اپنے ہی گھر اور اپنے محلے میں خود پر ایشیا کی ریجنل طاقت کا وہ غلاف‘ جو بھارت نے ایک عرصہ قبل عالمی فورمز، تھنک ٹینکس اور کروڑوں ڈالروں کی بارش سے رام کئے ہوئے میڈیا کے ذریعے خود پر چڑھا رکھا تھا‘ مئی کے ایک روشن دن گلوان میں چین کی پی ایل اے (پیپلز لبریشن آرمی) کے مارشل آرٹس کے دائو نے ایک لمحے میں تار تار کر کے اتار دیا۔ بھارت جو نہایت غرور سے کمزور قوموں کو آنکھیں دکھانا اپنا فرض سمجھتا تھا، چین کی ہلکی سی ضرب سے گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں اس طرح گرا جیسے کوئی شرارتی بچہ ہلکی سی چپت لگا کر بھاگ جائے مگر جب گرفت میں آئے تو پائوں پکڑ کر معافی مانگنے لگے۔ چین کی ایک چپت کا نتیجہ یہ نکلا کہ کل تک نیپال، میانمار، بنگلہ دیش، مالدیپ اور بھوٹان جیسے ننھے ممالک‘ جنہیں بھارت کے سامنے سر اٹھانے کی اجا زت نہیں تھی‘ بھی اب بھارت کا منہ چڑانا شروع ہو گئے ہیں۔ نریندر مودی جیسا بڑھک باز جو بیک وقت چین اور پاکستان کو زیر کرنے کے دعوے کیا کرتا تھا، اب چین کی جانب دیکھنا تو بہت دور کی بات‘ ایک قدم بھی اس کی جانب بڑھانے سے ڈر رہا ہے۔
گلوان میں بھارت کی روایتی بزدلی سے امریکا اور اس کے اتحادی جان گئے ہیں کہ چین کے مقابلے میں بھارت ان کیلئے کار آمد نہیں ہے کیونکہ وہ صرف اپنے سے چھوٹے ممالک کو ہی دھمکا سکتا لیکن چین کے خلاف وہ کبھی بھی میدان میں نہیں اترے گا۔ امریکا نے سی پیک روکنے کیلئے بھارت کو اپنے دوستوں اور اتحادیوں سے مہیا کرائے جانے والے جدید اور تباہ کن اسلحے کے لالی پاپ دیے مگر ان سب کے باوجود چین سے مقابلے کے لیے سوائے میڈیا ٹرائل کے‘ بھارت کی ہمت جواب دے چکی ہے اور اب وہ امریکی شہ کے با وجود آگے بڑھنے سے خوف زدہ ہے کہ اس کی سرجیکل سٹرائیک کی بڑھکیں صرف پاکستان تک ہی محدود ہیں۔ اب تو تمام تھنک ٹینکس، دفاعی تجزیہ کار اور ماہرین برملا یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ سی پیک کی وجہ سے چین کا خوف بھارت کو پاکستان کی جانب ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھنے دے گا۔ اس کا اظہار 22 نومبر کو چین نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ سی پیک کی مخالف ہر قوت کو چینی حکومت اپنی مخالف سمجھے گی اور سی پیک روٹ پر حملہ چین پر حملہ تصور کرے گی۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ نریندر مودی اور جنرل بپن راوت گلگت بلتستان کو نشانہ بنانے کیلئے بڑی سنجیدگی سے پر تول رہے تھے لیکن پاکستان اور چین‘ دونوں کو بھارت کی اس تیاری کا علم تھا۔ قبل اس کے بھارت کوئی حرکت کرتا‘ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے آگے بڑھ کر بھارت کی دم پر ہی پائوں نہیں رکھا بلکہ پوری شدت سے بھارت کی گردن بھی ایسی دبوچی کہ مودی ٹولے کی چیخیں دنیا کے تمام براعظموں میں سنی گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈین آرمی کی تمام تر خفیہ تیاریاں پاکستان کے خلاف تھیں لیکن چین نے راستے میں ہی اسے آن پکڑا اور ایسے پکڑا کہ جنرل منوج اور جنرل بپن راوت سمیت مودی اور امیت شاہ سمیت سب خوف سے کانپنے لگے۔ ہندوستان ٹائمز نے اپنے 9 جولائی کے شمارے میں اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت جملہ لکھا تھا: China is smiling۔
گلوان اور اس کے اردگرد فوجی اہمیت کی حامل چوٹیوں پر چین کے قبضے کے بعد نریندر مودی اور اس کے سکیورٹی مشیروں کی خصوصی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ لداخ میں چین سے کسی بھی جنگ سے گریز کیا جائے اور چین جہاں تک آ چکا ہے‘ اس پر عسکری قیادت سمیت سب کی جانب سے خاموشی اختیار کی جائے لیکن ملک کے اندر انتہاپسند ہندو ووٹرز کوقابو میں رکھنے کیلئے میڈیا پر کارگل کی طرح کا ''وجے وجے‘‘ پروپیگنڈا بڑھا دیا جائے، یا اس قسم کا تاثر عام کیا جائے کہ بھارت کے آگے بڑھنے پرچین ڈر کر خود ہی بھاگ گیا۔ مودی کا زر خرید میڈیا‘ جس پر اب ٹائمز جیسے بین الاقوامی میگزین کارٹون شائع کر رہے ہیں‘ گزشتہ دو ماہ سے کاغذی محاذ آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے کہ بھارتی سینا نے پی ایل اے کے بونوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے جبکہ دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں کہ چین اب بھی اسی جگہ کھڑا انڈین آرمی کی جھکی گردنوں کو دیکھ کر مسکرائے جا رہا ہے۔ عالمی میڈیا تو بر ملاکہہ رہا ہے کہ چینی فوج اب 1959ء کی پوزیشن پر کھڑی ہو ئی ہے نہ کہ 1962ء کی LAC پر۔
