"MABC" (space) message & send to 7575

ووٹ کی عزت کا مقدمہ!

گوجرانوالہ جلسے کے بعد ایوب سٹیڈیم کوئٹہ میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں ووٹ کی عزت کی آڑ میں شریف فیملی نے کھل کر اپنے بغض کا اظہار کیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ووٹ کی عزت کا خیال اس وقت تک ان کے گلے میں اٹکا رہا جب تک سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی معرفت ''منت سماجت‘‘ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ نہ گئی۔ ''ووٹ کی عزت‘‘ اور اصول پسندی کی آڑ میں اربابِ بست و کشاد کی چوکھٹ پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے انہیں پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ اُس وقت ''ووٹ کی عزت‘‘ کہاں تھی جب فرمانبردار رہنے کی یقین دہانیاں کراتے ہوئے معافی کی درخواستیں پیش کی جا رہی تھیں؟ اگر آپ اتنے ہی آئین کے پابند تھے تو کسی منتخب آئینی عہدیدار یا وزیراعظم سے ملاقات اور یہ درخواست کیوں نہ کی؟
وزیر اطلاعات پنجاب (اب سابق) فیاض الحسن چوہان نے چند روز ہوئے‘ لاہور میں اپنی ایک پریس کانفرنس میں ''سابق صدر آصف علی زرداری کے نجی ٹی وی کے اینکر (ارشد شریف) کو دیے گئے ایک انٹرویو کی جھلکیاں میڈیا کو دکھائیں‘ جو ابھی تک میڈیا میں زیر بحث ہیں۔اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر میاں نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ نون سمیت پیپلز پارٹی سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر اس انٹرویو میں سابق صدر آصف علی زرداری کی کہی گئی باتیں سچ ہیں تو ملکی ادارے اس انٹرویو کی بنیاد پر نواز شریف کے خلاف کوئی قانونی اقدام کیوں نہیں کرتے اور اگر یہ الزام جھوٹے اور من گھڑت ہیں تو پھر نواز لیگ اور شریف فیملی آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں کرتی؟ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ مختلف سیا سی اور حکومتی شخصیات اپنے انٹرویوز میں اپنے سیاسی مخالفین پر الزامات کی بارش کرتی رہتی ہیں لیکن جب صدرِ مملکت کے اہم ترین آئینی و ریاستی عہدے پر فائز شخص باقاعدہ نام لے کر کہے کہ فلاں شخص ملک توڑنے کی سازشیں کر رہا ہے تو یہ بات معمولی نہیں رہتی۔ ہمارے عوام جاننا چاہیں گے کہ اس سازش کیلئے اُس شخصیت کو اندرون اور بیرونِ ملک کس کس کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ آصف علی زرداری نے اپنے تہلکہ خیز انٹرویو میں جب اس سازش کا ذکر کیا تو ان کے سامنے بیٹھا اینکر چونک گیا،بے یقینی کی کیفیت لئے حیرت زدہ ہو کر اس نے پوچھا : جنابِ صدر! آپ بہت بڑی بات کہہ رہے ہیں‘ اس ملک پر تین مرتبہ حکومت کرنے والے وزیراعظم اور پانچ مرتبہ پنجاب پر راج کرنے والوں کو سازش کا حصہ بتا رہے ہیں؟ اس پر آصف علی زرداری نے کہا کہ میں الزام نہیں لگا رہا بلکہ (شواہد کی بنا پر) کہہ رہا ہوں کہ نواز شریف بھارت کے ساتھ مل کر یہ گیم کھیل رہا ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی میں جو کچھ ہوا‘ اس کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے تک میں اپنے پاس موجود خبر عوام سے شیئر نہیں کروں گا لیکن ''ووٹ کی عزت‘‘ اور آئین کی حکمرانی کا رونا رونے سے پہلے سابق صدرآصف علی زرداری کے اس انٹرویو پر بات کر لیجئے جس میں وہ ایک اہم سیاسی شخصیت پر سب سے بڑی فردِ جرم عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ملک کے خلاف منصوبے پر کا م کر رہی تھی۔ یہ ویڈیو یقینا ہر میڈیا ہائوس کے پاس محفوظ ہو گی‘ساتھ ہی سول سوسائٹی کے بہت سے لوگوں اور اداروں کے پاس بھی یہ ریکارڈنگ موجود ہو گی، اس میں زرداری صاحب کے ایک ایک لفظ کو بار بار سنا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری، محمود اچکزئی اور مسلم لیگ نواز کے رہنما اور دیگر پی ڈی ایم لیڈر کہتے ہیں کہ وہ مل کر ووٹ کی چوری کا مقدمہ لڑیں گے۔ بالکل! قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ اب ووٹ کی چوری اور اس سے مستفید ہونے والوں کو آئین و قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور بتایا جائے کہ وہ کون سے سیاستدان ہیں جو آج تک عوام کے حق پر ڈاکا مارتے آئے ہیں۔ 
