9 دسمبر کا دن دنیا بھر میں کرپشن کے خلاف نفرت کی علامت کے طور پر منایا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے ڈرگز اور کرائم سیل کے مطابق: کسی بھی ملک میں ہونے والی بدعنوانی اور کرپشن‘ سرمایہ کاری کو اصل بجٹ اور تخمینے سے بیس فیصد زائد کر دیتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں 2008ء سے 2013ء تک پی پی پی کے دورِ حکومت پر بدعنوانی سے متعلق جو رپورٹس جاری کی تھیں‘ ان کی تفصیلات پڑھنے کے بعد ایک عام پاکستانی کا دل خوف سے کانپنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان رپورٹس کو آج تک کسی نے بھی‘ کسی بھی سطح پر چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی؛ گویا سر جھکا کر یا شرمندگی سے سر نیچا کیے اسے قبول کر لیا گیا ہے۔ جیسے ترکی کی خاتونِ اول کا مظفر گڑھ کی سیلاب سے بری طرح متاثرہ خواتین اور بچوں کی حالت زار دیکھ کر آنکھوں میں درد بھرے آنسو لیے‘ اپنے گلے سے اتار کر دیے گئے ہار کو ''چڑھاوا‘‘ سمجھ کر اس وقت کی ایک اہم شخصیت کی فیملی نے قبول کرلیا تھا‘ اس سے یہ صورتحال سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی رپورٹس کے مطا بق 2008ء میں پاکستان بدعنوان ممالک کی فہرست میں 47 ویں نمبر پر تھا جبکہ 2010ء میں یہ ترقی کرتا ہوا 34ویں نمبر پر آ گیا اور پھر جمہوریت کے گیت گانے والوں کے کمالات دیکھئے کہ 2012 میں یہ مزید ایک درجہ ترقی کرتا ہوا 33ویں نمبر پرجا پہنچا۔
9 دسمبر کو ہر سال اقوام عالم جب کرپشن کے خلاف عالمی دن مناتی ہیں تو کبھی یہ بھی سوچا کہ اقوام متحدہ کے تحت اس کے چارٹر پر دستخط کرنے والے طاقتور ممالک کرپشن کے گاڈ فادرز کو تحفظ کیوں فراہم کرتے ہیں؟ ان ممالک سے کرپشن کے خلاف نفرت کے دن کے حوالے سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ آپ اپنے گھر میں‘ اپنے ملک میں‘ اپنی ریاستوں میں ایسے لوگوں، سابق سربراہانِ مملکت اور اہلکاروں کو پناہ کیوں دیتے ہیں جو غریب ممالک کے وسائل اور ان کی دولت کو کرپشن کے اڑن کھٹولے میں لے کر آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں ان سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ ان کے پاس موجود کروڑوں پونڈز کہاں سے آئے‘ انہیں گلے سے لگایا جاتا اور تحفظ فراہم کیا جاتا ہے؟ کیا کبھی ایسی خود ساختہ رہنمائوں سے سوال کیا گیا کہ آپ کے پاس یہ عالی شان محلات، فلک بوس پلازے اور مہنگی جائیدایں خریدنے کیلئے اربوں ڈالر کہاں سے اور کس طرح آئے؟ یہ جو اتنی ساری دولت آپ لئے پھرتے ہیں‘ یہ کس طرح کمائی گئی ہے؟ آپ کو یہ دولت کس نے دی؟ بدقسمتی دیکھئے کہ بجائے ان سے پوچھ گچھ کرنے کے‘ ان کے گلے میں ہار ڈالے جاتے ہیں انہیں بھرپور موقع دیا جاتا ہے کہ اس دولت اور اس دولت سے خریدے گئے محلات میں بیٹھ کر اپنے ہی ملک کے خلاف دل کھول کر سازشیں کریں، اپنے ملک کے اداروں کی تضحیک کریں اور اِن ممالک کے ایجنڈوں کی تکمیل کریں۔ کیا یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی ہے کہ نیوکلیئر طاقت کا حامل پاکستان دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص بھارت، اسرائیل اور مغرب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور یہ ان ممالک کا سرفہرست ایجنڈا ہے کہ کسی طرح پاکستان کے دفاع کی ضامن اس کی فوج کو کمزور کیا جائے اور اس کے میزائل اور نیوکلیئر سسٹم کی معلومات حاصل کی جائیں۔ ایسے مقاصد کے لیے بعض کٹھ پتلیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جنہیں صلے میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں جس طرح چاہے موجیں کرو‘ کسی ادارے کی مجال نہیں ہو گی کہ تمہارے قریب بھی پھٹک سکے۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کی اپنی تقریر میں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا تھا ''ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے، اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے‘‘۔ کرپشن صرف رشوت، غبن، کمیشن اور کک بیکس کا نام ہی نہیں ہے بلکہ کسی بھی معاملے میں اپنے ذاتی مفاد کو اجتماعی اور ملکی مفاد پر ترجیح دینا بھی کرپشن کے ہی زمرے میں آتا ہے۔ اگر ایک استاد پیسے لے کر طلبہ کو پاس کر رہا ہے یا انہیں پڑھانے میں پوری دلچسپی نہیں لے رہا تو وہ بھی کرپشن کا ہی مرتکب ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک کرپشن کوئی بری بات نہیں بلکہ اسے حق سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو وہ سیاستدان بھی یاد ہوں گے جنہوں نے ٹی وی پر عوام سے سوال کیا تھا کہ کیا کرپشن کرنا ہمارا حق نہیں ہے۔ اسی طرح کچھ سیاستدانوں سے متعلق مشہور ہے کہ ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘۔ اس طرح کے بیانیوں سے عوام کے ذہن و دماغ میں یہ بات راسخ کی جاتی ہے کہ ''تھوڑی بہت کرپشن سے کچھ نہیں بگڑتا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اب اربوں کے سکینڈلز پر بھی کہیں کوئی جنبش نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ اپنے عہدوں، اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کرپشن کہلاتا ہے جبکہ وسائل کا بے دریغ استعمال بھی کرپشن ہے۔ ہمارے ملک کے وفود یا سربراہانِ حکومت جب کسی دوسرے ملک کے سرکاری دورے پر جاتے ہیں تو اگر وہ ایک ہزار ڈالر کے بجائے دس ہزار ڈالر کرائے والی رہائش گاہیں استعمال کریں‘ ضروری دس پندرہ افراد کے بجائے سینکڑوں افراد پر مشتمل فوج ظفر موج لے کر جائیں تو یہ کرپشن اور اختیارات کا غلط استعمال اور ملک و قوم سے صریح بددیانتی ہے۔
اگر سزا یافتہ لٹیروں کو عالمی سطح پر پناہ فراہم کی جائے‘ انہیں اپنے ملکوں میں کھلے عام گھومنے پھرنے کی اجازت دی جائے تو پھر انسدادِ کرپشن کا عالمی دن منانے کا کیا فائدہ؟ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ یہ قانون بھی پاس کرے کہ اس کے رکن ممالک کرپشن کی دولت لے کر کسی بھی ملک میں داخل ہونے والے شخص‘ چاہے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی‘ کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دیں گے اور اگر اسے تحفظ فراہم کیا گیا تو اس رکن ملک پر بھی وہی پابندیاں عائد کی جائیں گی جو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں پر عائد کی جاتی ہیں۔ دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جہاں کسی بھی جرم میں اشتہاری قرار دیے جانے والے فرد کو پناہ دینا جرم کی ذیل میں نہ آتا ہو؟ ایسے میں اینٹی کرپشن ڈے کا یہ ڈرامہ کس لئے رچایا جاتا ہے؟ امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی‘ نیدرلینڈ یا کسی بھی دوسرے یورپی ملک میں پچاس فرانک، پچاس ڈالر یا پچاس کرونا چرانے والے کو جنرل نشست کے الیکشن میں حصہ لینے کی اجا زت دینا تو بہت دور کی بات‘ جیل کی سلاخوں سے باہر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ جب اپنے ملک میں ٹیکس کی مد میں پچاس پونڈز چرانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو یہ ممالک ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے خزانوں سے اربوں ڈالر لوٹ کر آنے والے ہر کرپٹ کو تھپکیاں دیتے ہوئے پناہ کیوں دیتے ہیں؟ اقوام متحدہ سے اتنا تو پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ کرپشن کے نام سے دنیا بھر میں یہ دن منانے کی بجائے وہ قراردار کیوں پاس نہیں کی جاتی یا ایسا کوئی قانون کیوں نہیں سامنے لایا جاتا کہ کسی بھی ملک کے کرپٹ لیڈر، اہل کار، تاجر اور صنعتکار کو پناہ دینے کے بجائے متعلقہ ممالک کے حوالے کیا جائے گا۔ 192 ممالک دنیا کی سب سے بڑی ایجنسی کے رکن ہیں‘ یہ ایجنسی اپنے رکن ممالک کو ان کے چوری شدہ اثاثہ جات واپس دلانے اور تحقیقات میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، امریکی محکمہ خارجہ اور دوسری بہت سی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے لیکن اسے بھی اس وقت مفلوج کر دیا جاتا ہے جب زد اپنے مفادات پر پڑتی ہے۔
بدعنوانی کسی بھی معاشرے اور ریا ست کو معاشی گرداب کا شکار کر تے ہوئے اس کے عوام کو بنیادی وسائل اور خدمات کی فراہمی کی صلاحیتوں کو کم کر دیتی ہے، جس سے ان ممالک میں سرمایہ کاری کا عمل محدود ہوتا جاتا ہے۔ کرپشن جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کر دیتی ہے اور معاشروں کی انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ منظم جرائم دہشت گردی اور دیگر خطرات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے ہر سال کرپشن سے نفرت کا دن تو منایا جاتا ہے لیکن دوسری جانب کرپشن کے مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے‘ یہ اس دن کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