چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ہاتھوں بھارتی فوجیوں کی پٹائی نے وادی گلوان کا نام یک دم دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔ دنیا کے اس انتہائی اہم جغرافیائی فیچر‘ جسے آج گلوان کے نا م سے پکارا جاتا ہے‘ کی دریافت بھی اپنی جگہ ایک دلچسپ کہانی ہے جس کا کردار لیہہ وادی کا غلام رسول نامی 14 سالہ لڑکا تھا جو Dunmore Murray مہم جو گروپ میں بطور پورٹر کام کرتا تھا۔ یہ وادی گلوان کولمبس کے امریکا کی طرح کیسے دریافت ہوئی‘ یہ خاصا دلچسپ واقعہ ہے۔ ہوا یوں کہ1890ء کی دہائی میں برطانوی مہم جوئوں کا ایک گروپ ایک دن ایک ایسی وادی میں جا پھنسا کہ اسے کسی بھی جانب سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا، ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرنے اور راستہ تلاش کرنے کے بعد سب لوگ تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ گئے، ان کے ایک جانب کافی اونچی اور بلند‘ دشوار گزار پہاڑی چٹانیں سر اٹھائے کھڑی تھیں تو دوسری جانب گہری کھائیاں اور ڈھلوانیں پورے گروپ کے ہوش اڑ رہی تھیں۔ تمام گروپ نے فیصلہ کیا کہ آگے بڑھنے کا مشن ادھورا چھوڑ کر یہیں سے واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے‘ جب سب واپسی کیلئے مڑنے لگے تو انہیں احساس ہوا کہ ان کے گروپ کے کھانے پینے کا سامان اٹھانے والا چودہ سالہ پورٹر غلام رسول غائب ہے۔ سب پریشان ہو گئے کہ نجانے یہ لڑکا کہاں غائب ہو گیا ہے، کوئی ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا جب ان لوگوں نے دور سے غلام رسول کو بھاگ کر آتے ہوئے دیکھا۔ جب وہ قریب پہنچا تو اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ اس نے گروپ لیڈر سمیت سب کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اس نے آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے، کوئی بھی اس کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا لیکن اس نے گھاٹی کے ساتھ بہنے والے نالے تک گروپ کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں اس وادی میں پہنچا دیا جسے اب گلوان کہتے ہیں۔ اور پھر Charles Murray, 7th Dunmore of Earl نے اس چودہ سالہ لڑکے غلام رسول گلوان کے نام کی مناسبت سے اس وادی کا نام گلوان رکھ دیا۔ تب سے یہ علاقہ وادیٔ گلوان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
چین اور بھارت 1917ء سے ڈوکلام میں، 1962ء سے نیفا میں اور مئی2020ء سے لداخ‘ گلوان میں ایک دوسرے کے مد مقابل آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں گوکہ بھارت کی تینوں افواج کے کمانڈرز اور وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ بہانے تراش لئے تھے کہ جب تک رافیل فائٹرز اور ایس 400 میزائلوںکی بڑی کھیپ بھارت نہیں پہنچ جاتی‘ وہ چین اور پاکستان سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ نریندر مودی اپنے عوام کو تسلیاں دیتے ہوئے جلسہ عام میں یہ بھی کہنا شروع ہوگئے تھے کہ ہم نے تو اپنی افواج کو پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے تیار رکھا ہوا ہے اور اس وقت ہمارے پاس اس سے کسی بھی قسم کی جنگ لڑنے کیلئے اسلحہ اور گولہ بارود موجود ہے لیکن چین کے ساتھ بھرپور جنگ کیلئے ابھی ہم پوری طرح سے تیار نہیں۔ لیکن رافیل کے بعد بھی جب بھارت کو گلوان میں سخت ہزیمت اٹھانا پڑی تو نریندر مودی نے انتہا پسند ہندو ووٹرز کو بیوقوف بناتے ہوئے یہی رٹ لگائی رکھی کہ چین نے بھارت کا کوئی علا قہ قبضے میں نہیں لیا۔ مودی کے اس دعوے پر دفاعی تجزیہ کاروں نے سوال اٹھانا شروع کر دیا کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر چین نے گلوان وادی میں حال ہی میں جو ریڈار نصب کیا ہے‘ کیسے آ گیا؟ وہ پہاڑوںکے اندر سے ابھر کر یکایک تو باہر نہیں نکلا، یقینا چینی فوج اس علاقے پر قبضہ کر چکی ہے۔ مودی حکومت سے یہ سوال بھی کیا جاتا رہا کہ Changra Goats کے ریوڑ اور ان کے چرواہے چینی فوج کی موجودگی کی وجہ سے گلوان سے بھی کئی کلو میٹر دور موجود طویل اور بڑی چراگاہ کی جانب جانے سے کیوں روکے جا رہے ہیں۔ ان بکریوں‘ جن سے مشہور زمانہ انتہائی قیمتی کشمیری پشمینہ اون حاصل کی جاتی ہے‘ کو اس اونچی چوٹی پر‘ جو چینی سرحد سے اچھے خاصے فاصلے پر ہے‘ پانی پلانے کیلئے 2010ء میں جو بڑا ہینڈ پمپ نصب کیا گیا تھا‘ وہ اب چینی فوج کے قبضے میں کیوں ہے؟ نریندر مودی اور اس کے حمایتی میڈیا کا دعویٰ اگر مان لیا جائے تو سوال یہی ہے کہ بھارتی حکومت کا نصب کردہ ہینڈ پمپ اور اس کے اردگرد کے تمام حصوں پر چین نے ابھی تک اپنا قبضہ کیوں برقرار رکھا ہوا ہے؟ دور دور تک چینی فوجی کیمپ کہاں سے آ گئے ہیں؟
لیہہ وادی کے نوجوان غلام رسول کو بچپن سے ہی دشوار گزار پہاڑوں پر اترنے‘ چڑھنے کا جنون تھا اور اسی جنون نے پہاڑی دروں اور چوٹیوں پر جاں گسل چڑھائیوں کے شوقین غلام رسول گلوان کو یہ وادی دریافت کرنے کا اعزاز بخشا۔ سینٹرل ایشیا سے ایک برٹش گروپ کے ساتھ غلام رسول گلوان جب اس خوبصورت وادی کے قریب پہنچا تو یہ گروپ قدرتی حسن اور خوبصورتی سے حیران و ششدر رہ گیا۔ چند روز قیام کے بعد جب وہ لوگ آگے بڑھے تو ہر طرف سے راستے مسدود ہونے کی وجہ سے واپسی کا ارادہ کیا ہی تھا کہ غلام رسول گلوان نے ایک چھوٹا سا نالہ دریافت کر لیا جس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سب آگے بڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ وادی گلوان کے ساتھ بہنے والے دریا کے کنارے چند روز قیام کے بعد جب غلام رسول اپنے آبائی شہر لیہہ‘ جہاں اس کی فیملی مقیم تھی‘ تو چند ہفتے بعد گلوان وادی کی خوبصورتی اور دلکشی اسے واپس کھینچ آئی جہاں اس نے پتھروں سے اپنے لئے چھوٹا سا ایک گھر بنایا اور پھر وہیں رہنا شروع کر دیا۔ دنیا بھر کے نامور تاریخ دانوں کی مشترکہ ریسرچ کے مطابق 1895ء کے لگ بھگ سینٹرل ایشیا اور تبت سے آتے ہوئے غلام رسول گلوان نے یہ وادی دریافت کی تھی۔ غلام رسول گلوان کی اپنی مہم جوئی پر مشتمل 1923 میں لکھی گئی کتاب ''SERVANTS OF SAHIBS‘‘ کو کیمبرج سے شائع کیا گیا۔ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے جبری خاتمے اور بھارتی فوج کے جبر و قہر کے سائے میں مسلط کئے گئے لاک ڈائون کی وجہ سے اس کتاب کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتہائی دلچسپی سے پڑھا جا رہا ہے۔ گلوان وادی کی دریافت کا سہرا غلام رسول کا کارنامہ تو ہے ہی لیکن اس کے آس پاس کے علاقے مثلاً Tibetan Plateau، پامر مائونٹین اور سینٹرل ایشیا کے صحرا ئوں کی دریافت کے حوالے سے مشہور سیاح اور مورخ سر فرانسس ایڈورڈ ینگ ہزبینڈ کا نام نہ لینا زیادتی ہو گی۔
دریائے گلوان سیاچن سے متصل اور چین اور بھارت کے مابین حساس ترین حصے علاقے اقصائے چن سے شروع ہوکر بھارت کے زیر قبضہ چینی علاقے میں واقع دریائے شیوک سے جا ملتا ہے جو بعد میں دریائے سندھ سے ملنے والے معاون دریا میں گرتا ہے جسے بھارت جبری طور پر اپنا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ چند سال قبل سیاچن پر لکھے گئے اپنے مضمون میں مَیں نے بتایا تھا کہ دریائے سندھ کا ہیڈ اسی کے ہاتھوں میں ہو گا جس کا سیاچن پر قبضہ ہو گا۔ یہ ایک طویل جغرافیائی نقشہ ہے جس پر کسی علیحدہ مضمون میں تفصیل سے بحث کی جائے گی۔ کشمیری النسل غلام رسول گلوان نے جب یہ وادی اور دریا دریافت کیے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ گلوان دنیا بھر کے سیا سی، دفاعی اور سفارتی حلقوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے میڈیا کی بھرپور توجہ کا مرکز بن جائے گا اور یہ علاقہ نیفا کی طرح ایک مرتبہ پھر غرور و تکبر میں مبتلا بھارت کو اس طرح خاک چٹائے گا کہ مارے شرمندگی کے نرنیدر مودی‘ جو ہر وقت جنگ پر آمادہ و تیار نظر آتا ہے اور پاکستان اور چین سے بیک وقت مقابلہ کرنے کی بڑھکیں مارا کرتا تھا‘ گیدڑ کی طرح دبک کر ایک کونے میں بیٹھا اپنے زخم سہلاتا رہ جائے گا۔