"MABC" (space) message & send to 7575

بھارت کے وکیل؟… (2)

میاں نواز شریف نے 26/11 کے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان سے گئے ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ پر عائد کرتے ہوئے عالمی سطح پر بھارت کی جو وکالت شروع کر رکھی ہے‘ اس کو نمک مرچ لگانے کے علاوہ انہوں نے اپنے ہر جلسے، پریس کانفرنس اور وڈیو خطاب میں ملکی اداروں کی تضحیک کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ اپنے عوامی جلسوں میں وہ کارگل کے معرکے کو ایک شکست کی کہانی بنا کر پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کارگل میں شکست سے بچانے کے لئے امریکی صدر بل کلنٹن کو بڑی مشکل سے راضی کیا تھا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دینے سے پہلے وہ کارگل جنگ کے دوران بھارتی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی جاری کردہ رپورٹ منگوا کر ایک دفعہ غور سے اس کا تفصیلی مطالعہ کر لیتے جس میں واضح لکھا ہوا ہے کہ ''انڈین آرمی کو سب سے بڑی مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ بھارت کے پاس وہ ریڈار ہی نہیں تھے جن سے ہم پاکستان کی ان توپوں کی لوکیشن معلوم کر کے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کرتے جو ہم پر مسلسل گولہ باری کرتے ہوئے فوج کو سخت نقصان پہنچا رہی تھیں‘‘۔ لیفٹیننٹ جنرل کرشن پال‘ جو کارگل جنگ کے دوران 15th کور کے کمانڈر تھے‘ کا 4 جون 2010ء کو NDTV کو دیا جانے والا انٹرویو شریف فیملی کو ایک بار پھر سن لینا چاہیے جس میں جنرل کرشن یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کو کارگل کی جنگ میں شکست ہوئی۔ جنرل کرشن کے الفاظ تھے ''ہم نے کارگل جنگ بالکل نہیں جیتی بلکہ India lost Kargil war‘‘۔
کارگل جنگ کے دوران بھارت کے وائس چیف آف آرمی سٹاف کی رپورٹ کا بھی اس حوالے سے مطالعہ بہت سے حقائق بیان کر سکتا ہے، ''ہم دشمن کے زیر قبضہ آنے والی کارگل کی تمام چوٹیاں واپس لینے میں نا کام رہے‘‘۔ جنرل پدمنا باہن‘ جو بعد میں بھارت کے آرمی چیف بھی مقرر ہوئے‘ کا ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کو دیا جانے والا تحریری جواب ملاحظہ کیجئے ''Our most of the small arms were without Passive night sights‘‘۔ انڈین فوج کو کارگل میں جس طرح دبوچ کر مفلوج کیا گیا‘ اس پر داد دینے کے بجائے قوم کو بھارتی بیانیہ سنایا جا رہا ہے کہ بل کلنٹن کی مدد سے کارگل سے فوج کو نکالا گیا۔
خدا آپ کو ملکی وقار اور سربلندی کیلئے کبھی سچ بولنے کا موقع دے تو کارگل جنگ کے وقت انڈین آرمی چیف جنرل وی پی ملک کے کارگل ریویو کمیٹی کے سامنے دیے گئے اس بیان کو غور سے پڑھئے گا جس میں بھارت کے آرمی چیف جنرل ملک نے کہا ''دشمن کے مقابلے میں ہماری یہ حالت تھی کہ کارگل میں ہتھیاروں کے علاوہ ہمارے پاس گولا بارود کی بھی بے حد کمی ہو چکی تھی‘ لاجسٹک کہیں پر کم تھی تو کہیں پر انتہائی پرانی اور نا کارہ ہو چکی تھی اور وہاں موجود ہمارے فوجی وہیکلز کیلئے پٹرول نہ ہونے کے برابر تھا اور پھر یہ بھی ہوا کہ پٹرول کے علاوہ گریس اور ان کے انجنوں کیلئے درکار انتہائی ضروری Lubricants بھی ختم ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے‘‘۔
دفاعی اکابرین سے متعلق نون لیگ اور ان کے 'ہمنوا دانشور‘ جو کہتے پھرتے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘ ان کی اہلیت کا ثبوت ملکی سرحدوں کا ناقابلِ تسخیر دفاع ہے کہ کے جی بی‘ را‘ موساد اور خاد سمیت درجن سے زیادہ عالمی خفیہ ایجنسیاں ہر وقت پاکستان کی تاک میں رہتی ہیں مگر ان سب کو اس طرح چکرا کر رکھ دیا کہ کارگل کے راستے سیاچن میں دشمن کی فوجوں کی رسد اور سپلائی قبضے میں لے کر انہیں بے بس کرنے کیلئے 'آپریشن البدر‘ کیا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دی۔ را سمیت ان تمام عالمی ایجنسیوں کو اس آپریشن کی خبر اس وقت ہوئی جب وہاں پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ کارگل اور بٹالک میں تعینات بھارتی فوج کے بریگیڈیئر دیپک کپور‘ جو بعد میں بھارت کے آرمی چیف بھی بنے‘ کے وزارتِ دفاع اور وزیراعظم کو لکھے گئے خط‘ جو انہوں نے کارگل ریویو کمیٹی میں بھی پیش کیا‘ لکھا تھا ''انڈین فوج کی لاجسٹک سپورٹ ختم ہونے کی خبر پاکستان تک پہنچ چکی تھی‘‘۔ اب خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ ایسی جنگی صورتِ حال میں کس کا پلڑا بھاری تھا؟ کسے ضرورت تھی کہ کلنٹن کے ترلے کرتا کہ ہماری عزت بچائو؟
