"MABC" (space) message & send to 7575

پاکستان تحریک انصاف اور سندھ حکومت

کراچی کے منتخب نمائندوں کے مطابق‘ سندھ حکومت کے مقتدر افراد اپنی نجی محفلوں میں خود یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ان کا حلقۂ انتخاب تو دیہی سندھ ہے اور وہ سب سے زیادہ توجہ ان حلقوں پر دیں گے اور زیادہ تر فنڈز کا استعمال بھی وہیں کریں گے۔ یہ بالکل ویسا ہی معاملہ ہے جیسے کل تک پنجاب کا سب سے زیادہ بجٹ لاہور اور سینٹرل پنجاب کے حصے میں آتا تھا، جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب کا خطہ محرومیوں اور پسماندگی کا سرورق بن چکا ہے۔ مرکزی حکومت کے وزرا سندھ کے مقتدر افراد کو اکثر یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ان کی حکومت اور وزارتیں کراچی سے ملنے والے اس اکثریتی مینڈیٹ کی مرہونِ منت ہیں جو کراچی کے عوام نے انہیں دیا ہے۔ مرکزی حکومت خود بھی ڈھائی سال گزرنے کے با وجود کراچی کیلئے وہ پیکیج بروئے کار نہیں لا سکی جس کا اس نے وعدہ کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے گھائل صرف کراچی ہو رہا ہے جہاں گندگی، کیچڑ، جوہڑوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا راج ہے اور اہالیانِ شہر پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس رہے ہیں۔ تحریک انصاف سندھ حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وزیراعظم سے جو وعدہ کیا گیا تھا کہ SWWMB اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی Devolution کی جائے گی‘ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے لیکن ابھی تک اس پر عمل کرنا تو کجا‘ اس پر ذرا سا بھی کام شروع نہیں ہو سکا۔
جب بھی صوبے کا گورنر یا کوئی وفاقی وزیر کسی بھی صوبے کے وزیراعلیٰ سے وفاق سے طے کئے گئے ایجنڈے پر بات کرتا ہے تو اس میٹنگ میں کی جانے والی بات اس وفاقی وزیر کی ذاتی رائے یا سوچ نہیں ہوتی بلکہ اسے وفاقی حکومت کے چیف ایگزیکٹو کی تجویز یا پیغام سمجھا جاتا ہے۔ اب اگر صوبے کی بات کرنے کیلئے وزیراعلیٰ مرکزی حکومت سے کچھ کہے اور وفاقی حکومت یہ کہہ دے کہ وہ صوبے کی بات نہیں سنے گی یا مرکزی حکومت کا ایجنڈا یا تجویز کسی وزیراعلیٰ کو پیش کی جائے اور وہ کہہ دے کہ ہم کسی کی بات نہیں مانیں گے تو اس طرح کوئی بھی حکومت نہیں چل سکتی۔ یہی علی زیدی اور مراد علی شاہ کا حالیہ جھگڑا ہے جس کا نقصان صرف اہالیانِ کراچی کو برداشت کرنا پڑے گا۔
وزیراعظم کراچی پیکیج پر سندھ حکومت کی مرضی سے عمل کرنے کیلئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں جس میں وزیراعلیٰ سندھ، کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی اور صوبائی وزرا اور چیئر مین این ڈی ایم اے شامل ہیں۔ اب اگر اس کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر یا این ڈی ایم اے کی پیش کی گئی ہر تجویز کو رد کیا جانے لگے تو کیا یہ کراچی کے عوام اور وہاں سے منتخب نمائندوں کی توہین نہیں؟ سندھ حکومت کی مرکزی حکومت کے خلاف سخت رویے کی یہ وجہ سامنے آ رہی ہے کہ شاید وہ سمجھتی ہے کہ چند روز قبل نوری آباد اور سندھ ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنی میں مبینہ اربوں روپے کی بد عنوانی پر داخل کیے جانے والے ریفرنس میں وفاقی حکومت کی مرضی شامل ہے۔
وفاقی وزیر میری ٹائم سکیورٹی سید علی حیدر زیدی اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات پر مبنی وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خطوط میڈیا پر آنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکمران جماعتوں کے مابین بیان بازی کی جنگ مخالفانہ نعر ے بازی میں تبدیل ہو تی جا رہی ہے اور اس جلتی پر تیل ڈالنے کیلئے دیگر اپوزیشن جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ نون یہ کہنا شروع ہو گئی ہے کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے ناکام بنانا چاہتی ہے۔کچھ بھی کہنے سے پہلے مسلم لیگ نواز کو2015ء سے2017ء تک کے عرصہ سیاست کے اوراق پلٹ کر دیکھ لینے چاہئیں کیونکہ جب نواز لیگ مرکز اور پی پی پی سندھ میں حکمران تھی تو دونوں جماعتیں آج سے کئی گنا زیادہ باہم دست و گریبان رہتی تھیں۔ ایک دوسرے کے خلاف وہ باتیں اور وہ ‘وہ بیانات دیے جاتے تھے کہ الامان الحفیظ۔ وفاقی وزیر کی حیثیت سے علی زیدی اور سندھ کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے مراد علی شاہ‘ دونوں ہی یہ چاہتے ہوں گے کہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے سندھ کی خدمت کریں اور ان غریب، بے بس اور بدقسمت افراد اور خاندانوں کی زندگیوں میں کچھ بہتری لے کر آئیں جو مسائل کی دلدل میں سر سے پائوں تک دھنسے ہوئے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں آپس میں سر جوڑنا ہوں گے‘ ٹکرانا نہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت کراچی میں قبضہ مافیا کچھ زیادہ ہی سرگرم رہا ہے اور اس میں بدقسمتی یہ رہی کہ کسی بھی دور میں اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہر نئی صبح اونچی اونچی دیواریں اور کچی پکی جھگیاں قانون اور کمشنری نظام کے کرتا دھرتائوں کے سامنے مشروم کی طرح اگتی رہیں اور سب ان مشرومز سے پیٹ بھرتے رہے، کسی نے ان کے ساتھ بے تحاشا اگنے والی کانٹے دار جھاڑیوں کو اکھاڑ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اب اگر کراچی میں ہر طرف کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہر آنے جانے والے کا راستہ روکے کھڑے ہیں، اگر ہر گلی اور ہر سڑک ناجائز تجاوزات اور قبضہ گروپ کی بندوقوں نے روک رکھی ہے، اگر محلوں، گلیوں، فلیٹوں کی چھتوں اور دریچو ں سے اپنے عوامی نمائندوں کو آوازیں دے کر چیخ و پکار کرتے عوام اپنے گھروں اور دروازوں کے سامنے سے کوڑے کرکٹ کے پہاڑ اٹھانے کی دہائیاں دے رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والا کوئی رکن اسمبلی یا وفاقی وزیر چپ چاپ بیٹھا تماشا دیکھتا رہے؟ یہ آوزیں‘ یہ احتجاجی نعرے میڈیا کی سکرینوں اور اخبارات کے صفحات ذریعے ان کے نمائندوں اور وفاقی وزراء تک بھی پہنچتے ہیں‘ پھر چاہے کوئی وزیراعلیٰ ہو یا وفاقی وزیر‘ سب کو اپنی سیاست اور کل کے ووٹوں کیلئے عوام کی مدد کو آنا پڑتا ہے اور اس کیلئے اگر کسی کی آواز میں کچھ تیزی یا تلخی آتی ہے تو اس کی وجہ وہ چنگھاڑیں ہوتی ہیں جو اہل کراچی کورس کی شکل میں نکال رہے ہوتے ہیں۔
میری اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور پی پی پی کی صوبائی حکومت کے مابین عدم تعاون کی وجہ پچیس صفحات پر مشتمل پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا آرڈیننس 2020ء ہے جس کے مطابق سندھ کے غیر آباد سمندری جزیروں پر جدید شہر بسایا جائے گا جس کی ابتدا مرکزی حکومت بنڈال اور ڈنگی سے کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی اسے سندھ کے وسائل پر قبضہ تصور کرتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہی ہے اور اسی وجہ سے وفاق کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ اگر دفاعی لحاظ سے دیکھا جائے تو سیاچن اور کارگل کی طرح‘ کسی بھی چوٹی یا جزیرے کو دشمن کی تخریبی کارروائیوں کیلئے تر نوالہ بنانا کسی طور بھی درست نہیں۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما نثار کھوڑو کا ایک مقامی چینل کو دیے جانے والا ایک انٹرویو خود پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھونچال پیدا کر گیا جس میں انہوں نے ان جزائر پر نئی آبادیوں کو مقامی افراد کی ترقی اور خوشحالی قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور تائید کی۔ اگرچہ بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق اس انٹرویو کے بعد پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ان کو تنبیہ کی گئی، لیکن اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے اندر بھی باشعور لوگ اس آرڈیننس کو سندھ کی ترقی کیلئے مفید سمجھتے ہیں۔بنڈال جزیرے پر ایک نیا شہر بسانے کی خواہش یا پروگرام کسی ایک وفاقی وزیر کا نہیں بلکہ یہ منصوبہ پورے پاکستان‘ بالخصوص سندھ کیلئے ترقی اور خوشحالی کا پیغام لے کر آئے گا۔ اس جزیرے پر اگر جدید قسم کا نیا شہر آباد ہوتا ہے تو اس سے سیاحت کو فروغ حاصل ہو گا اور صوبے کے چھوٹے بڑے سرمایہ کاروں کیلئے نئی راہیں کھلیں گی اور بیروزگاری کے طوفان کی شدت میں کمی آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں