"MABC" (space) message & send to 7575

ایک اور قتل

28 نومبر کو ایک مایہ ناز مسلم ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ‘ جن کا تعلق ایران سے تھا‘ نامعلوم دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے اور دنیاکو انسانی حقوق کا سبق پڑھانے والی تمام قومیں اور ممالک اس طرح چپ سادھے بیٹھے ہیں جیسے دل ہی دل میں خوشیوں سے بے حال ہو رہے ہوں۔ بدقسمتی دیکھئے کہ کرہ ارض کے طول و عرض پر پھیلے مسلم ممالک کو امریکا اور مغربی طاقتوں نے آج متحارب قبائل کی صورت میں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اللہ اور اس کے محبوبﷺ کی کرم نوازیوں کے بعد یہ افواجِ پاکستان کی دن رات کی محنت اور کوششیں تھیں کہ انہوں نے اپنے تمام ایٹمی سائنسدانوں، پروفیسرز اور سکالرز کو دشمن کی ٹارگٹ کلنگ سے بچائے رکھا اور اپنے اہل و عیال سے زیادہ ان کی حفاظت کے فرائض انجام دیے اور یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے بہت سوں نے اپنی جانیں بھی قربان کر دیں لیکن اپنے وطن کے ان مایہ ناز سائنسدانوں اور ان کے خاندانوں پر کبھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔
1952ء سے آغاز کریں تو مصر کی مشہور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سمِیرہ موسیٰ کی یاد آنے لگتی ہے جو ایک سیمینار میں شرکت کیلئے امریکا گئیں تو وہاں ایک تیز رفتار گاڑی انہیں کچلتے ہوئے گزر گئی، آج تک نہ تو اس گاڑی کا علم ہو سکا اور نہ ہی اس کے اندر بیٹھے قاتلوں کا۔ مصرکے ہی ایک معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سمیر نجیب نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کی بوچھاڑ سے موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 21 جنوری 2007ء کو ایران کے مایہ ناز سائنسدان ارد شیر حسن پور‘ جو اصفہان میں ایرانی ایٹمی ریسرچ سنٹر کے سربراہ تھے‘ کو پُراسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ جنوری 2010ء میں ایران ہی کے ایٹمی سائنسدان پروفیسرمسعود علی محمدی کو تہران میں ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے قتل کیا گیا۔ 29 نومبر 2010ء کو ایران ہی کے ایک اور ایٹمی سائنسدان پروفیسر ماجد شہریار تہران میں ایک بم دھماکے میں ہلاک کر دیے گئے۔ اسی روز فریدون عباسی دوانی اور ان کی اہلیہ پر ایک بم حملہ ہوا جس میں وہ زخمی ہوئے۔ فریدون عباسی امام حسین یونیورسٹی میں فزکس کے ہیڈ تھے۔ اسی برس لبنان کے رمل حسن رمل جیسے تجربہ کار ایٹمی سائنسدان پُراسرار طریقے سے قتل ہوئے۔ ایران کے فزکس سکالر داریوش رضائی کو 23جولائی 2011ء کو تہران میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ جنوری 2012ء میں تہران میں کیمیکل انجینئر مصطفی احمدی روشن کو ایک بم حملے میں قتل کر دیا گیا۔ یہ حملہ بھی نومبر 2010ء میں کیے جانے والے حملوں جیسا تھا۔ مصطفی احمدی بھی ایران کے جوہری پروگرام سے وابستہ تھے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط سے پاکستان کی جوہری لیبارٹری کہوٹہ اسرائیل اور بھارت کے نشانے پر تھی، اسی عرصے کی بات ہے جب ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی اس خبر سے تہلکہ مچ گیا کہ ''وزیراعظم اندرا گاندھی کے دفتر سے 'کہوٹہ پر حملہ‘ کی انتہائی خفیہ فائل غائب ہو گئی ہے‘‘۔ بعد میں یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ اندرا گاندھی نے کہوٹہ پر حملے کی باقاعدہ منظوری دی تھی، یہ خبر موصول ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس وقت کے حکمراں‘ جنرل ضیاء الحق نے ایک ہنگامی بیان میں اقوام عالم سمیت بھارت کو خصوصی طور پر وارننگ دیتے ہوئے کہا ''میری اطلاع کے مطا بق بھارت نے پاکستان کے ایٹمی مراکز پر عراق طرز کا حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، اگر بھارت یا اس کے کسی بھی اتحادی (اسرائیل) نے اس طرح کی کوئی حرکت کی تو اس کے نتائج ان دونوں ممالک کیلئے انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں‘‘۔ یہ وارننگ جاری ہوتے ہی اندرا گاندھی خاموش ہو گئیں۔ 