کبھی وقت ملے تو جنرل وی پی ملک کی کارگل پر لکھی گئی کتاب'' کارگل: فرام سرپرائز ٹو وکٹری‘‘ کے صفحہ 288 پر ان کا اعتراف پڑھ لیجئے گا :
Beside weapons and equipment the ammunations reserves for many important weapons were low
بھارتی حکومت کی قائم کی گئی ''کارگل ریویو کمیٹی‘‘ میں پاکستانی فوج کے جرنیلوں کی ذہانت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا ''ہمیں سب سے بڑا دھچکا‘ جو دشمن ملک کی فوج سے ملا‘ اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے‘ وہ یہ کہ کارگل کا یہ سیکٹر ایک عرصے سے خاموش جا رہا تھا یہاں سے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی سرحد پار سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش نہیں کی گئی‘ اس لئے ناردرن کمانڈ اس طرف سے زیادہ الرٹ نہیں تھی اور شدید برف باری اور منفی 30 جیسی سردیوں میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘‘۔
معرکہ کارگل یہ متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کارگل جنگ میں پاکستان تنہا ہو گیا تھا۔ کاش کہ وہ دیکھ سکتے کہ جیسے ہی معرکہ کارگل شروع ہوا‘ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے کارگل سے ملحقہ صوبے لداخ میں 'ٹرگ ہائٹس‘ کے اُس علاقے میں سڑک کی تعمیر شروع کر دی جسے بھارت متنازع سمجھتا ہے، اس طرف سے کسی ممکنہ خطرے کو روکنے کیلئے بھارتی صوبے ارونا چل پردیش کے مغربی جانب کیمنگ ضلع میں جمہوریہ چین نے Pro-Active فورس تعینات کر دی اور پھر چند روز بعد ہی چینی فوج نے اس حصے میں اپنی پہلے سے موجود نفری کو دوگنا کر تے ہوئے اسے مشرقی لداخ میں دمچوک کے گرد تعینات کر دیا جس سے بھارت بلبلا کر مدد کے لیے پکارنے لگا۔ سب کو علم ہے کہ کلنٹن کی منتیں اور ترلے پاکستان کیلئے نہیں بلکہ واجپائی اور بھارتی فوج کو کارگل میں مزید تباہی سے بچانے کیلئے کیے گئے تھے ۔
کارگل میں بھارت کے ساتھ کیا ہوا، اس کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ بھارت پوری عالمی برادری میں مدد مدد کے لیے چلا رہا تھا‘ ایسے وقت میں اسرائیل‘ جس کے اس وقت بھارت سے خاص تعلقات نہ تھے‘ آگے آیا اور اسرائیلی فضائیہ نے بھارتی فوجیوں کو کارگل میں ریسکیو کیا۔ بھارت میں اسرائیلی سفیر‘ مارک سوفر نے ہندوستان ٹائمز اور آئوٹ لک کو انٹرویو دیتے ہوئے خود تسلیم کیا تھا ''کارگل جنگ میں ہم نے بھارت کی مدد کر کے خود کو بھارت کا سچا دوست ثابت کیا، کارگل میں اسرائیل کی مدد نے جنگ کا پانسہ پلٹا اور ہم نے ثابت کیا کہ دوست وہ ہے جو مصیبت میں کام آئے‘‘ اسرائیلی سفیر کا یہ انٹرویو فروری 2008ء کو پاکستان کے مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا جبکہ اس کی تصدیق بھارتی ایئر مارشل رگوناتھ Nambiarنے بھی ایک بیان میں کی تھی کہ اسرائیلی فضائیہ نے کارگل میں بھارت کی مدد کی تھی۔ بھارتی بحریہ کے اس وقت کے ایڈ مرل وشنو بھگت کی کتاب کا یہ جملہ کارگل کے سارے معرکے کو چند لفظوں میں بیان کر دیتا ہے کہ ''بھارتی حکومت نے بل کلنٹن کو در خواست کی تھی کہ پاکستان پر دبائو ڈالے تاکہ وہ کارگل کی چوٹیوں سے اپنی فوج واپس بلائے‘‘۔ اب یہ جاننا قطعاً مشکل نہیں رہتا کہ بل کلنٹن کے سامنے پاکستان کی وکالت کی گئی یا بھارت کی۔ آج جسے دیکھو‘ وہ اپنے اندر کا گند وطن عزیز کی خاطر قربانیاں دینے والی افواج پر پھینکتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں فوج کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ سر ونسٹن چرچل نے شاید ایسے ہی لوگوں کو فوج سے متعلق بتاتے ہوئے خبردار کیا تھا:فوج کسی محدود ذمہ داری کی کمپنی کی طرح نہیں ہے جس کی تشکیلِ نو، دوبارہ تعمیر ہر ہفتے کی جا سکے نہ ہی یہ مکان کی طرح کوئی بے جان چیز ہے جس میں مالک اپنی ضرورت کے تحت ساختی رد و بدل کر سکتا ہے، یہ ایک زندہ چیز کی مانند ہے‘ جو محسوس کرتی ہے‘ جو جذبات رکھتی ہے‘ جسے بنانے اور قائم کرنے میں کئی دہائیوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں