شاہکام چوک، شیرانوالہ، کریم پارک، اقبال ٹائون اور گلاب دیوی ہسپتال پر انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برجز کی تعمیر کا اعلان اہل لاہور کیلئے سردار عثمان بزدار حکومت کا بہترین تحفہ ثابت ہو گا۔ ٹریفک جام کی ذہنی کوفت اور جسمانی تکلیف کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں جنہیں ان علاقوں سے صبح و شام گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میڈیا ورکرز کے سامنے جب لاہور میں دو درجن سے زائد میگا پروجیکٹس کاا علان کر رہے تھے تو ایک گروہ کھسر پھسر کرتے ہوئے یہ کہنا شروع ہو گیا کہ دیکھو جی‘ اب جبکہ پی ڈی ایم کی تحریک زور پکڑ رہی ہے اور دو دن بعد لاہور میں مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن 'ریفرنڈم کرانے کیلئے‘ اپنے ساتھ لاکھوں کا ہجوم لئے مینار پاکستان پہنچنے والے ہیں تو لاہوریوں کو لالی پاپ دینے کیلئے حکومت میگا پروجیکٹس کے اعلانات کرنے لگی ہے۔
90 شاہراہ قائداعظم کے زیر زمین کھچا کھچ بھرے ہال میں گزشتہ ادوار کی تمام حکومتوں میں لاکھوں اور کروڑوں کی مراعات اور مرکزی حکومت کے زیر انتظام نیم سرکاری اور خود مختار اداروں میں پُرکشش عہدوں پر کام کرنے والے کچھ نام نہاد میڈیا ورکرز دبے دبے قہقہے لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ تحریک انصاف کی حکومت جتنی مرضی کوششیں کر لے‘ جتنے چاہے انڈر پاسز، اوور ہیڈ برج اور ہسپتال بنانے کا اعلان کر دے‘ مینار پاکستان پر 13 دسمبر کو اکٹھا ہونے والا عوامی ہجوم مولانا خادم حسین رضوی کے جنازے کی یاد تازہ کر دے گا اور جلسوں کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا لیکن جب تیرہ دسمبر کا سورج طلوع ہوا تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی وہاں صبح سے بیٹھی ٹیمیں حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں کہ وہ ریفرنڈم کرنے والا لاکھوں کا ہجوم کہاں گیا؟ عوام کا سیلاب کس طرف بہہ گیا؟ جلسے کے لیے دوپہر ایک بجے کا وقت دیا گیا تھا اور تمام ٹی وی چینلوں نے دکھایا کہ دوپہر ایک بجے خالی جلسہ گاہ عوام کی راہیں تک رہی تھی۔
عمران خان اور بزدار حکومت کے ناقدین اور مخالفین کہتے ہیں کہ ترقی تو صرف میاں نواز اور شہباز شریف کے دور میں ہوئی۔ یہ بھی تو بتائیے کہ عثمان بزدار کے مقابلے میں ان کا دور کتنے سالوں پر محیط تھا؟ اگر نہیں جانتے تو جان لیں کہ میاں نواز شریف 1985ء میں وزیراعلیٰ پنجاب سلیکٹ کئے گئے۔ مسلم لیگ نون کی پنجاب میں حکومت 1993ء تک (8 برس) رہی پھر 97ء سے 99ء تک (ڈھائی برس) اور پھر 2008ء سے 2018ء تک (دس برس)۔ اس طرح پنجاب میں تقریباً بیس‘ اکیس سال کا طویل عرصہ اقتدار مسلم لیگ نواز کے پاس رہا۔ اب ذرا دوسرے حقائق پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ لاہور کا پہلا انڈر پاس 2-93 199ء میں جیل روڈ پر نہر پر بنایا گیا۔ اب اگر موجودہ حکومت کا ''خادم پنجاب‘‘ کی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ کریڈٹ عثمان بزدار کو ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے سوا دو سال میں ہی فردوس مارکیٹ انڈر پاس تعمیر کرا کے دکھا دیا۔ گزشتہ برس جناح باغ میں تعمیر کرائے گئے زیر زمین واٹر ٹینک نے لاہور کے ایک اہم حصے کو ہر سال بارش کے پانی سے پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت سے جس طرح نجات دلائی ہے‘ وہ بھی لائق تحسین ہے اور یہ منصوبہ موجودہ حکومت کے سنہری پروجیکٹ کے نام سے مشہور ہو چکا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی دیکھ کر پنجاب حکومت لاہور میں مختلف مقامات پر مزید دس زیر زمین واٹر ٹینک تعمیر کرنے جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ارفع کریم ٹاور کے قریب ایک ہزار بستروں پر مشتمل ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال جو 2023ء تک مکمل ہو جائے گا۔ یاد رہے لاہور میں آخری بڑا ہسپتال‘ جناح ہسپتال 1996ء میں تعمیر کیا گیا تھا، اس کے بعد لاہور میں کوئی بڑا ہسپتال تعمیر نہیں ہو سکا۔