آج بھی چین کا گلوان وادی میں فنگر 4 پر قبضہ اسی طرح بر قرار ہے اور صرف چودہ، پندرہ اور سترہ فنگر سے وہ ایک کلو میٹر پیچھے آنے پر رضامند ہوا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ 70 برسوں سے جن علاقوں کا بھارت خود کو واحد مالک سمجھتا چلا آ رہا تھا‘ اب اس نے چین کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنی فوج اور فوجی پوسٹوں کو وہاں سے بھی ایک کلو میٹر پیچھے بلا لیا ہے۔ یہی چین کی وہ فتح ہے جس پر بھارت کے دفاعی تجزیہ کار اور انڈین آرمی کے ریٹائرڈ جرنیل مودی، بپن راوت، امیت شاہ اور اجیت دوول پر بری طرح برس رہے ہیں کہ ان کا دماغی خلل بھارت کو کسی بہت بڑی مصیبت میں دھکیل سکتا ہے۔ بھارتی فوج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت اور آرمی چیف جنرل منوج مُکُند نے وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ لداخ اور جعلی فوجی ہسپتال کے وزٹ کا ڈرامہ رچا کر اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار دی۔ بھارت کے شہ دماغوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ اس فیلڈ ہسپتال میں کوئی جعلی نرس اور کیپٹن‘ کرنل اور بریگیڈیئر رینک کے فوجی ڈ اکٹر ہی وزیراعظم مو دی کے ساتھ کھڑے کر دیے جاتے۔ اچھا بھلا صاف ستھرا خوب صورت ہسپتال تو بنا دیا گیا لیکن ان نام نہاد زخمی فوجیوں کے بستروں کے دائیں بائیں کوئی چھوٹی سی میز رکھ کر ان پر ادویات یا کیس ہسٹری کی فائلیں یا بستر کے ساتھ ڈرپ وغیرہ کا کوئی اہتمام ضروری نہیں سمجھا گیا جس نے سارا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑ دیا۔ اس کے لیے مودی بالی ووڈ کے اپنے دوستوں سے ہی رابطہ کر لیتے تو شاید کچھ عزت رہ جاتی۔ ان بزدلوں سے اتنا بھی نہ ہوا کہ چینی فوجیوں کے بھارتی سپاہیوں کے جسموں پر برسائے گئے لمبے اور موٹے کانٹوں والے ڈنڈوں سے لگے گہرے زخموں پر جھوٹ موٹ کی سہی‘ پٹیاں ہی باندھ دیتے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ سچائی کا وصف ہی یہ ہے کہ یہ جھوٹوں کا منہ کالا کرنے کیلئے ان سے اسی طرح کی غلطیاں کراتی ہے۔ لداخ میں چین کے ہاتھوں ہونے والی رسوائی کے بعد کانگریس نے صدر جمہوریہ بھارت سے مطالبہ کیا کہ جنرل بپن راوت اور جنرل منوج کو سب سے بڑا اعزاز ''گوئبلز چکر‘‘ ملنا چاہئے۔ نریندر مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی میں اپنی کچن کیبنٹ کے سامنے چین سے جنگ نہ کرنے کیلئے بھارتی فوج کے جرنیلوں کے دلائل اور بریفنگ دی تو جو زبان وہاں استعمال کی گئی‘ وہ انڈین فوج کیلئے بطور تحفہ سنبھال کر رکھنے کے قابل ہے۔ امیت شاہ اورراج ناتھ سمیت سب لیڈر سر پکڑے بیٹھے تھے کہ اگر ہم نے گلوان وادی چین سے واپس نہ لی اور اپنے 112 زخمی اور ہلاک شدہ فوجیوں کے بدلے کا ڈرامہ نہ رچایا تو بھارت کی جنتا کو کیا جواب دیں گے۔ بھارتی سینا کی درگت بنے جب تین ہفتے بیت گئے تو بالآخر فیصلہ ہوا کہ مودی جی لداخ جا کر فرنٹ محاذ پر کھڑی اپنی فوج کے جوانوں اور افسروں کو ملیں گے جس پر 3 جولائی کو وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی اور ''جائے شکست‘‘ سے 100 کلومیٹر دوری پر واقع ''نیمور‘‘جا پہنچے۔ نیمور میں فوجیوں کو مودی نے جو بھاشن دیا‘ اس پر دنیا آج تک ہنسے جا رہی ہے۔ نریندر مودی فوجیوں کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا ''اب توسیع پسندی اور جارحیت کے دن گزر گئے‘ اب ڈویلپمنٹ کا دور ہے۔ وہ قوتیں جو دوسروں کی جگہوں پر قبضے کرتی ہیں وہ یا تو صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں یا واپس اپنی اوقات میں لائی جاتی ہیں‘‘۔ کیا یہ اس سال کا سب سے بڑا لطیفہ نہیں کہ وہ نریندر مودی جس نے کشمیر پر جبری قبضہ کر رکھا ہے جو پاکستان، میانمار، نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کی سرحدیں اپنی مرضی کی لکیروں سے تراشنا چاہتا ہے‘ وہ لداخ میں کھڑے ہو کر چین کو بتا رہا ہے کہ جنگ کے بجائے ہمیں ترقیاتی کاموں کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ (جاری)