بھارت کا کمال دیکھئے کہ دنیا بھر میں جانے مانے ایک انتہائی معتبر اور معروف پروفیسر جن کا 2006ء میں انتقال ہو چکا ہے‘ کو قبر سے نکال کر دوبارہ زندہ کرتے ہوئے مسلسل پندرہ برس تک ان کے نام اور شہرت کو استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا۔ جعلی اور مردہ شخصیات کے نام سے من گھڑت کہانیاں شائع کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی من گھڑت مگر درد ناک داستانیں نمک مرچ لگا کر مغربی ممالک سمیت تمام دنیا اور سول سوسائٹیوں کو گمراہ کن انداز میں پیش کرتا رہا۔ اقوام متحدہ جیسے معتبر ادارے کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے بھارت اس صدی کا سب سے بڑا اور منظم ریاستی فراڈ کرتا رہا۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس قوانین کے خالق پروفیسر‘ جنہیں دنیا بھر میں انتہائی عزت و تکریم سے دیکھا اور جانا جاتا تھا اور جن کے انسانی حقوق سے متعلق مضامین، رپورٹس کو بڑے احترام اور شوق سے دنیا بھر کے جرائد اور فورمز پر پڑھا جاتا تھا‘ جو 2006ء میں 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے‘ ان آنجہانی پروفیسر‘ جن کا کوئی بھی قریبی عزیز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے تجہیز و تکفین کی خدمات مہیا کرنے والے ایک ادارے نے خاموشی سے سپردِ خاک کر دیا تھا‘ کی خاموش موت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ان کا نام چرا کر پندرہ برس تک دنیا بھر کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آنجہانی پروفیسر کی عمر بھر کی نیک نامی اور غیر جانبداری سے بھارت اور اس کی خفیہ ا یجنسیاں جس طرح پندرہ برس تک کھلواڑ کرتی رہیں‘ کیا وہ کسی بھی مہذب معاشرے اور سوسائٹی‘ جہاں قانون کا احترام اور انسانی حقوق کی دہائیاں دی جاتی ہیں‘ کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے؟ کیا یورپ، برطانیہ اور امریکا، یورپ، ان ممالک کی یونیورسٹیاں، اراکین پارلیمنٹ، سیاستدان اور عوام اپنے ساتھ کئے جانے والے اس کھلے دھوکے اور فراڈ پر خاموش رہیں گے؟ امریکا، یورپی یونین، جاپان اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں گزشتہ 15 برسوں سے ایک بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی کی وساطت سے پروفیسر کے مختلف مقالے اور مضامین پڑھائے جاتے رہے ہیں لیکن اب جب انہیں پتا چلا ہو گا کہ ان کے آئیڈیل پروفیسر کو تو اس دنیا سے رخصت ہوئے پندرہ برس گزر چکے ہیں تو سوچیں ان پر کیا گزری ہو گی؟
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونے کے معیار پر پورا اترنے والا یہ انڈین کرونیکل سکینڈل‘ گمراہ کن خبریں دینے والے انڈین نیٹ ورک کو بے نقاب کرتا ہے جو 15 برس تک اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا؛ تاہم روایتی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت نے یورپی یونین کی اس رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہم پر یہ الزام ہے۔ بی بی سی نے اس گھنائونے جرم سے بھارتی انکار پر لکھا ہے کہ آپ کا کہنا تسلیم کر لیتے ہیں کہ بھارتی حکومت سرکاری سطح پر اس کی ذمہ دار نہیں‘ بس دنیا کو اتنا بتا دیں ''ایشین نیوز انٹرنیشنل (ANI)کس کا ادارہ ہے اور اسے کون فنانس کرتا ہے؟‘‘ کیا ANI بھارت کی سرکاری سرپرستی میں چلنے والی نیوز ایجنسی نہیں؟ 2019ء میں بھی یورپی یونین کے ریسرچرز نے بھات کے 65 ممالک سے آپریٹ کئے جانے والے 265 گھوسٹ نیٹ ورکس کا سراغ لگانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ بھارت نے ہٹ دھرمی سے یورپی یونین کے اس تحقیقی ادارے کی رپورٹ کو بالکل ایسے بھارت مخالف ایجنسیوں کا ڈرامہ قرار دیا جیسے پاناما کی کئی ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹس منظر عام آنے پر ہمارے حکمرانوں نے اسے عالمی سازش کہنا شروع کر دیا تھا۔ یورپی یونین میں جعلی اور جھوٹے مواد کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے EU Disinfolab نے انڈین کرونیکل کے نام سے جو تحقیق شائع کی ہے اس کے مطابق ایک منظم انڈین نیٹ ورک‘ دس جعلی این جی اوز، سات سو سے زائد جعلی میڈیا اداروں کے ذریعے اور فرضی شناخت اختیار کر کے یا دوسروں کی شناخت چرا کر اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی انتہائی معتبر شخصیات کو زندہ بنا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرتا رہا۔ انڈین کرونیکل نے یورپی یونین کے لیے نئی ویب سائٹ بنائی جہاں یورپی قانون سازوں اور صحافیوں کے جعلی اکاؤنٹس بنا کر ان سے جعلی مضامین شیئر کرائے جاتے، نیوز ایجنسی 'اے این آئی‘ ان جعلی خبروں کو بھارت میں پھیلاتی جہاں سے بزنس ورلڈ میگزین اور دیگر ادارے انہیں شائع کرتے اور یوں بھارت اور یورپی یونین میں پاکستان مخالف بیانیہ پھیلایا جاتا۔ڈس انولیب کے مطابق بھارتی ادارہ Srivastava اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ بھارت کے یہ تمام بوگس اور جعلی نیٹ ورک جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی پالیسی سازی پر بھی اثر انداز ہوتے رہے ۔
بھارت کی بے شرمی اور ہٹ دھرمی دیکھئے کہ ایک جانب پوری دنیا کا میڈیا، اور دوسری جانب یہ ایک منظم جھوٹے اور جعلی نیٹ ورک کے ذریعے سب کو دھوکا دینے میں مصروفِ عمل۔یورپی یونین Disinfo Lab اور اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر Alexandre Alaphilippe نے گزشتہ بدھ کو انتہائی تحقیق کے بعد سامنے لائی گئی رپورٹ جاری کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ہم نے ایک بہت بڑے نیٹ ورک کا سراغ لگایا ہے اور جیسے جیسے ہم اس نیٹ ورک کے ایک ایک پرزے کو ڈھونڈتے گئے ہمارے سامنے حیرت انگیز انکشافات ہوتے گئے کہ ان 750 جعلی اکائونٹس، میڈیا تنظیموں، انسانی حقوق کے نام سے درجنوں کی تعداد میں قائم کی جانے والی جعلی تنظیموں اور نیوز ایجنسیوں کا نشانہ صرف اور صرف پاکستان بنتا رہا۔ ادارے کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ اس قدر وسیع نیٹ ورک کو پندرہ برس تک کوئی ایک پرائیویٹ ادارہ اکیلے نہیں چلا سکتا کیونکہ اس کیلئے ہر برس کروڑوں ڈالر درکار تھے‘ انہوں نے شک ظاہر کیا کہ شاید یہ بھارتی حکومت مہیا کرتی رہی۔ بھارت کی حکمران جماعت کے چند اراکین کا نام اس رپورٹ کا حصہ ہے‘ جنہوں نے اس سکینڈل پر تحقیق کرنے والے افراد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی تھیں۔ بعض ذرائع کے مطابق دنیا کے درجنوں ممالک سے آپریٹ ہونے والے اس نیٹ ورک کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے افسران‘ جو اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں پھیلے بھارتی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں تعینات ہیں‘آپریٹ کرتے ہیں۔ اس جعلی گروپ کی کوشش ہوتی تھی کہ کبھی میڈیا، کبھی کسی این جی او کے روپ میں تو کبھی کسی تھنک ٹینک کی شکل میں یورپی ممبرانِ پارلیمنٹ کی قربت حاصل کی جائے۔ جعلی میڈیا اداروں کے ذریعے جھوٹے مضامین لکھوائے جائیں اور اپنے پروپیگنڈے کے فروغ کیلئے‘ اہم افراد کو اپنی مرضی کے بین الاقوامی دورے کرائے جائیں اور ان ممالک کے ممبرانِ پارلیمان کو تصویر کا وہی رخ دکھایا جائے جو ہمارے مفاد میں ہو۔ کیا یہ سب کچھ کسی ریاستی مدد اور کروڑوں ڈالرز کی فنڈنگ کے بغیر ممکن ہے؟ بھارت کے بنائے گئے ان جعلی نیٹ ورکس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر بھارتی مفادات کو تسلیم کرانا اور پاکستان کو ایک ناکام ریا ست کے طور پر پیش کرنا تھا۔بھارتی خفیہ اداروں کے اس کھیل میں بدقسمتی سے کچھ پاکستانی شخصیات بھی شامل ہیں جن کے نام بہت جلد سامنے آنے والے ہیں لیکن اب مزید کسی وقت کا انتظار کئے بغیر حکومت پاکستان کو ''Removal and Blocking of Unlawful Online Content Rules 2020‘‘ پر سختی سے عمل کرنا ہو گا کیونکہ کرۂ ارض پر پاکستان شاید واحد ملک ہے جسے اندرونی اور بیرونی‘ دونوں سرحدوں پر 'ہائی برڈ وار‘ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان میں اگر شتر بے مہار تحریروں کو نہ روکا گیا تو یہ ملکی وقار کو اسی طرح ٹھیس پہنچاتی رہیں گی جیسے بھارت اپنے جعلی پروپیگنڈے سے پہنچاتا رہا ہے۔