مچھ میں شہید کئے گئے دس افراد کو کوئٹہ کے ہزارہ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔مظلوم ہزارہ برادری ‘ ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی اور تمام محب وطن پاکستانیوں کا شکریہ کہ انہوں نے دھرنا ختم کرانے میں مدد کی اور ان تمام پاکستانیوں کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے شہدا کے غم میں برابر آنسو بہائے۔ہزارہ برادری کے دس شہدا کی تدفین کے بعد وزیر اعظم کادورہ ٔ کوئٹہ اور مقتولین کے ورثا اور ہزارہ عمائدین سے ملاقات نے ان ناقدین کو بھی خاموش کر دیا ہے جو کل تک وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ بعض لوگ تو اس تنقید میں انتہا کو پہنچ گئے مثلاً مریم نواز صاحبہ نے ایک ٹوئٹ میں یہاں تک کہہ دیا کہ شہدا کی لاشیں تدفین کیلئے پڑی اُن(وزیر اعظم) کی راہ دیکھ رہی ہیں لیکن انہیں توفیق نہیں ہو رہی کہ وہ ان شہدا کے لواحقین کے سروں پر دست ِشفقت رکھ دیں۔ ظاہر ہے کہ ایک بیٹی‘ بہن اور ماں کی حیثیت سے ان کے جذبات اور احساسات انہیں سیاست سے ہٹ کر شہدا کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے دکھوں پر تڑپا رہے ہوں گے‘ اور یہ صرف مریم صاحبہ یا بلاول بھٹو تک محدود نہیں بلکہ ہر طبقے کے لوگ وزیر اعظم سے کوئٹہ جانے میں تاخیر پر سوال کر رہے تھے۔بہت سے لوگوں نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کا حوالہ دے کر وزیر اعظم صاحب کو یاد دلایا کہ کس طرح وہ خاتون نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملے کے شہدا کو گلے لگاکر دلاسے دے رہی تھیں‘ اور اس عمل کو مسلم اور غیر مسلم دنیا میں بے حد سراہا گیا۔
نواز لیگ کی جانب سے راگ الاپے جا رہے تھے کہ عمران خان کوئٹہ کیوں نہیں گئے؟ یہ کہتے ہوئے انہیں رتی بھر بھی احساس نہ ہوا اور نہ ہی بد قسمتی سے عمران خان کی مقرر کی گئی میڈیا ٹاک اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج میں سے کسی نے کہنا گوارہ کیا کہ جناب جب چارسدہ یونیورسٹی میں چوبیس طلبا کو شہید کیا گیا تھا تو نواز شریف اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دن تک ان کے لواحقین سے تعزیت کیلئے کیوں نہیں گئے؟ مئی2016ء میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف مانسہرہ کے جلسہ عام کے بعد جانے لگے تو کسی نے ان کے سٹاف کو بتایا کہ چارسدہ کا فاصلہ ان کے ہیلی کاپٹر کیلئے کوئی زیا دہ نہیں‘ اس کیلئے آدھ گھنٹے سے زیا دہ کا وقت نہیں لگے گا لیکن انہیں شاید بنوں کے جلسہ عام میں جانے کی زیا دہ جلدی تھی جو مولانا فضل الرحمان کی سیا ست کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ بنوں میں جلسہ عام کے بعد جب مولانا کے ساتھ سیلفیاں اتاری جا رہی تھیں تو انہیں بتایا گیا کہ چارسدہ یہاں سے بھی کوئی زیادہ دوری پر نہیں ‘ بہرکیف نواز شریف کے لیے چارسدہ جانا کوئی ضروری نہیں تھا‘ لیکن اس وقت ان کی کسی بھی مخالف سیا سی جماعت میں سے کسی نے ان پر فقرے نہیں کسے ‘کسی نے انہیں بے رحم یا بے حس جیسے خطابات سے نہیں نوازا اور نہ ہی سانحات پر سیاست کر کے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی کیونکہ جب وہ مانسہرہ اور بنوں میں عام جلسوں سے خطاب کیلئے وقت نکال سکتے تھے تو ان کیلئے چارسدہ تک جانا مشکل کیسے ہو سکتا تھا؟
جس طرح کوئٹہ میں دس کان کنوں کو دشمن کے سدھائے ہوئے دہشت گردوں نے شہید کیا‘ بالکل اسی طرح چار سدہ یونیورسٹی میں بھی پاکستانی قوم کے نو نہالوں‘ پاکستان کی نئی نسل اور ہمارے ملک کے طالب علموں کو دہشت گردوں نے حملہ کرکے شہید کیا تھا‘ ان کی لاشیں ان کے لواحقین کیلئے سوہان روح بنی ہوئی تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے ملک کا وزیر اعظم ان کے پاس آئے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے ملک کا وزیر اعظم شہید ہونے والے بچوں کے گھروں میں آ کر ان سے تعزیت کرتے‘ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ میاں نواز شریف مانسہرہ اور بنوں میں جلسے تو کرتے رہے مولانا فضل الرحمان اور ان کے خاندان کے حلقہ انتخاب میں کروڑوں ‘ اربوں روپے کے فنڈز کا اعلان تو کرتے رہے‘ جس کی ویڈیوز آج بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔واضح رہے کہ 20 جنوری 2016ء کی صبح چارسدہ یونیورسٹی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے پاکستان کی تاریخ کی سخت سردی اور بے پناہ دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونیورسٹی کی عقبی دیوار سے اندر داخل ہو کر نہتے طالب علموں‘ جن میں خواتین بھی شامل تھیں ‘ پر کلاشنکوفوں اور مارٹر گولوں کی بوچھاڑ کر تے ہوئے 24 طالب علموں کو شہید کر دیا۔ یہ خبر ملتے ہی ملک بھر میں صفِ ماتم بچھ گئی ۔جوان لاشے اٹھائے جا رہے تھے‘ مائیں تابوت میں لپٹی ہوئی اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں دیکھ کر سکتے میں آ گئی تھیں‘مگر نواز لیگ اور میاں نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ جب چارسدہ یونیورسٹی میں دہشت گردی کے نتیجے میں 24 طالب علم شہید کر دیئے گئے تو تحریک انصاف میں سے کسی نے بھی ان سے سوال نہیں کیا کہ جناب کیا وجہ ہے کہ حکومت کے سربراہ نے چارسدہ یونیورسٹی کے شہدا کے لوحقین سے تعزیت کرنا منا سب نہیں سمجھا‘ حالانکہ وہ خیبر پختونخوا کے مختلف حصوں میں عوامی جلسوں کر رہے تھے۔
مانسہرہ جہاں میاں نواز شریف جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے وہاں جلسہ گاہ سے قریب مانسہرہ یونیورسٹی کو مرکزی حکومت کے سکیورٹی اداروں ا ور وزیر اعظم ہائوس کے احکامات پر دو روز کیلئے زبردستی بند کرا دیا گیا کیونکہ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ یونیورسٹی کے طلبا اپنے ساتھی طالب علموں کی شہا دت پر احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے بنوں کے جلسے سے پہلے وہاں کے تمام تعلیمی اداروں کو بھی بند کروا دیا گیا۔ مضحکہ خیزی دیکھئے کہ میاں نواز شریف نے مانسہرہ میں ایک ایسے پراجیکٹ کا چوتھی مرتبہ افتتاح کر دیا جس کا1990ء سے اس وقت تک تین مرتبہ افتتاح ہو چکا تھا ‘ان میں سے ایک افتتاح محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ سے ہوا تھا۔
17 جون2014ء کا واقعہ لے لیجئے کہ لاہور میں منہاج القران کے اندر اور باہر 14 افراد کی شہادت کے بعد جب ان میں سے دو خواتین کی لاشوں کے پاس کھڑی ایک دس سال کی بچی چیختی چلاتی انصاف کی بھیک مانگ رہی تھی اور اس کی آہیں اور بین سنتے ہوئے سب کی آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے‘ مگر کسی کا دل نہیں پسیجا تو وہ حکمران تھے۔اس طرح کوئٹہ کی علمدار روڈ نے جناب آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے دس سالہ دورِ حکومت میں ہر دوسرے مہینے ہزارہ برادری کے افراد کی لاشیں گرتے دیکھیں۔مگر اُس دور کے سربراہان حکومت کتنی مرتبہ کوئٹہ گئے؟ جب کوئٹہ کے ہسپتال کے اندر اور باہر 54 سے زائد وکلا کو خود کش دھماکوں سے اڑایا گیا تو اس وقت کون کوئٹہ گیا تھا؟
ماضی کی حکومتوں نے اگر یہ بے نیازی اختیار کی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان بھی اسی پر عمل کریں‘ اور ایسا ہے بھی نہیں کہ حکومت کی جانب سے مظلوم ہزارہ افراد سے اظہار تعزیت کے لیے جانے میں کوتاہی کی گئی ہو۔اس افسوسناک واقعے کے بعد وزیر اعظم کے مشیر ‘ حکومتی وزرا اور حکومت بلوچستان کے نمائندے ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جو ایک نجی دورے پر ملک سے باہر تو ‘ اس المناک واقعے کے بعد وہ بھی جلد از جلد ملک واپس پہنچ گئے اور احتجاج کرنے والے لوگوں سے مذاکرات کئے گئے اور ان کے تقریباً سبھی مطالبات کو مان لیا گیا۔ وزیر اعظم کے کوئٹہ جانے میں جو تاخیر ہوئی وہ بھی ایسی نکتہ چینی کا معاملہ نہ تھا مگر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے وزیر اعظم کے بیان کو کھینچ تان کر اپنی مرضی کے معنی پہنانے کی کوشش ‘ وہ ہر گز حقائق کے منافی تھا۔ اس قسم کی بیان بازی اور وزیر اعظم کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا مقصد سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ مذکورہ لیڈرز کا مقصد ملک میں انتشار پیدا کرنا تھا۔تاہم ہفتے کے روز وزیر اعظم کے دورہ کوئٹہ کے بعد امید ہے اس سلسلے کی بیان بازی اور شبہات دم توڑ جائیں گے۔