22 ستمبر 1984ء کو نیویارک ٹائمز نے ایک خبر بریک کرتے ہوئے لکھا ''بھارت کی وزیراعظم کو ان کے دفاعی اداروں نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی تجویز دی تھی‘‘ پاکستان میں امریکی سفیر کو بھارت کی اس بدمعاشی کا بھرپور جواب دینے کیلئے پاکستان کی دفاعی تیاریوں کا بخوبی علم تھا، اسی لیے 10 اکتوبر 1984ء کو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈین ہنٹن نے لاہور ایئر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو کسی بھی طرف سے (ان کا اشارہ اسرائیل اور بھارت کی طرف تھا) نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اسے امریکا پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستان افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مصروفِ عمل تھا۔ 31 اکتوبر 84ء کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اپنے ہی سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔ اس قتل کے بیس دنوں بعد‘ 21 نومبر کو امریکا میں جوناتھن پولارڈ نامی ایک اسرائیلی جاسوس کو گرفتار کیا گیا جس کی خبر نے عالمی میڈیا اور دنیا بھر کے سفارتی محاذ پر ایک تہلکہ مچا دیا۔ جوناتھن پولارڈ جو امریکی نیوی میں ملازم تھا‘ جب جان گیا کہ اب اس کی اصلیت بے نقاب ہوگئی ہے تو اس نے بھاگ کر اسرائیلی سفارت خانے میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن سفارت خانے کی عمارت کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی اسے دبوچ لیا گیا۔ بعد میں اس نے اقرار کیا کہ اس نے سی آئی اے کی کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کے بارے میں تیار کی گئی رپورٹ کی ایک نقل اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد‘ جس کیلئے وہ کام کرتا تھا‘ کو فراہم کی تھی۔ عراق کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی بات کریں تو اب تک اس کے چھوٹے بڑے 350 نیوکلیئر سائنسدان اور 276 پروفیسرز کو دہشت گردی کی انتہا کرتے ہوئے‘ اس جرم میں قتل کیا جا چکا ہے کہ یہ سب اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو ایٹمی ریسرچ کی تعلیم دیتے تھے۔ اب سیدھی سی بات ہے کہ ان اساتذہ اور پروفیسرز سے خوف زدہ کون تھا؟ کوئی مسلم ملک تو ان سے خوفزدہ تھا ہی نہیں بلکہ یہ تو دوسرے مسلم ممالک میں بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کے فروغ میں بروئے کار آ سکتے تھے۔ ایسے میں قاتل ایک ہی سوچ کا حامل ہو سکتا ہے جسے کسی بھی صورت مسلم ممالک میں ایٹمی ریسرچ برداشت نہیں‘ اور یہ سوچ اسرائیل کے سوا اور کس کی ہو سکتی ہے؟
اگر ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے ایٹمی سائنسدانوں کو دہشت گردی سے قتل کئے جانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جب عرب دنیا میں '' ایڈیسن‘‘ کے نام سے مشہور لبنان کے حسن کمال الصباح کا نام سامنے آتا ہے تو ایک دکھ کی لہر جسم میں سرایت کر جاتی ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے مسلم دنیا کا ایک ہیرا چھین کر خونِ مسلم سے اپنی پیاس بجھائی۔ مسلمانوں کے آئن سٹائن ڈاکٹر علی مصطفی مشرفہ کا نام سامنے آتے ہی ان کے قتل کا دکھ تڑپانے لگتا ہے جن کی علمیت اور قابلیت کا یورپ و امریکا سمیت ہر ملک معترف تھا۔عراق کے محمد الفوز تو مغرب سمیت امریکی اور اسرائیلی سامراج کی آنکھوں میں ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے جب ان کے بارے میں یہ خبریں عام ہونا شروع ہوئیں کہ الفوذ نے یورنیم تیار کرنے کا ایک انوکھا اور نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ معمول کے مطابق انہوں نے اپنی یہ تحقیق مغربی ممالک کے چند بڑے رسائل میں مقالہ کی صورت بھیجنے کی غلطی کر دی تو ایک بھونچال آ گیا اور پھر موساد نے اس مقالے کی اشاعت کے چھٹے روز ہی بغداد کی سڑکوں پر کچھ نامعلوم افراد کے ہاتھوں انہیں خون میں نہلا دیا۔ 1989 میں موساد کو خبر ملی کہ مصر ایک مرتبہ پھر یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اس مشن پر کام کرنے والے انتہائی قابل ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سعید البدر کو اسکندریہ میں ان کے اپارٹمنٹ میں پُراسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ جمال ہمدانی، سعید سید اور سلوی حبیب سمیت ایٹمی ریسرچ کے نجانے ایسے کتنے ہیرے تھے جن کی چمک دمک روز بروز بڑھتی جا رہی تھی لیکن ان کی یہی خاصیت مسلم دشمنی میں اندھے ہو جانے والے طاقتور ممالک کو بے چین کر گئی اور پھر ایک دن موساد نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ غیر مسلم کبھی نہیں چاہیں گے کہ مسلم ممالک دنیا کا کوئی ملک طاقتور بن جائے اسی لیے سب کو زیادہ سے زیادہ محتاط ہو کر آگے بڑھنا چاہئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں