عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں روز بروز کم ہو رہی ہیں مگر ملک میں عالم یہ ہے کہ پٹرول مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ گندم کی فصل ابھی تیاری کے مراحل میں ہے لیکن راشن کی اشیا‘ چینی‘ آٹا اور گھی وغیرہ پھر سے مہنگے ہو گئے ہیں، نہ کوئی روک ٹوک ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا۔ معمولی سبزی بھی ساٹھ‘ ستر روپے سے کم میں دستیاب نہیں، اگر سخت گورننس کو بروئے کار نہ لایا گیا تو حالات تحریک انصاف کیلئے مزید خراب ہو جائیں گے کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں۔ اگر حکومت کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے‘ لوگوں کو سبسڈی اور ریلیف نہیں دیا جا سکتا، مہنگائی کو لگام نہیں ڈالی جا سکتی، بے روزگاری کی شرح کم نہیں ہو سکتی تو عوام کی ''احتساب‘‘ اور ''این آر او‘‘ میں بھی کوئی کشش اور دلچسپی باقی نہیں رہے گی اور تبدیلی کا نعرہ ہزیمت اور ناکامی کے سوا کوئی نشان چھوڑ کر نہیں جائے گا۔
آج زرعی ملک کو چینی اور گندم کی بر آمد اور درآمد کی کہانیاں سنا کر بہلایا جا رہا ہے۔ اگر آج کے حکمرانوں کو گندم اور چینی چور کہا جا رہا ہے‘ تو دوسری طرف والے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ حکومت پر الزامات لگانے سے پہلے قوم کو یہ بتایا جائے کہ تیس ہزار ٹن چینی‘ 309 ڈالر فی ٹن کے حساب سے کس کے حکم سے اور کن لوگوں نے کس سال برآمد کی تھی؟ بعد ازاں عوام کی ضروریات پوری کرنے کیلئے وہی چینی 475 ڈالر فی ٹن کے حساب سے کس نے در آمد کی تھی؟ غریب اور نچلے متوسط طبقے کا کل بھی کوئی پرسانِ حال نہیں تھا اور آج بھی کوئی نہیں ہے۔ اصول، اخلاقیات اور دیانت کا نعرہ لگا کر سیاست کرنے والے کل تک جس کو بددیا نت اور خائن کہتے تھے‘ آج اسی کی کرپشن کا دفاع کر رہے ہیں۔ سب کو یہ امر پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا محض ایک قیام گاہ ہے، یہاں کسی کو ثبات نہیں ہے۔ جو بھی آیا ہے‘ اسے جانا ہی ہے۔ حکومت بھی کبھی کسی کے گھر کی باندی بن کر نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں اب تک کئی حکمران آئے اور چلے گئے‘ اسی طرح تحریک انصاف کو بھی ایک دن اقتدار چھوڑ کر جانا پڑے گا، کاروانِ حیات کسی کے جانے سے رکا نہیں کرتا لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ جانے والے کو کن الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ اس معاملے میں کسی قسم کی ڈنڈی نہیں مارے گی اور نہ ہی وہ کسی کو کوئی رعایت دیتی ہے۔ اب وزیراعظم کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ ہمیشہ کی طرح‘ ملک و قوم کا ہیرو بن کر دلوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا عمر بھر کی کمائی گئی شہرت، اپنے وقار اور قوم کے پیار کو ضد کے ہاتھوں دفنا کر ہمیشہ کیلئے افسوس اور پشیمانی کا سودا کرنا پسند کریں گے؟ یہی مستقبل کا آئینہ ہے، اپنے کل کو بہتر بنانے کے لیے آج اور ابھی فیصلہ کرنا ہو گا۔ جمہوریت عوام کے فیصلے کا نام ہے‘ کسی ایک گروہ کی دوسرے پر لشکر کشی نہیں کہ جس میں فاتح مفتوحوں کے علاقے میں کھوپڑیوں کے مینار بناتا ہے۔
آج نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں کی قیادت جلسوں، جلوسوں اور ٹی وی چینلز پر سلیکٹڈ کی رٹ لگاتے ہوئے نجانے کیوں بھول جاتی ہے کہ ان پارٹیوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے والے انتخابی نتائج خلا سے نہیں اترے تھے جو کسی کو نظر نہ آئیں۔ یہ سب کے سامنے تھے اور الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پرآج بھی موجود ہیں۔ آج نمبر گیم سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ موجود حکومت سے زیادہ ووٹ متحدہ اپوزیشن کو ملے تھے‘ اس کے باوجود تحریک انصاف کو عوام پر مسلط کر دیا گیا۔ اگر حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو فروری 2008ء کے انتخابی نتائج کے مطابق‘ اس وقت جنرل پرویز مشر ف کی حامی قوتوں نے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ق نے 80 لاکھ 30 ہزار 674 ووٹ حاصل کیے جبکہ اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے25 لاکھ 83 ہزار 757 ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح پیر پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل نے 6 لاکھ 84 ہزار 31 ووٹ حاصل کیے ، نیشنلز پیپلز پارٹی (این پی پی) نے1 لاکھ 63 ہزار 68 ووٹ حاصل کیے اور پیپلز پارٹی شیر پائو نے 1 لاکھ 54 ہزار 991 ووٹ حاصل کیے۔ اس طرح اٹھارہ فروری 2008ء کو پاکستانی عوام نے فیصلہ دیتے ہوئے پرویز مشرف کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کی اور ان کی حامی قوتوں کو 1کروڑ 16 لاکھ 6ہزار 517 ووٹ دیے جبکہ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی پورے پاکستان سے 1 کروڑ 5 لاکھ 46 ہزار 725 ووٹ حاصل کر سکی۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ یہ الیکشن اس وقت ہوا جب پورے پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی الم ناک موت پر پیپلز پارٹی کے لیے بے حساب ہمدردیاں ہر گھر سے ابل رہی تھیں۔ عوام نے محترمہ کے بہیمانہ قتل پر ہر ہمدردی پیپلز پارٹی پر نچھاور کر دی تھی اس کے باوجود پی پی پی کے مقابلے میں جنرل مشر ف کی حامی قوتوں کو 10 لاکھ 59 ہزار 792ووٹ زائد ملے۔ پرویز مشرف کی حامی قوتوں نے سندھ سے پیپلز پارٹی کو شکست دیتے ہوئے44 لاکھ 11 ہزار 978 ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی اپنے گڑھ یعنی سندھ سے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے اتھاہ دکھوں اور غموں کے باوجود صرف35 لاکھ 76ہزار 614 ووٹ حاصل کر سکی۔ اس طرح سندھ سے جنرل مشرف کی حامی قوتوں نے زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی سے 8 لاکھ 35 ہزار 364 زائد ووٹ لیے۔ کیا اس پر یہ کہا جائے کہ سندھ کے عوام نے زرداری صاحب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا؟ اور کیا اس بنیاد پر ان سے استعفے کا مطالبہ کرنا جائز تھا؟
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ جنرل مشرف کی حامی قوتوں کے علیحدہ علیحدہ ووٹوں کو گنتے ہوئے عوام کے فیصلے کی بات کرتے ہیں تو کیا پی پی پی اور نواز لیگ نے ایک پرچم اور ایک نشان کے تحت الیکشن لڑا تھا؟ کیا ان دونوں کا منشور ایک تھا؟ کیا ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی؟ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا، عام انتخابات میں ملک کی تین بڑی پارٹیوں کے علاوہ دوسری چھو ٹی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور چار جماعتوں نے الیکشن جیتنے کے بعد اتحاد بنا کر حکومت بنائی۔ اس پر یہ کہنا کہ عوام نے پرویز مشرف اور ق لیگ کو رد کر دیا تھا، بالکل غلط ہے۔ کس نے کس کو رد کیا تھا‘ یہ انتخابی نتائج خود بتا رہے تھے۔ ان کے مطابق پورے پاکستان سے مسلم لیگ نواز کے حاصل کردہ 67 لاکھ 43 ہزار 437 ووٹوں کے مقابلے میں مسلم لیگ ق نے 80 لاکھ 30 ہزار 674 ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس طرح مشرف کی حامی دوسری قوتوں کے بجائے محض مسلم لیگ ق کے مسلم لیگ نون سے 12 لاکھ 87 ہزار 237 ووٹ زائد تھے۔ کیا یہ ریکارڈ پر نہیں کہ عالمی سیاست کی ایک فعال‘ اعلیٰ عہدیدار غیر ملکی شخصیت نے پاکستان آ کر چودھری برادران کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ باوجود اس کے کہ مقبولیت میں ق لیگ پنجاب میں باقی جماعتوں سے آگے ہے‘ آپ کے حق میں انتخابی نتائج عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔ اب خد اکی قدرت دیکھئے کہ جو بائیڈن جب بظاہر کامیابی حاصل کر چکے ہیں اور کانگریس سے ان کی توثیق بھی ہو چکی ہے، لاکھوں‘ کروڑوں عوام ان کے حق میں آنے والے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر امریکا کو تماشا بنائے کھڑے ہیں۔
1997ء کے عام انتخابات میں پورے پنجاب سے پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کل 115 میں سے صرف ایک نشست حاصل کی جبکہ پاکستان بھر کی207 میں سے صرف 18 قومی اسمبلی کی نشستیں ہی پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی تھیں‘ حالانکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی ہی کی حکومت تھی اور اس وقت کی تاریخی دھاندلی ریکارڈ کا حصہ ہے، کیا اس پر نواز شریف سے استعفیٰ مانگا گیا تھا؟ پی ڈی ایم اگر چشم بینا رکھتی ہے تو دیکھ لے‘ اگر وہ یادداشت سے عاری نہیں تو تصدیق کر لے کہ گزشتہ انتخابات میں عوام نے کن جماعتوں کا ساتھ دیا تھا اور کن پر ووٹرز نے عدم اعتماد کیا تھا۔ یہ حساب کا آسان سا سوال ہے، کسی کو بھی حل کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہئے۔ اب یہی بہتر ہے کہ 2023ء تک صبر کیجئے‘ ورنہ منتخب حکومت کو گرانے کی ریت دوبارہ چل نکلی تو پھر مدتِ مقررہ پوری کرنا آنے والوں بھی کیلئے ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