حملہ یک طرفہ یا اچانک نہیں ہو رہا‘ اگر ایک طرف دشمن کی نگرانی میں سوشل میڈیا کے دس سے زائد ذرائع عساکر پاکستان اور اس سے منسلک اداروں کے خلاف مربوط اور تسلسل سے نفرت انگیز مہم چلانے میں سر گرمِ عمل ہیں تو دوسری جانب ملک کے اندر سے بھی ایک پورا گروہ ان کیلئے وہی جملے‘ وہی الفاظ اور وہ استعارے استعمال کرتا ہوا‘ اسی ڈگر پر چل رہا ہے‘ جو دس سے زائد سوشل میڈیا ہتھیار استعمال کرنے والا دشمن اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس وقت ہمارا دشمن ویب ریڈیو اور پوڈ کاسٹ جیسے ماڈرن پروپیگنڈا ہتھیاروں کے ذریعے دن رات کوششیں کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ان سرحدوں کے دفاع کیلئے سینہ سپر اداروں کے اندر بھی دہائیوں سے قائم مضبوط تعلق میں دراڑیں پیدا کر دی جائیں۔ اس سلسلے میں ایک بیان ایک مرکزی سیاسی رہنما سے قومی اسمبلی کے اندر دلوایا گیا‘ جس کی اس لیڈر کی پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے رہنما نے بھرپور تائید کی بلکہ کچھ سینئر لوگ تو تواتر سے اس بے بنیاد بیان کو اپنی تقریروں اور بیانات کا حصہ بنانا شروع ہو گئے۔
کچھ لوگ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ سردار ایاز صادق نے نریندر مودی کی رات نو بجے جنگ کی دھمکی پر ٹانگیں کانپنے کی بات کرتے ہوئے ملکی قیا دت کے حوصلے اور مورال سے متعلق جو کچھ کہا‘ اسے اب بھول جانا چاہئے۔ یہ مشورے اس وقت درست تھے اگر وہ اس پر معذرت کر لیتے یا اپنے الفاظ کی تصحیح کرتے لیکن اگر وہ پڑھائے گئے اس سبق پر قائم ہیں تو پھر ان کی زبان اور عمل سے اس ملک و قوم کو لگنے والے زخموں کو کیسے بھلایا جائے؟ میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ میرے پاس باقاعدہ اطلاعات موجود ہیں کہ یہ بیان کسی جذباتی تقریر کا یا حکومتی مشیروں کی بیان بازی کا ردعمل نہیں تھا بلکہ پوری تیاری سے اور سب کچھ سمجھتے بوجھتے ہوئے دیا گیا تھا۔ پھر اس بیان کو نظر انداز بھی نہیں کیا گیا بلکہ جو ممالک اس تاک میں بیٹھے تھے‘ انہوں نے اس بیان پر ویسا ہی ردعمل دیا جیسا کی توقع کی جا رہی تھی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے فلور پر دیے گئے بیان کو بھارت کے میڈیا نے آسمان پر چڑھا کر پاکستان پر ہی داغنا شروع کر دیا۔ غضب خدا کا! یہ ملک کی سالمیت پر کوئی چھوٹا حملہ ہے کہ اس کی فورسز کے جوانوں اور افسران کے کانوں تک یہ آوازیں پہنچائی جائیں کہ فیصلہ ساز نریندر مودی کی ایک دھمکی سے کانپنا شروع ہو گئے تھے۔ اگر حقائق کی تیز سرچ لائٹ میں اس بیان کا جائزہ لیا جائے تو یہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کی نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے چند گھنٹوں بعد ہی بھارت سمیت پوری دنیا پر واضح کر دیا تھا ''اگر تم (نریندر مودی) نے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کا حملہ کرنے کا حکم دیا تو ردعمل اور اس کا جواب دینے سے پہلے تمہیں روکنے کیلئے یہ نہیں ہو گا کہ پاکستان کا وزیراعظم کوئی اجلاس بلائے گا اور پھر جوابی حملے کا حکم دے گا بلکہ یاد رکھو عمران خان یہ حکم دے چکا ہے کہ بھارت کی کسی شرارت یا پاکستان کی سر زمین کی جانب کوئی ہاتھ بڑھنے سے پہلے ہی اسے کاٹ کر پھینک دو‘‘۔ یہ شاید پاکستان کی اسی پالیسی، ناکام سرجیکل سٹرائیک اوربھارتی طیاروں کی تباہی کا غصہ تھا کہ نریندر مودی‘ جو خود کو مکمل بے بس اور بے دست و پا محسوس کر رہا تھا‘ اس بیان کے سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر شیر ہو گیا اور جلسوں میں اس بیان کی بنیاد پر فتح کے دعوے کرنے لگا۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ دشمن نے کچھ عرصے سے بلوچستان کو اپنے نشانے پر لیا ہوا ہے جس کا آغاز گوادر پورٹ کی تعمیر اور اس کے بعد پاکستان کی معیشت کو مستقل بنیادوں پر سہارا دینے والے سی پیک کے پچاس ارب ڈالر سے زائد کے عظیم الشان منصوبوں کیلئے عوامی جمہوریہ چین کو دی جانے والی ہر قسم کی سہولتوں اور مراعات کی فراہمی سے ہوا اور یہ منصوبہ نہ صرف بھارت بلکہ امریکا سمیت یورپی یونین کے کچھ ممالک کو بھی پریشان کیے ہوئے ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، بعض مغربی اور علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر سی پیک منصوبے کو