اگر 1977ء سے ووٹ چوری کی تحقیقات شروع کی گئیں تو اس سے بہت وقت ضائع ہو گا ۔ ووٹ چوری کے سلسلے کو 1990ء کی دہائی سے بھی نہیں شروع کرتے جب بے نظیر بھٹو کی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے ایک نامور غیر ملکی شخصیت نے فنڈزفراہم کیے تھے اور جب ملک میں چھانگا مانگا سیاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔حالانکہ یہ تمام واقعات ''ووٹ کی حرمت‘‘پامال کرنے کا سبب بنے؛ تاہم ہم بات کرتے ہیں 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات کی۔ ویسے اگر آئی جے آئی کی تخلیق اور اعلیٰ عدلیہ کی راہداریوں میں مرحوم ایئر مارشل اصغر خان کے پندرہ برس تک کھائے جانے والے دھکوں کو احترام مل جاتا تو آج جاتی امرا سے یہ صدا بلند کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اگر انتخابات میں ووٹ چوری کے مرتکب لوگوں کو پہلی ہی سزا مل چکی ہوتی تو آج ملک میں انتشار پھیلانے والے نہ صرف سیاست اور قیادت کرتے نظر نہ آتے بلکہ آئین پاکستان کے تحت نشانِ عبرت بن کر کہیں حیرت و حسرت کی تصویر بنے بیٹھے ہوتے۔
میاں نواز شریف کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ''ووٹ چوری‘‘ کے مقدمے کی ابتدا ابھی سے کر دیتے ہیں اور اس کیلئے فردِ جرم اور ضمنیوں میں جن گواہان کی فہرست شامل کر رہا ہوں ان میں اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، اعتزاز احسن، اسفند یار ولی خان، آفتاب شیر پائو اور مولانا فضل الرحمن جیسی قابل احترام سیاسی شخصیات شامل ہیں۔ جن معزز حضرات کے ناموں کا حوالہ دیا ہے ان سب کے مئی 2013ء کے انتخابات کی شفافیت پر تحفظات کے حوالے سے بیانات ریکارڈ کا حصہ بن کر ملک بھر کے میڈیا ہائوسز کے آرکائیوز میں موجود ہیں۔ ان تمام لیڈران نے کھل کر مئی 2013ء میں ہونے والے انتخابات کے نتائج‘ جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز برسراقتدار آئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے‘ کو جعلی اور مشکوک قرار دیا اور یہ بیانات روایتی یا سرسری یا ایک آدھ دن کیلئے نہیں تھے بلکہ اگست 2014ء میں جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا شروع ہوا‘ اس وقت تک تسلسل سے دیے جاتے رہے۔ اس حوالے سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کا ریکارڈدیکھا جا سکتا ہے۔ ووٹ چرانے اور جعلی انتخابات کی فردِ جرم عائد کر کے بددیانتی کا سرٹیفکیٹ دینے والی ایک اہم ترین شخصیت اس وقت کے صدر بھی ہیں۔ گیارہ مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو اس وقت کے صدرِ مملکت نے انتخابات کے تیسرے روز لاہور بلاول ہائوس میں سینئرمیڈیا پرسنز سے بات چیت کرتے ہوئے ان نتائج کو شفاف قرار دینے کے بجائے کہا تھا ''یہ ریٹرننگ افسران (آر اوز)‘‘ کا الیکشن تھا۔
ووٹ کی مبینہ چوری کا اس مقدمے میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی گواہی بھی شامل کرتے ہوئے ان کی اُس پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ اور اخبارات میں شائع بیانات لف کئے جائیں‘ جن میں وہ 2008ء کے انتخابات کی حقیقت میڈیا کو بتا رہے ہیں کہ ایک اہم ملک کے نائب صدر اور پاکستان میں اس ملک کے سفیر نے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران کسی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا تھا کہ آپ اگر یہ انتخابات جیت گئے تو بھی آپ کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ان تمام گواہیوں اور ثبوتوں کے ساتھ بسم اللہ کیجئے‘ دیر کس بات کی؟ ووٹ کی عزت کا مقدمہ درج کرائیے تاکہ پتا چل سکے کہ کون تھا جس نے پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے رقم وصول کی، کیوں2008ء کے انتخابات میں انٹرنیشنل لابی انہیں کامیاب کرانا چاہتی تھی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں