میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور پھر کوئٹہ جلسے میں ریاستی اداروں پر تنقید کے نشتر برسانے کے علاوہ کارگل کی کہانی دہراتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کلنٹن کی منتیں کر کے بھارت کو نہ روکتے تو کارگل میں بہت برا حال ہوتا۔ میاں صاحب نے گزشتہ بیس برسوں سے یہی کہانی رٹ رکھی ہے کہ کارگل فوج بھیجنے سے پہلے انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ میں کچھ حقائق اپنے قارئین سمیت پوری قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اس جھوٹ اور بہتان کی حقیقت کیا ہے۔ نواز شریف صاحب نے پاکستان کے 59ویں یوم آزادی کے موقع پر ناروے میں وائس آف امریکا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: کارگل آپریشن پر بریفنگ دیتے ہوئے مجھے کچھ اور بتایا گیا تھا لیکن جب اس پر عمل کیا گیا تو یہ کچھ اور نکلا، اس طرح مجھے گمراہ کیا گیا۔ وہ ہمیشہ ایک ہی رٹ لگاتے چلے آ رہے ہیں کہ کارگل پر انہیں کسی قسم کی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔
اس پر مزید بات کرنے سے پہلے آپ 12 جولائی 1999ء کے ملکی اور غیر ملکی اخبارات سامنے رکھیں اور میاں نواز شریف کے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر قوم سے کیے گئے خطاب کے نکات ملاحظہ کریں، اس خطاب میں انہوں نے کارگل آپریشن کو بے مقصد قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سری نگر سے کارگل تک کسی بھی سڑک کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اپنی اس تقریر میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ کہی کہ بھارت نے تو سری نگر میں اپنی بحریہ بھی اتار دی تھی۔ (اس پر اس وقت عباس اطہر مرحوم نے ایک یادگار کالم تحریر کیا تھا جو آج بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے)
اگر انڈین نیشنل ہائی وے کا نقشہ سامنے رکھیں‘ جن کی ہمدردیاں آج کل پڑوسی ملک کے ساتھ ہیں‘ انہیں بھی دعوتِ عام ہے کہ بھارتی نقشہ دیکھ لیں، نظر آ جائے گا کہ سرینگر سے پہلگام اور زوجی لاہ سے کارگل کے درمیان سے گزرتی ہوئی سڑک لیہہ اور سیاچن تک جاتی ہے۔ اب سوچیں کہ کارگل جنگ کے موقع پر جب ساری دنیا کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پاکستان اور بھارت میں جمع تھا‘ پاکستان کا وزیراعظم قومی نشریاتی رابطے پر اپنی تقریر میں کارگل سے سرینگر تک کسی بھی سڑک کے وجود سے لاعلمی کا اظہار کر رہا تھا۔ میاں نواز شریف کی یہ تقریر سن کر دنیا سوچ رہی تھی کہ یہ ایک ایسے ملک کا وزیراعظم ہے جس کا اپنے قیام سے ہی اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ کشمیر کا تنا زع چلا آ رہا ہے، ایسا ملک جو اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ لیے بیٹھا ہے اور اس تنازع پر دونوں ملکوں کے مابین تین خوفناک جنگیں بھی لڑ ی جا چکی ہیں‘ اس ملک کے وزیر اعظم کو دشمن ملک کے جغرافیے کا تو چھوڑیں‘ کشمیر کے نقشے کا بھی علم نہیں ہے؟ نواز شریف کی بحیثیت وزیراعظم 12 جولائی 1999ء کی یہ تقریر سن کر واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز نے لکھا تھا ''کارگل پر تمام بھا رتی دعوے بے نقاب ہو گئے ہیں اور بھا رتی فوجی اب وہاں سے بھاگ رہے ہیں لیکن حیران کن طور پر پاکستان کی سویلین قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ لڑائی صرف پاکستانی فوج کی ہے اور حکومت شاید دوسرے فریق سے ملی ہوئی ہے۔ سینئر صحافی سہیل وڑائچ کو ''غدار کون؟‘‘ میں اپنے انٹرویو میں نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کلنٹن کی منت کر کے ملک کی عزت بچائی کیونکہ جنرل مشرف بے چین تھے کہ کسی طرح کارگل سے ان کی جان چھوٹ جائے اور میں نے واشنگٹن جا کر کارگل میں ملک کو شرمندگی سے بچایا۔ میاں نواز شریف کے ان الزامات کو جانچنے کیلئے مئی‘ جون اور جولائی 1999ء کے تمام غیر ملکی اخبارات، بی بی سی، سی این این اور وائس آف امریکا کی ریکارڈنگز پر مبنی رپورٹس پڑھ کر فیصلہ کر لیجئے۔