ختم کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اس سلسلے میں‘ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ بلوچستان کو خاص طور پر ان طاقتوں نے اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ قندھار میں بھارتی قونصل خانے کی مدد سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں‘ جہاں روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں اور جہاں ایک ایک جوڑے کپڑے میں لوگ دو دو سال نکال لیتے ہیں‘ کے بیرروزگار اور حالات کے ستائے لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہ اور کلاشنکوف کے تحفے کے ساتھ قندھار لے جا کر کئی کئی ماہ سخت گوریلا تربیت دینے کے بعد پاکستان کی فورسز پر حملوں کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی ایک باوثوق اطلاع کے مطا بق دو ہزار سے زائد نوجوانوں کو گوریلا تربیت دینے کیلئے قندھار میں انڈین را کے سیف ہائوسز اور تربیت گاہوں میں رکھا ہوا ہے جس کا افغان فوج اور خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو پورا علم ہے۔
ویب ریڈیو کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کے جعلی انٹرویوز چلائے جاتے ہیں جس میں وہ ریاستی اداروں کے خلاف الزامات کا ایک گھسا پٹا پلندہ پڑھتے ہوئے دیگر نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت انڈیل کر انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک خاص بات جس کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے‘ یہ ہے کہ ان پروگراموں میں صرف Sub- Nationalist کو ہی بلایا جاتا ہے جو جی بھر کے زہر آلود نفرت پھیلاتے ہیں۔
اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو آپ نے اپنے دوستوں‘ جاننے والوں کے علاوہ کچھ مشہور شخصیات کو بھی اپنی فرینڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہو گا۔ اسی طرح مختلف فیس بک، وٹس ایپ اور سوشل میڈیا گروپس میں ایسے افراد بھی شامل ہوں گے جن کے بارے میں آپ زیادہ نہیں جانتے مگر ان کی ایسی ایسی پوسٹس نظر آتی ہیں جنہیں دیکھنے اور پڑھنے کے بعد ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا یہ شخص واقعی پاکستانی ہے؟ اس کی تواتر سے کی جانے والی پوسٹس میں ریاست اور ملک کے خلاف نت نئے الزامات اور نفرت بھرے مواد کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ان کے الزامات کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں تو چند گھسے پٹے الزامات اور بے سر و پا باتوں کے علاوہ ان کے پلے سے کچھ برآمد نہیں ہو گا۔ ان کی ہر بات ایک ہی طرح کے الزامات سے شروع ہو کر ان پر ہی ختم ہو جائے گی۔ یہ افراد 'را‘ کے باقاعدہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں البتہ یہ ضروری نہیں کہ ان کی تربیت کیلئے 'را‘ انہیں بھارت لے کر جائے بلکہ انہیں اکثر دبئی‘ سنگاپور یا دوسرے ممالک میں برین واشنگ اور پروپیگنڈا کے نت نئے الفاظ اور ہتھیاروں سے لیس کیا جاتا ہے۔
اس ملک کی سالمیت اور مفادات پر کئے جانے والے چند حملوں کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی کہ ان کے مقاصد کیا تھے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ چند پوائنٹس پر تھوڑا سا غور کر لیا جائے، اول تو یہ کہ ایسے بیانات کیلئے کیا وقت اور کون سا موقع چنا گیا۔ دوم اس سے فائدہ کس نے اٹھایا، کس نے اس بیان کو ملک کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کی اور کون ہے جو ان الزامات کو بار بار دہرا کر سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے تمام حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔
جب سرل المیڈا کو خصوصی جہاز پر ملتان بلا کر انٹرویو دیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ ''ممبئی حملوں کیلئے دہشت گرد پاکستان سے بھیجے گئے تھے‘‘ تو یہ وہ موقع تھا جب دو دن بعد کلبھوشن یادیو کے دفاع کرنے کیلئے بھارتی وکلا نے عالمی عدالت میں اپنے دلائل مکمل کرنا تھے اور پھر سب نے دیکھا کہ بھارتی حکومت اور وکلا نے ایک جانب میاں نواز شریف کے اس بیانیے کو کلبھوشن یادیو کے دفاع کے لیے استعمال کیا تو ساتھ ہی دنیا بھر کے سربراہان کو اس انٹرویو کی کاپیاں بھیجی گئیں اور یہ انٹرویو ایف اے ٹی ایف کے ریکارڈ کا حصہ بھی بنوایا گیا، باقی تاریخ ہے۔