارت نے دنیا بھر میں بچائو‘ بچائو کا واویلا مچا دیا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے حوالے سے آرٹیکل370 کا خاتمہ امن کے سینے میں گھونپا جانے و الا وہ خنجر ہے جس سے کشمیریوں کا ابلتا ہوا خون‘ کسی بھی لمحے باہر نکل کر دنیا کی دو متحارب نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان تباہ کن جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ دونوں ممالک میں اب روایتی جنگ کا تصور مٹ چکا ہے اور اگر یہ دونوں جنگ کی جانب بڑھے تو بات ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے کم پر ختم نہ ہو گی، جبکہ ان کا جنگ کی طرف بڑھنا صرف ان دو قوموں کے لئے ہی نہیں بلکہ نصف سے زائد دنیا کی تباہی کا سامان پیدا کر سکتا ہے۔ وہ ممالک جو اس وقت تماشا دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں‘ مت بھولیں کہ پاک بھارت جنگ اپنے ساتھ اس قدر تباہی اور بربادی لے کر آئے گی کہ دنیا پر انسانیت کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہر دو ترقی پذیر ممالک‘ جو بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ تلے دب کر بمشکل سانس لے رہے ہیں‘ اگر کسی نیوکلیئر جنگ میں کود پڑے تو پھر ہو گا یہ کہ ان دونوں ملکوں کے بچے کھچے وجود پر قبضہ جمانے کیلئے دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان ایک نئی اور بہت بڑی جنگ شروع ہو جائے گی جو کرہ ارض کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر معید یوسف نے بھارت اور اس کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ انتہا پسندی جب کسی معاشرے یا گروہ میں گھس جائے تو اس کا شکار بالآخر اسی معاشرے کو ہونا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر معید یوسف نے کرن تھاپر کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں بھارت کو ایک مرتبہ پھر مقبوضہ کشمیر، سرکریک اور سیاچن پر بامعنی مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی اس پیشکش کا حوالہ دیا کہ ''اگر بھارت امن کیلئے ایک قدم آگے بڑھے گا تو پاکستان اس امن کو پروان چڑھانے کیلئے دس قدم آگے بڑھائے گا لیکن ا س کیلئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کا غیر انسانی محاصرہ ختم کراتے ہوئے اپنی فوج واپس بلانا ہوگی، مقبوضہ کشمیر میں قید مسلمانوں کو فوری رہا کرنا ہو گا، مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کے لیے حال ہی میں بنائے گئے متنازع قوانین کو ختم کرکے اس دوران جاری کی گئی جعلی شہریتوں کو منسوخ کرنا ہو گا، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے جابرانہ اور کالے قوانین کو ختم کرنا ہو گا، علاوہ ازیں بلوچستان، کراچی اور کے پی سمیت پاکستان کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث اپنے ایجنٹوں کو واپس بلانا ہو گا‘‘۔
ڈاکٹر معید یوسف کا یہ انٹرویو جیسے ہی آن ایئر ہوا تو کچھ نام نہاد دانشوروں اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آئے روزبے پر کے اڑائے جانے والے وہ سبھی مفروضے اور جھوٹ اپنی موت آپ مر گئے کہ کشمیر کا سودا کر لیا گیا ہے اور بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کا یہ انٹرویو‘ جس میں لگی لپٹی کے بغیر کشمیر پر بھارت سے مذاکرات کیلئے پاکستانی حکومت نے جو شرائط رکھی ہیں‘ وہ اس سے پہلے کسی بھی حکومت نے نہیں رکھیں اور یہ وہ سند اور مہرِ تصدیق ہے جو ہر جھوٹ کا منہ کالا کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں مقبوضہ کشمیر پر موجودہ حکومت کے موقف کی تصدیق کر رہی ہے۔
عمران خان کے سپیشل ایڈوائزر نے بجا کہا کہ بھارت، پاکستان اور کشمیر‘ یہ اس مسئلے کے تین فریق ہیں اور کسی بھی مذاکرات میں کشمیریوں کی نمائندگی کے بغیر کیے گئے سمجھوتے کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی ۔