اس کے علاوہ لاہور میں ایل ڈی اے سٹی کے نام سے ہائوسنگ پروجیکٹ میں بے گھر افراد کیلئے ہائوسنگ یونٹس تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ لاہور سمیت پنجاب بھر کے عوام کی آسانی کیلئے ٹھوکر نیاز بیگ پر جدید ترین سہولتوں سے آراستہ 100 کنال وسیع اراضی پر انٹرنیشنل طرز کا بس ٹرمینل بنایا جا رہا ہے۔ یہ تمام پروجیکٹس یقینا عوام کو بے شمار سہولتیں مہیا کریں گے اور صوبے کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے۔ خدا کرے یہ تمام پروجیکٹس جلد از جلد تعمیر ہو جائیں کیونکہ ''فردوس مارکیٹ انڈر پاس‘‘ کی طرح کچھ سابقہ وفادار ان ان پروجیکٹس کی تکمیل میں رکاوٹیں ضرور ڈالیں گے اور پوری کوشش کریں گے کہ یہ منصوبے تاخیر کا شکار ہوں۔ اب ذرا شریف برادران کے ''ماڈل پروجیکٹس اور سپیڈ‘‘ کا بھی ذکر ہو جائے۔ ان کا سب سے پہلا پروجیکٹ ایک پتلی سرنگ جیسا تھرڈ کلاس انجینئرنگ ڈیزائن جیل روڈ انڈر پاس کی صورت میں اہل پنجاب کو روزانہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی طرح پہلے میٹرو بس اور بعد ازاں اورنج ٹرین کے لیے مرحلہ وار کام کرنے کے بجائے جس طرح پورا شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا کر عوام کو جس جہنم میں دھکیلا گیا‘ یہ وہی جان سکتے ہیں‘ جن کا ان روٹس سے روزانہ گزر ہوتا ہے۔
لاہور کے جلسے میں مولانا فضل الرحمن کا سٹیج پر آتے ہی محمد زبیر سے کیا جانے والا شکوہ اپنی جگہ بہت وزن رکھتا ہے کہ آپ نے تو ہمیں مکمل یقین دہانی کرائی تھی کہ نواز لیگ کم ازکم ایک لاکھ افراد اس جلسے میں اکٹھے کرے گی اور آپ کی اسی یقین دہانی پر ہم نے دس ہزار کے قریب انصار الاسلام فورس لاہور منگوائی تھی۔ میڈیا میں موجود پی ڈی ایم کے حمایتی اب یہ جواز لائے ہیں کہ جلسے کی ناکامی کی وجہ ایاز صادق کے گھر دی جانے والی ضیافت میں زیادہ کھانا اور پھر قیلولہ کرنے کے بعد وہاں سے دیر سے نکلنا ہے جبکہ سردی نے بھی لوگوں کو باہر نکلنے سے روکے رکھا۔
مجھے اپنی سروس کا کچھ حصہ ایک ایسے محکمے میں گزارنے کا موقع بھی ملا جہاں بڑے بڑے مجرموں، دہشت گردوں اور جاسوسوں کے چہرے پڑھ کر بھی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے اور اپنے فیس ریڈنگ کے اسی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ جیسے ہی اپوزیشن رہنما بالخصوص مولانا فضل الرحمن مینار پاکستان پر بنائے گئے سٹیج پر چڑھے اور انہوں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو عوام کی قلیل سی تعداد دیکھ کر وہ مجھے انتہائی آزردہ دکھائی دیے۔ شاید اسی لیے محمود خان اچکزئی کو سامنے کیا گیا جنہوں نے تاریخ سے اپنی نابلدی کا اظہار اہل لاہور اور اہالیانِ پنجاب کو انگریزوں کا پٹھو کہہ کر کیا۔ اس سے پہلے وہ کراچی کے جلسے میں اردو بولنے والے مہاجرین کی کم حاضری کا غصہ اردو زبان پر بھی نکال چکے تھے۔ بہرحال کراچی جلسے میں اردو زبان‘ جو پاکستان کی قومی زبان ہے‘ کی تضحیک کی گئی اور لاہور میں پنجابیوں پر تبرے بھیجے گئے۔ ان باتوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیجئے کیونکہ یہ وہی صاحب ہیں جنہیں نواز شریف نے اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ میں سپیشل ایڈوائزر مقرر کر رکھا تھا جس کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے‘ اور اس مشیر نے اسلام آباد میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ وہ افغانیہ نام کی ایک نئی ریا ست بنانے جا رہے ہیں جو بھکر‘ میانوالی سمیت جلال آباد‘ اور اٹک تک‘ یعنی پنجاب، کے پی اور بلوچستان کے علاقوں پر مشتمل ہو گی۔ کیا اس اعلان پر اس وقت کے وزیراعظم نے انہیں اپنے عہدے سے الگ کیا؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہی سمجھا جائے کہ اُس حکومت کو اس اعلان پر کوئی اعتراض نہیں تھا؟ اب کی بار وہ لیڈر جو چند روز پہلے تک پنجابی کارڈ کھیل کر عوام کو جلسے میں آنے پر مجبور کر رہے تھے‘ پنجابیوں کو طعنے دیے جانے پر خاموش بیٹھے رہے اور کسی نے بھی ابھی تک اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا۔