2 جون 1999ء کو نئی دہلی میں بھارت کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل وی پی ملک اور کور کما نڈر لیفٹیننٹ جنرل این سوئچ نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی فوج زیادہ عرصہ تک کشمیری مجاہدین اور پاکستانی فوج کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ کارگل میں بھارتی فوج کے ملٹری آپریشنل چیف جنرل جے جے سنگھ‘ جو بعد میں بھارت کے آرمی چیف بھی بنے‘ نے کہا کہ اب جنرل گرما (گرمی کا موسم) ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ بھارت کے اخبار ہندو گروپ کے میگزین فرنٹ لائن کی 18جون 1999ء کی ایک رپورٹ کے مطابق کارگل بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کا یہ بیان آن ریکارڈ ہے کہ کارگل سے بھارتی فوجیوں کے جو تابوت آ رہے ہیں‘ بھارت کا میڈیا اور بھارت کی جنتا انہیں گنتے گنتے تھک گئے ہیں۔ بھارت کی پندرھویں کور کے کمانڈر جنرل کرشن پال نے 16 مئی 99ء کو تسلیم کیا کہ پاکستانی ہمیں کارگل میں سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گارڈین لندن نے جولائی 99ء میں لکھا کہ پاکستانی بہادر قوم ہیں‘ بے خوف پاکستانیوں اور بددل بھارتیوں کو دیکھ کر پاکستان کے خلاف بزدلی اور بھارتیوں کی بہادری کے پروپیگنڈے کا اثر ختم ہو جا تا ہے۔ کارگل میں تعینات بھارتی فوج کے کرنل وکرم کا وہ پیغام‘ جسے وائس آف امریکا نے ساری دنیا میں نشر کیا تھا‘ میاں نواز شریف کے تمام جھوٹے الزامات کی مکمل نفی کرتا ہے، اس پیغام میں کرنل وکرم اپنے آپریشنل کمانڈر کو کہہ رہا ہے کہ سخت برف باری ہو رہی ہے اور تیز طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں جن کی وجہ سے ہم کوئی بھی چوٹی واپس لینے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ یہ چوٹیاں عمودی ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری بمبا ری سے ہمارے اپنے ہی فوجی نشانہ بن رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے 12جولائی کے خطاب کے بعد 16 جولائی 1999ء کو بی بی سی کی رپورٹ میں لکھا تھا ''فوجی لحاظ سے کارگل جنگ میں پاکستان کی کاکردگی شاندار تھی لیکن اس کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ سول حکومت اور اس کی وزارتِ خارجہ کی خاموشی سے فوج کو خارجہ محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘‘۔ سابق انڈین آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ اعتراف کرتے ہیں کہ جنرل مشرف اور بریگیڈیئر مسعود اسلم (بعد میں کور کمانڈر پشاور) 28 مارچ 1999ء کو لائن آف کنٹرول عبور کر کے گیارہ کلومیٹر بھارت کے اندر ذکریا پوسٹ پر رات گزار کر آئے جس کا ہمیں بعد میں علم ہوا۔
جب وزیراعظم عمران خان پاکستان میں موجودہ سیاسی گڑبڑ میں بھارت کے ساتھ اسرائیل کا نام لیتے ہیں‘ تو بہت سے لوگ اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں، حالانکہ اس کے پیچھے کارگل جنگ کے حقائق ہیں۔ہو سکے تو 7تا 9 فروری 2008ء کے تمام اخبارات اور بھارتی جریدے ''آئوٹ لُک‘‘ کو سامنے رکھیں جس میں بھارت میں اس وقت کے اسرائیلی سفیر مارک سوفر (Mark Sofer) اپنے انٹرویو میں کھل کر بتاتے ہیں کہ کارگل جنگ میں جب بھارت بے بسی سے ہاتھ پائوں مار رہا تھا تو ایسے میں اسرائیل اس کی مدد کو آیا، ''کارگل جنگ میں بھارت کی مدد کر کے ہم نے خود کو بھارت کا سچا اور مخلص دوست ثابت کیا‘‘۔ بھارتی ایئر مارشل رگوناتھ Nambiar کا بیان بھی آن ریکارڈ ہے کہ اسرائیلی فضائیہ نے کارگل میں بھارت کی مدد کی تھی۔
آج تک کسی نے نواز شریف سے سوال کیا کہ جب اسرائیل کی مدد کے باوجود دنیا بھر کا میڈیا اور بھارتی کمانڈرز چیخ چیخ کر کارگل میں بھارت کی شکست اور تباہی کا اعلان کر رہے تھے تو پھر پاکستان کی کارگل سے جبری پسپائی کیوں کرائی گئی؟ یہ کس کے حکم پر ہوئی؟ جب کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) اور حوالدار لالک جان شہید (نشانِ حیدر) جیسے جانباز اپنے ساتھیوں کے ساتھ ترتوک، جیڑی، راہتاں والی، کھیت، جنگلا اور جندر پوسٹوں پر دادِ شجاعت دے رہے تھے تو کس نے کارگل سے پسپائی کا حکم دیا؟ یہ بھی بتائیے کہ کس نے قومی اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کیلئے امریکا کے اخبارات میں لاکھوں ڈالرز خرچ کرتے ہوئے اشتہارات شائع کرائے تھے؟ آج جو لوگ کارگل کے حوالے سے قوم کو گمراہ کرنے کیلئے جھوٹے افسانے سنا رہے ہیں ان کے پاس ان تمام تاریخی حوالوں اور شواہد کا کوئی جواب ہے؟