29 جولائی 1993ء کے معاہدے کے بعد کام کا آغاز ہوا اور جیالوجیکل سروے اور ڈرلنگ کے بعد آسٹریلین مائننگ کمپنی کے مطابق‘ دوسال میں سات ملین ڈالر خرچ ہوئے لیکن نجانے کیا ہوا کہ 1996ء میں اس پروجیکٹ پر گہری خاموشی چھا گئی، جو چھ سال پر محیط رہی اور چھ سال بعد ایک بار پھر مارچ 2002ء میں بی ایچ پی کو پراسپیکٹنگ لائسنس دیا گیا جسے چاغی ہل ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر کے تحت ''ریکوڈک لائسنس‘‘ کا نام دیا گیا لیکن اس لائسنس کے اجرا کے وقت بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جگہ حکومت بلوچستان نے خود کو معاہدے میں آسٹریلین کمپنی کے ساتھ پارٹنر درج کرانا چاہا جس پر اختلافات پیدا ہو گئے اور معاملات عدالتوں تک جا پہنچے۔ اسی دوران جب مالی معاملات تشویش کن صورت اختیار کر گئے توکچھ عرصہ بعد بی ایچ پی نے آسٹریلیا کی ہی ایک اور کمپنی ''منکور ریسورسز آسٹریلین این ایل‘‘ کو اپنے ساتھ شامل کر لیا جس نے ریکوڈک پروجیکٹ پر ساڑھے تین ملین ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا اور این ایل کمپنی نے ایک تیسری کمپنی ''ٹی تھتیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی)‘‘ کو اپنا سب پارٹنر بنا لیا اور اپریل 2002ء میں ٹی سی سی اور بی ایچ پی میں اس معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو گئے، دوسرے لفظوں میں اس طرح ریکوڈک پروجیکٹ پر ابتدائی کام کرنے والی آسٹریلین کمپنی بی ایچ پی کا عمل دخل تقریباً ختم ہو گیا اور ٹی سی سی چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ریکوڈک ایکسپلوریشن لائسنس کے75فیصد کی مالک بن گئی لیکن ٹی سی سی نے وہی خرگوش والی رفتار اختیار کی جو بی ایچ پی آسٹریلیا نے 1994ء سے اختیار کر رکھی تھی جبکہ 2002ء میں ٹی سی سی‘ بلوچستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے طے پانے والے معاہدے کی رو سے 2006ء تک ہر قسم کی فزیبلٹی سٹڈی سمیت سونے اور کاپر کی پیداوار دینے کی پابند تھی لیکن وہ اپنی اس کمٹمنٹ میں نا کام رہی۔ 2006ء میں جب ٹی سی سی نے ریکوڈک سے پروڈکشن شروع کرنا تھی تو ایک نیا کھیل اس طرح شروع کر دیا گیا کہ اندرونِ خانہ مائننگ کی دنیا کی سب سے مشہور کمپنیوں چلی کیAntofagasta اور کینیڈا کیBarrick Gold Corporation نے ٹی سی سی کے تمام حقوق حاصل کر لیے اور یہ حقوق حاصل کرتے ہی ان کمپنیوں نے اعلان کر دیا کہ ٹی سی سی کی تیار کردہ فیزیبلٹی رپورٹ اور اب تک اس نے جوکام مکمل کیا ہے‘ اس کے بجائے ہم آزادانہ کام کرتے ہوئے تیس ملین ڈالر کی لاگت سے نئے سرے سے کام کریں گے اور اب تک تیار کر دہ فزیبلٹی رپورٹ اور کیے گئے کام سے ہمارا کوئی تعلق اور سروکار نہ ہو گا۔ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ بی ایچ پی اور ٹی سی سی نے اب تک جو کام کیا ہے‘ معاہدے کے مطابق حکومت بلوچستان اس کا 25 فیصد ادا کرے اور وہی کام جو اب چلی اور کینیڈا کی یہ دو کمپنیاں کریں گی‘ اس کا بھی پچیس فیصد وصول کیا جائے۔
حقیقت یہ تھی کہ ٹی سی سی ان کمپنیوں کو رپورٹ دے چکی تھی کہ ریکوڈک میں وسیع پیمانے پر کاپر اور سونے کے ذخائر کے علاوہ انتہائی قیمتی اور نایاب دھات Molybdenum کے بھی بے تحاشا ذخائر پائے گئے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ٹی سی سی نے یہ رپورٹ کبھی بھی حکومت بلوچستان کو فراہم نہیں کی تھی دنیا کی یہ بیش قیمت اور جوہری اسلحے کی تیاری میں استعمال ہونے والی نایاب دھات بھی ریکوڈک میں موجود ہے۔ حکومت بلوچستان اگلے تین سال خوابِ غفلت کا شکار رہی جبکہ نئی داخل ہونے والی دونوں کمپنیوں نے نئی فزیبلٹی رپورٹ کے نام پر بھاری اخراجات پیش کر دیے اور 2008ء میں حکومت کو رپورٹ کی تیاری کی مد میں خرچ ہونے والے 220 ملین ڈالر کا بل تھما دیا۔ یہ بل پیش ہوا تو یکایک حکومت بلوچستان کو خیال آیا کہ 1993ء میں یہ معاہدہ ہوا تھا اور آج اسے15 سال ہو گئے ہیں، اب تک ہمیں صرف کروڑوں ڈالروں کے بل دکھائے گئے ہیں لیکن پروجیکٹ وہیں کا وہیں رکا ہوا ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ 'کچھ طاقتیں‘ نہیں چاہتیں کہ گوادر پورٹ کی طرح بلوچستان کے سونے، قیمتی تانبے اور دوسری بیش بہا معدنیات پر پڑا ہوا دبیز پردہ ہٹایا جائے۔
حساس اداروں نے ملکی سلامتی اور موجودہ معاشی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا کہ قدرت کی طرف سے عطا کیے گئے ان ذخائر پر بھرپور توجہ دی جائے جس پر بلوچستان کی کابینہ نے متفقہ طور پر 24 دسمبر 2009ء کو فیصلہ کرتے ہوئے ریکوڈک پروجیکٹ پر سنجیدگی سے کام کرنے کیلئے ایک بورڈ آف گورنر تشکیل دیا جس کی سربراہی ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو سونپ دی گئی۔ اب تک ریکوڈک میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طر ف سے جو دو بنیادی غلطیاں کی گئی تھیں ان میں ٹی سی سی کو آسٹریلین سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہونے کی اجازت اور ایکسپلوریشن لائسنس کی بار بار تجدید شامل تھیں۔ اس کے بجائے بلوچستان حکومت کو چاہئے تھا کہ جب ''منکور کمپنی‘‘ ٹی سی سی کو ریکوڈک معاہدے کے مکمل اختیارات منتقل کر رہی تھی تو بجائے آسٹریلین سٹاک ایکسچینج کے‘ اسے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہونے کا پابند کیا جاتا لیکن نااہلی کہہ لیجئے یا مصلحت پسندی کہ ٹی سی سی کی غیر ملکی سٹاک ایکسچینج کی رکنیت کی وجہ سے حکومت بلوچستان اس پر کسی بھی قسم کا دبائو ڈالنے کے حق سے محروم ہو گئی۔ ٹی سی سی کا کہنا تھا کہ جب بی ایچ پی آسٹریلیا نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کیا تو اس نے حکومت بلوچستان کو آگاہ کر دیا تھا کہ معاہدے کے مطابق ان کے 75فیصد حکومت بلوچستان حاصل کر لے لیکن حکومت نے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے معذوری ظاہر کر دی جس پر یہ حقوق ٹی سی سی کو منتقل ہو گئے جسے بلوچستان ہائیکورٹ بھی کنفرم کر چکی تھی۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ 2000ء میں جب اس معاہدے کی تجدید ہو رہی تھی تو حکومت کی طرف سے ایک شق یہ رکھی گئی کہ اگر کمپنی اپنے مالی حقوق کسی دوسری کمپنی کو منتقل کرے گی تو حکومت بلوچستان کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے مالی حصے کو بھی بڑھا سکے گی لیکن جب ٹی سی سی نے اپنے حقوق چلی اور کینیڈا کی کمپنیوں کو منتقل کئے تو کسی نے بھی اس طرف دھیان دینے کی کوشش نہیں کی۔ ٹی سی سی کی بیلنس شیٹ دیکھیں تو ان کے مطابق مارچ 2010ء تک وہ 400 ملین ڈالر اس پروجیکٹ پر خرچ کر چکی تھی جس میں 130ملین روپے اس نے صرف اس علاقے کی بہتری اور دوسری سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کرنے کے علاوہ 19ملین ڈالر حکومت بلوچستان کو مختلف ٹیکسوں کی صورت میں ادا کیے تھے۔
2008ء میں ریکوڈک میں 76بلین ڈالر کے ذخائر تھے جو عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے بڑھنے سے اب 450 بلین ڈالر مالیت کو پہنچ چکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اگلے چند سال میں عالمی تجارتی لین دین میں ڈالر کے بجائے سونا ''متبادل کرنسی‘‘ کے طور پر سامنے آنے کا امکان ہے اور جن کے پاس سونے کی بہتات ہو گی‘ وہی 'مضبوط‘ ہو گا۔ اس کے علا وہ ریکوڈک میں دنیا کی ایک انتہائی قیمتی اور نایاب دھات Molybdenum کے بیش بہا ذخائر کی موجودگی کی توثیق ہو چکی ہے اور جیسے ہی اس دھات کے بارے میں خبر چند مغربی ممالک تک پہنچی تو فوری طور ہر اس منصوبے کو بریک لگانے کے احکامات جاری ہو گئے اور یہ بریک دراصل اس منصوبے کو نہیں بلکہ اس ملک کو قدرت کے طرف سے عطا کئے گئے ان خزانوں پر لگائی گئی جن کے باہر آنے سے یہ خطہ اقوام عالم کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچ سکتا تھا اور اسے کسی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا عالمی مالیاتی ادارے کی ضرورت نہیں رہنی تھی۔ وہ ایک خاص اور نایاب دھات‘ جس کی خبر نے امریکا، بھارت، اسرائیل سمیت چند دوسرے ممالک کو ہلا کر رکھ دیا‘ کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ یہ وہ ہے جو ایئر کرافٹ، میزائل اور سپیس انڈسٹریز میں استعمال ہوتی ہے۔ (ختم)